ڈاکٹر زواگو ، روسی ناول

ڈاکٹر زواگو ۔۔۔۔ ناول جس نے ایک پوری سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا تھا (1)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بورس پاسترناک روسی یہودی تھے۔ آج سے ایک سو اکتیس سال پہلے یعنی 1890ء میں ماسکو میں پیدا ہوئے۔ والد ’لیوند پاسترناک‘ ماسکو کے ’سکول آف پینٹنگ‘میں پروفیسر تھے۔ ان کے تعارف کا زیادہ بڑا حوالہ یہ ہے کہ مشہور ادیب ٹالسٹائی کی کتابوں میں موجود مصوری پاسترناک ہی نے کی تھی۔ بورس کی والدہ ’روسا کوفمین‘ مختلف کنسرٹس میں جا کر پیانو بجایا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس گھرانے میں ادیبوں کا بھی آنا جانا تھا اور موسیقاروں کا بھی۔ بورس پاسترناک کی تربیت اسی ماحول میں ہوئی۔

بورس نے ابتدائی تعلیم یوکرائن کے ایک یہودی سکول میں حاصل کی۔ پھر موسیقی کی تعلیم ماسکو میں، بعدازاں فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جرمنی پہنچ گئے۔ روس واپسی پر ان کی شاعری چھپنے لگی۔ جنگ عظیم اول چھڑی اور روس میں انقلاب آیا تو بورس پاسترناک کے کئی عزیز و اقارب روس چھوڑ گئے لیکن بورس نے روس ہی میں زندگی گزارنا پسند کی۔1922ء میں ان کی شاعری کا مجموعہ شائع ہوا: ’زندگی، میری بہن‘۔ دوسری طرف وہ شیکسپئیر، گوئٹے اور دیگر ادیبوں کی تحریروں کے تراجم بھی کر رہے تھے۔

٭ڈاکٹر زواگو

بورس کے قلم سے لکھا جانے والا عالمی شہرت یافتہ ناول ’ڈاکٹر زواگو‘ کئی دہائیوں میں لکھاگیا۔ اس کے بعض حصے1910ء کی دہائی میں، بعض 1920ء کی دہائی میں لکھے گئے تاہم یہ 1956ء میں مکمل ہوا۔ پاسترناک نے ناول لکھ کر روسی ادبی جریدے ’نوئے میر‘ میں اشاعت کے لئے بھیجا لیکن ایڈیٹرز نے اسے سوشل ازم اور سوویت نظام کے خلاف قرار دیتے ہوئے شائع کرنے سے انکار کردیا۔ بہرحال ہونی کو کون روک سکتا ہے۔

1957ء میں ’ڈاکٹر زواگو‘ شائع ہوا، لیکن روس میں نہیں بلکہ اٹلی میں چھپا۔ روس میں شائع نہ ہونے کا سبب یہ تھا کہ اس میں سوویت یونین کے مسائل پر بات کی گئی تھی۔ وہاں کا انقلابی طبقہ سمجھتا تھا کہ یہ سوویت نظام کے خلاف ہے۔ اس ناول نے بورس پاسترناک کو عالمی سطح پر شہرت بخشی۔ ناول اس قدر مقبول ہوا کہ جلد ہی دنیا کی مختلف 18زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ اس کی وسیع پیمانے پر اشاعت میں امریکی خفیہ ادارے ’سی آئی اے‘ نے بھی غیرمعمولی دلچسپی لی۔ سی آئی اے کا خیال تھا کہ یہ ناول پڑھنے سے سوویت یونین کے شہریوں کو اپنے نظام حکومت میں خرابیوں کا علم ہوگا۔ اور پھر ریاستی جبر کا یہ ثبوت بھی ان کے سامنے آجائے گا کہ ایک مقبول ناول نگار کے ناول کو روس میں شائع نہیں ہونے دیا گیا۔

٭ ناول سوویت یونین سے باہر کیسے پہنچا اور سی آئی اے کے ہاتھ کیسے لگا؟

یہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ بورس پاسترناک جب اچھی طرح جان گئے کہ یہ ناول ان کے ملک میں شائع نہیں ہو سکتا، کمیونسٹ اسے کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے ناول کے ٹائپ شدہ مسودے کئی غیرملکی مہمانوں کو دیے کہ وہ بیرون ملک اس کی اشاعت کا اہتمام کروائیں۔ انھی میں سے ایک اطالوی صحافی ’جیانجیاکوموفلٹرینیلی‘ بھی تھا جو ماسکو میں کام کرتا تھا، وہ صحافت کے ساتھ ساتھ ایک اطالوی پبلشر کے ایجنٹ کے طور پر بھی کام کرتا تھا۔

وہ مئی 1956ء کی ایک دوپہر بورس پاسترناک سے ملنے جا پہنچا۔ بورس ماسکو سے باہر ادیبوں کی ایک رہائشی کالونی میں رہتے تھے۔ جب جیانجیاکوموفلٹرینیلی 66 سالہ ادیب کے گھر کے قریب پہنچا تو وہ اپنے باغیچے میں کچھ کام کر رہے تھے۔ بورس نے سرگیو ڈی انگولو کو دیکھا تو مسکراتے ہوئے باغیچے سے باہر آگئے، مہمان سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ کچھ دیر باتیں ہوئیں، اسی دوران مہمان کو کچھ کھلایا پلایا گیا۔ ملاقات کے اختتام پر بورس نے غیر ملکی مہمان کو مسودہ تھما دیا۔ ناول نگار نے امید ظاہر کی کہ یہ ناول سوویت یونین کے باہر کی دنیا کے سامنے آجائے گا۔ اور پھر تلخی اور طنز بھرے لہجے میں کہا:
”میں آپ کو اپنے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے لائے جانے کے موقع پر مدعو کرتا ہوں، ضرور تشریف لایئے گا۔“

سوویت یونین کے حکام کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اطالوی صحافی کس قدر خطرناک ہتھیار لے کر اٹلی جا رہا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ماسکو کے نواح میں ”تیار ہونے والا ہتھیار“ سی آئی اے کے ہاتھ لگے گا اور وہ اسے سوویت یونین کے خلاف ہی استعمال کرے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ بورس پاسترناک کے بھی خواب و خیال میں نہ تھا۔ ماسکو سے نکلتے ہوئے جیانجیاکوموفلٹرینیلی کے سامان کی تلاشی نہ لی گئی کیونکہ صحافیوں کی تلاشی نہیں لی جاتی تھی۔

یوں ناول کا مسودہ کامیابی سے پبلشر تک پہنچ گیا۔ جلد ہی پبلشر اور بورس پاسترناک کے درمیان معاہدہ ہوگیا۔اسی اثنا میں سوویت حکام کو بھی خبر ہوگئی۔ انھوں نے پبلشر سے رابطہ کیا، اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ ناول کا اطالوی ترجمہ شائع نہ کرے، تاہم ناول1957ء میں شائع ہو کر رہا۔

بعدازاں ناول برطانوی خفیہ ادارے ’ایم آئی سکس‘ کے ہاتھ لگ گیا۔ برطانوی حکام کا خیال تھا کہ یہ امریکیوں کے لئے نہایت مفید ہتھیار ثابت ہوگا۔ سی آئی اے نے ناول ہیگ میں روسی کتابوں کے ایک پبلشر سے شائع کروایا لیکن مکمل راز داری سے، کسی کو احساس ہی نہ ہوا کہ امریکی اس معاملے میں ملوث ہیں۔

روسی زبان میں ’ڈاکٹر زواگو‘ شائع ہوا تو برسلز، بیلجیم میں منعقدہ نمائش میں آنے والے سوویت مہمانوں کو ناول کے نسخے پیش کیے گئے۔ ان مہمانوں نے فوراً ناول کی جلد پھاڑ کر جلا دی۔ اور ناول کے صفحات کو کئی حصوں میں تقسیم کر لیا تاکہ اسے پوشیدہ رکھنے میں سہولت ہو۔ دوسری طرف بورس کو ناول شائع ہونے کی اڑتی اڑتی خبر مل گئی۔ انھوں نے پیرس میں ایک دوست کے نام پیغام بھیجا اور استفسار کیا کہ واقعی ’ڈاکٹر زواگو‘ شائع ہوگیا ہے؟ دوست نے خبر کی تصدیق کردی۔

بعد ازاں سی آئی اے نے ناول ہالینڈ سے روسی زبان میں شائع کروانے کی کوشش کی تاہم اس کی خبر اطالوی پبلشر کو ہوگئی۔ اس نے کہا کہ یہ ناول روسی زبان میں کسی بھی دوسری جگہ سے شائع ہوا تو وہ قانونی کارروائی کرے گا۔ چنانچہ سی آئی اے کی طرف سے اسے ایک خطیر رقم دے کر راضی کیا گیا۔ پھر سی آئی اے نے اسے امریکا سے بھی شائع کرایا،

اب کی بار ایک جعلی فرانسیسی پبلشر کا نام استعمال کیا گیا۔ اور اس کے نسخے1959ء کے ’عالمی فیسٹیول آف یوتھ‘ میں سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے نوجوانوں کو دیے گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس فیسٹیول کا اہتمام کیمونسٹوں نے کیا تھا لیکن وہ بھانپ ہی نہ سکے کہ اس میلے میں سی آئی اے کیا کچھ کرنے جا رہی ہے۔ نوجوانوں سے کہا گیا کہ یہ ناول لیں، پڑھیں لیکن اپنے ممالک میں لے کر نہ جائیں۔( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں