ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر ، سکالر ، ریاست جموں و کشمیر

گزشتہ دسمبر

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر
مرکز برائے تحقیق و پالیسی مطالعات ، بارہمولہ

آسمان ٹھنڈی سانسیں لے رہا تھا۔ وہ سانسیں فرش کو دُھند آلود کرچکی تھیں ۔ سالِ رواں اس دُھند آلود ماحول میں اپنی آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ پورا کشمیر یخ بستہ تھا۔ خزاں جوانی کی دہلیز پر تھی اور ’چلہ کلان‘ اپنے چوبن پر۔ لہو جمادینے والے ان ساعتوں میں شہرِخاص بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے کچھ نفوس ملت کے درد کا درماں بن کر ایک جگہ جمع تھے۔ گم گشتہ راہ کی بازیافت کیلئے ، عزم و ہمت کے کوہِ بے کراں!


25دسمبر1999ء سنیچر کا دن تھا اور 1420ھ رمضان کی 17 تاریخ ۔ اولڈ ٹاون بارہمولہ کے آٹھ نو جوان دارالفرقان والکتب اسلامیہ محلہ جامع میں اکھٹے تھے۔ تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا تو وہ چہرے نظروں کے سامنے تفکر اور بار گراں لئے درسگاہ کے بالائی کمرے میں تشریف فرما اُمت کی زبوں حالی پر مصروفِ آہ وفغاں نظر آرہے تھے ۔ اکثریت کا دین سے لاتعلقی، بگڑتی اخلاقی صورتحال اور بڑھتی ہوئی خرافات کا علاج ڈھونڈنا ان کا مطمع نظر تھا۔


اس صف میں سبھی پڑھے لکھے گھرانوں سے نکلے ہوئے شائستہ جوان موجود تھے۔ علیک سلیک کے بعد تعارف ہوا تو غلام محمد بٹ صاحب ، سہیل بشیر کار صاحب ، شوکت احمد بٹ صاحب ، ڈاکٹر رئیس احمد ڈار صاحب ، عرفان اِلٰہی شالہ صاحب ، خورشید احمد بٹ صاحب ، ریاض احمد فلاحی صاحب اور جاوید احمد زنگہ صاحب کو موجود پایا۔ ان سبھی کو اپنے مقصد وجود کی تلاش یہاں کھینچ لائی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم (انسان) جانوروں کی طرح اس دنیا میں لاکر نہیں بٹھائے گئے ہیں کہ بس بطن و فرج کے تقاضے پورے کریں ۔ بلکہ ہمارا ایک مقصد وجود ہے اور صحیح مقصد کی بازیافت انسانیت کی معراج ہے۔

کشمیر میں اُس زمانے میں سیاسی جبر کی وجہ سے دینی و ملّی کاموں میں ایک ٹھیراﺅ سا آچکا تھا۔ کچھ افراد یا ادارے اگرچہ مقدور بھر کوشش کر رہے تھے لیکن اُن میں اکثر مسلک کے اسیر ہو کر رہ گئے تھے۔ درس گاہ جامع میں موجود مذکورہ نوجوانوں نے اس سے بالاتر ہوکر سوچا کہ امت کو اس زبوں حالی سے نکالنے کا ایک ذریعہ اتحاد و اتفاق کی رسی کو تھامنے سے سامنے آئے گا۔ مسلکی ، گروہی ، تنظیمی ، فکری و نظریاتی عصبیتوں سے بالاتر ہوکر سوچنا پڑے گا اور ابنائے قوم کی فکر کو اسی ڈگر پر ڈالنا ہوگا ۔۔۔۔


سان فرانسسکو،امریکہ کے ’میور‘جنگل میں کئی راز پنہاہے جن میں سے ایک Redwood treeبھی ہے۔اس قسم کے درخت کاشمار دنیامیں سب سے لمبے اورقدیم درختوں میں ہوتا ہے۔ اُن میں سے کچھ ہزاروں سال پرانے درخت اب بھی اس جنگل میں موجود ہیں ۔ جو کہ صدیوں سے بادِ تُند، طوفان، زلزلوں اور خسف کے باوجود اپنی جگہ ایستادہ ہیں۔ حالانکہ ان درختوں کی جڑ زمین کی تہہ تک نہیں ہوتی بلکہ سطحِ زمین سے تھوڑا نیچے اپنا مسکن بنا دیتی ہے۔

اس کے باوصف مذکورہ اشجارصدیوں سے باد و باران اور طوفان کو انگیز کرتے آئے اورمانند چٹان اپنی جگہ قائم ہیں۔ آخر ایسا کیسے؟ دراصل ان درختوں کی جڑزمین کے نیچے پھیل کراپنی’نسل‘کے Redwood treeکی جڑ تلاشتے ہیں اور جب وہ مٹی کے نیچے ملتے ہیں تووہ ایک دوسرے کوباہم لپیٹ لیتے ہیں اور ایک مستقل جوڑ بنا لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پورے جنگل میں مذکورہ درخت بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن کر ’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘ بنے ہوئے ہیں۔

اتحاد ان کی طاقت ہے ۔ صدیوں سے وہ ایک دوسرے کاخیال رکھ رہے ہیں ۔ اس عمل سے وہ غیرشعوری طورپر’ایثار‘،’قربانی‘’ہمدردی‘ اور ’اخوت‘ کاپیغام ’باشعور انسانوں‘ کو پہنچاتے ہیں۔ اس جنگل میں مذکورہ درخت کے’ نوزائیدہ بچے ‘کے ننھے جڑوں کو بھی عمررسیدہ ’بزرگ‘درختوں کی جڑیں اپنے ’سایہ‘میں پروان چڑھاتے ہیں۔Muir woodsکے ذریعے خالقِ کائنات انسانوں کوسبق دینا چاہ رہاہے کہ اصل قوت ایک دوسرے سے محبت ، اتحاد ، اخوت ، ہمدردی ، تعاون ، ایثار اور قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ تفرقہ ایک وبا ہے جس نے ’ اشرف المخلوقات ‘ کو ذلت کی حدتک پہنچایا ہے۔


17 رمضان 1420ھ وہ دن تھا جب ’ فلاح الدارین بارہمولہ ‘ کا بیج بویا گیا۔ اس بیج کے کاشت کار صرف چند نوجوان تھے، جن کی تعداد آٹھ تک ہی تھی ۔17 رمضان کوعالم اسلام میں حق و باطل کے بیچ تصادم اور باطل پر حق کے غلبے کی علامت کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔’ بد ر‘ میں مسلمانوں کی قلیل تعداد نے کثرت کو پیوند خاک کیا اور تا قیامت حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی ۔ آج بھی چند نفوس جمع ہوکر باطل کی سازشوں ، اپنوں کی بے توجہی و غفلت ، سہل پسندی و تعیشانہ مزاج کا مقابلہ کرنے کیلئے جمع تھے۔ اس بیج کو تناور درخت کی صورت میں پروان چڑھانے کیلئے غورو خوض جاری تھا۔

آپسی مشاورت کے بعد طے پایاکہ وابستگان کی فکری تربیت ، تعلیم و تزکیہ کیلئے ایک ’ درس گاہ ‘ کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں ہر مکتب فکر سے وابستہ نوجوانوں کی فکری و عملی پیاس کو بُجھانے کا سامان مہیا رکھا جائے گا۔ اس درسگاہ پر کسی مخصوص مسلک کی چھاپ ہوگی نہ ہی کسی خاص فکر کا قلادہ بلکہ جس چیز نے اس اُمت کے اول حصے کو ہدایت دی اور اصلاح کی، وہی چیز اس اُمت کے موجودہ حالات کوسُدھارنے کا ذریعہ بنے گا یعنی قرآن کریم ، جو ہر آلائش سے پاک ہے، ہر عیب سے منزّہ۔ قیامت تک کے لئے انسانوں کی ہدایت کا الٰہی منشور۔ رب کا کلام جو کہ پیغمبروں کی سرگز شتِ دعوت کا انذار ہے اور کائنات کے راز کا پردہ کشا ۔

باہمی تعلیم و تربیت ، تزکیہ فکر و تطہیرِعمل اور اُلفت و محبت کیلئے یہ اجتماعیت وجود میں لائی گئی۔ ابتدائََ تربیت کیلئے ہفتہ وار کلاس کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ درس گاہ اسی پروگرام تک محدود تھا۔ شہرِ خاص کے یمین و یسار سے نوجوان اس’ پودے‘ کی پرورش کیلئے جمع ہوتے گئے اور دین سے واقف ہوتے گئے۔ قرآن سے جو رسمی تعلق تھا وہ اب مستقل تعلق میں تبدیل ہوتا گیا۔ اب تک قرآن کو صرف ثواب کی غرض سے پڑھا جاتا تھا لیکن اب سے ہدایت کے لئے اس کی ورق گردانی ہونے لگی۔ انفاق ، ایثار ، محبت ،الفت ، ہمدردی ، اخوت یہ سب الفاظ پرائمری اسکول سے کالج لیول تک بس نصاب کی کتب میں دیکھے تھے اور مقررین و واعظین کے دہن سے سنے تھے لیکن اس اجتماعیت کے طفیل ان الفاظ کے معنی تک ہماری رسائی ہوئی۔

اتنا ہی نہیں بلکہ’ معنی‘ٰ سے تھوڑا آگے پہنچا کر ہمیں عمل پر اُکسایا۔ خوشی و غمی میں دوسروں کے کام آنا دین کا تقاضا ہے، یہ وہاں ہمیں ازبر ہوا۔ دلوں سے کدورت ، نفرت ، تکبر ، نخوت نکال کر ہر ایک کیلئے اس لو تھڑے ( دل ) میں وسعت پیدا کرنا قرآن کا پیغام ہے اور ہر عمل کی جڑ ہے، یہ ہم نے وہی سمجھا ۔ کون ہدایت پر ہے ، کون ضلالت پر ۔ کون جنتی ہے، کون جہنمی اس کا فیصلہ اس فرش پر کرنے کا کسی بھی بندے کا حق نہیں بلکہ یہ خدائی فیصلے ہیں ، جو اللہ اس دنیا کے اختتام پر نئی زمین پر اور نئے آسمان کی تخلیق کے بعد کرے گا، یہ ہم نے وہاں جانا۔

چاروں مسالک کے امام ہمارے مخدوم و مکرم اور بزرگ ترین ہستیاں ہیں۔ اُن کا ادب ، احترام اورتکریم ہم پر واجب ہے، یہ ہم نے وہی سیکھا۔ دیوبندی ، بریلوی ، جماعتی ،تبلیغی، اہل حدیث وغیرہ سب اس ملت کے محسن ہیں۔ اسلام کی شمع کو اپنی صوابدید اوراجتہاد کے مطابق روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ان سبھی کی عزت کرنا، ان سے فیض حاصل کرنا ، یہ تربیت ہمیں اس درس گاہ میں ملی۔ وہ لوگ جو ان میں سے کسی جماعت، ادارہ یا مسلک سے وابستہ نہیں بلکہ شب و روز اپنی ذاتی مصروفیات میں مشغول رہتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو کماحقّہ پوراکرتے ہیں لیکن کسی فکر و نظر کے نمائندے نہیں ہیں، وہ سب بھی مسلمان ہیں اور ہدایت یافتہ ہیں، ان کے متعلق بھی دل میں نرم گوشہ رکھنا۔ زبردستی ان پر اپنی فکر نہ تھوپنا ۔یہ بھی ہم نے اس درسگاہ میں ہی سمجھا اور یہ بھی کہ ہم جہنم کے داروغہ نہیں ہیں کہ ماسوا خود کے سبھی کو جہنم رسید کریں اور نا ہی ہم جنت کے رضوان ہیں کہ جسے چاہیں جنت نشیں کریں۔


غرض فلاح الدارین بھی دیگر اداروں اور تنظیموں کی مانند ایک اجتہادی اجتماعیت کی صورت میں وجود میں آئی اور آہستہ آہستہ، تادمِ تحریر بارہمولہ کی زرخیز مٹی میں اس’ پودے‘ کو تناور’ درخت ‘کی صورت پرورش کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ معروف و منکر کی سمجھ حاصل ہوئی۔ قرآن کے آفاقی پیغام سے بہرہ یاب ہوئے۔ حدیث رسول ﷺ سے اپنے ذہنوں کو معطر کرنے لگے۔ اسلاف کی اسلام کے تئیں جدوجہد ، ان کا زہد و تقویٰ منکشف ہوا۔ مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور برادران قوم کیلئے ہرآں خیر سوچنے کی فکر دامن گیر ہوگئی۔


کوئی بھی اجتماعیت کسی نظم کے بغیر تصور نہیں کی جاسکتی ۔ فلاح الدارین نے بھی ایک نظم تشکیل دیا اس لئے شروع میں قائمقام امیر خورشید احمد بٹ صاحب منتخب ہوئے۔ ایک ماہ بعد انتخابات ہوئے اور عبوری نظم کی جگہ نیا مستقل نظم وجود میں آیا۔ انتخابات کے نتیجے میں خورشید احمد بٹ صاحب امیر ، عبدالبصیر توحیدی صاحب نائب امیر اور سہیل بشیر کارصاحب سیکریٹری منتخب ہوئے۔ آغاز میں تربیتی کلاسز جامع کے مذکورہ درسگاہ میں ہی ہفتہ واری بنیادوں پر ہوتے رہے لیکن کچھ مدت بعد کلاسز بوجوہ درس گاہ تعلیم القرآن محلہ گنائی حمام قصبہ خاص منتقل کرنا پڑا۔


سوسائٹی کے مختلف افراد کو فلاح الدارین سے متعارف کرانے کیلئے ایک خصوصی پروگرام ’عید ملن‘ کے عنوان سے محلہ جامع کے درسگاہ میں منعقد کیا گیا۔ مہمان خصوصی مفتی عبدالرحیم صاحب ( دارالعلوم المصطفوی ، توحید گنج بارہمولہ ) تھے۔ اس پروگرام میں موصوف نے’ فلاح الدارین ‘ کی کاوشوں کو سراہا اور بصدقِ دل ہمدردی کا مظاہرہ کرکے اپنے زرّیں خیالات و مشوروں سے نوازا۔ پروگرام میں قصبہ کے قرب وجوار سے مختلف شخصیات بھی مدعو تھیں ۔ انہوں نے بھی فلاح الدارین کے تئیں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور تجاویز سے ہمیں مستفید کیا۔ مادی غذا کو سُپرد شکم اور روحانی غذا کو سُپرد دماغ کرنے کے بعد مذکورہ سماجی نوعیت کا پہلا پروگرام خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔


فلاح الدارین کے امورات کو آگے بڑھانے کیلئے چھ ماہ کے بعد نئی انتظامیہ کاتقررعمل میں لایا گیا، جس کے نتیجے میں عبد البصیر توحیدی صاحب امیر ، فردوس احمد حمال صاحب نائب امیر و خازن ، سہیل بشیر کار صاحب سیکریٹری اور غلام محمد بٹ صاحب لائبریرین منتخب ہوئے۔ نئی کمیٹی تشکیل دینے کے بعد پروگراموں میں بھی جدت و ندرت آئی ۔ علمی و فکری تربیت کیلئے تربیتی کلاسز کے علاوہ سماج سے وابستہ رہنے کیلئے کچھ سماجی پروگراموں کا بھی دور چلا۔


دوسری عید کی آمد کے ساتھ ہی’ فلاح الدارین‘ کو لوگوں کے قریب لانے کے لئے ایک اور ’عید ملن‘ کا پروگرام عمل میں لایا گیا۔ مذکورہ پروگرام شاہِ ہمدان قرآنک سینٹر محلہ ککر حمام بارہمولہ میں رکھا گیا۔ اس درس گاہ کے ایک طرف دریائے جہلم بہتا ہے اور دوسری طرف گاڑیاں’بہتی‘ رہتی ہیں۔ پروگرام میں حسب دستور مختلف مکاتب فکر سے وابستہ اشخاص کو مدعو کیا گیا تھا۔ مقررین میں مرحوم غلام رسول مخدومی صاحب ، عبدالرشید صاحب (جماعت اسلامی) ، اطہر علی قریشی صاحب اور مفتی اعجاز احمد صاحب شامل تھے۔ مہمان مقررین نے ’فلسفہ عید‘ کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپسی بھائی چارے ، ہمدردی اور اتحاد و اتفاق پر بھی زور دیا۔ علاوہ ازیں پروگرام میں شامل سبھی مہمانوں نے فلاح الدارین کی اس سعی کی خوب تحسین کی اور مستقبل میں بھی ایسے پروگرامات کے انعقاد کا مشورہ دیا۔


جنوری 2000 ء’ بوڑھا ‘ سال خاکستر فضاءمیں اپنی آخری ٹھنڈی سانسیں بھر کر گزر گیا تھا اور وہ رات آگئی جس میں زمانہ نئے سال کو ہستی کے تخت پر بٹھاتا ہے ۔ مدھم روشنی روپوش ہوگئی اور تاریکیوں نے وادی میں اپنی چھاﺅنی بنالی ۔ برف شدت سے ہوئی تھی اور ہوا برف کو اپنے ساتھ لیے ہانپتی کانپتی، پہاڑ کی بلندیوں سے آبادیوں کی طرف سرکانے لگی تاکہ نشیبی خالی حصوں کو پُر کردے ۔ بے لباس درخت اس کی ہیبت سے کانپنے لگے اور زمین اس کے قدموں میں تڑپنے لگی ۔ میدان ، ٹیلے اور راستے ایک سفید صفحہ کی مثال ہوگئے جس پر قدرت بہم سطریں لکھتی ہیں اور مٹا دیتی ہیں ۔کہر نے وادی کے کنارے پھیلے ہوئے گاﺅں و قصبہ جات کو ایک دوسرے سے الگ کردیا ۔مکانوں کی کھڑکیوں سے آتی ہوئی مدہم روشنیاں چھپ گئیں ۔اس ہیجان انگیز فضا میں ادارہ فلاح الدارین اپنے مقصد کی آبیاری میں ہمہ تن مصروف تھا ۔

دن ہفتوں،ہفتے مہینوں اورمہینے سالوں میں بیت گئے۔ دسمبر1999ء سے اب تک آسمان نے کتنے رنگ بدلے ، دودہائیوں پرمحیط ادارہ کی تاریخ قصبہ بارہمولہ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ چند نوجوانوں کا مبنی بھرخلوص اقدام تھا کہ اللہ نے نصرت کے دروازے وا کئے۔ جب لوگ اکتوبر زلزلے کے بعد اپنی دنیا بچانے کی فکرمیں تھے تب کارکنانِ ادارہ اوڑی اور بارہمولہ کی گلیوں میں دوسروں کی دنیا آباد کرنے کی اپنی سی کوششوں میں مصروف تھے۔

قصبہ بارہمولہ کا نادار، مفلوک الحال طبقہ نانِ شبینہ کو ترس رہا تھا ، تو وہ چند نوجوان اُن کے ٹھنڈے چولہوں کو گرم کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے ۔ تب وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سماجی خدمات کے لئے 2002ء میں 25 ہزار روپے جمع کرنے والا ادارہ اللہ کے فضل سے مستقبل میں قصبہ کے 450 غریب گھروں کو مستقل بنیادوں پرماہانہ سامانِ اکل و شرب مہیا کرے گا۔ ایک سے ڈیڑھ کروڑروپے سماج کے پسماندہ طبقہ پران کی عزتِ نفس کو ملحوظِ نظررکھ کرمنظم طریقے پر خرچ کیا جاتا ہے ۔ سال میں دو تین بار ضلعی اسپتال میں عطیہ خون کاکیمپ لگایاجاتاہے ۔

مغرب نمازکے بعد قصبہ کی مختلف مساجد میں قریب ڈیڑھ سو دروس قرآن منعقد ہوتے ہیں۔ منشیات کے خلاف مہم میں ادارہ نے نشہ کرنے والے قریبََا 200 افراد کی کونسلنگ کرائی اور اپنے اخراجات پر ضلعی اسپتال بارہمولہ (حال گورنمنٹ میڈیکل کالج )میں علاج کرایا ۔ کسی ناگہانی آفت کے پیش نظر ادارہ کے کارکنان رضاکارانہ طور پر قصبہ کے متاثرہ افراد کی خدمت کے لئے کمربستہ ہوجاتے ہیں۔2014 ء کے سیلاب نے جب کشمیرکے یمین و یسار میں خوف و ہراس کا عالم بپا کیا،تب بھی کارکنانِ ادارہ دیگرفلاحی تنظیموں کی طرح امید کی کرن بن کرمتاثرین کی مدد کے لئے پیش پیش رہے۔ کووڈ(Covid 19)کے دوران50 آکسیجن مشینزخرید کرضرورت مندوں میں تقسیم کیں۔

معیاری تحقیقی ادارے کسی بھی قوم کی تعلیمی و فکری نشوونما اورسائنسی دریافت کے لئے ازحد ضروری ہیں، اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ادارہ نے ایک تحقیقی ادارہ’Centre for research and policy studies‘( مرکزبرائے تحقیق و پالیسی مطالعات ) کاقیام عمل میں لایاجس میں متنوع موضوعات پر پی ۔ایچ ۔ ڈی اسکالرز ابھی کام کررہے ہیں۔ معیاری تعلیم اور اخلاقی اقدار کا پاس و لحاظ قوموں کے عروج کا ضامن ہے۔ اس خلاکو پُر کرنے کے لئے ادارہ نے ایک اور سنگِ میل ’عارفین اسکول آف ایکسلینس‘ کھول کے پورا کیا۔

صباحی و مسائی مدرسوں میں نونہالوں کو قرآن کی تعلیم سے بہرہ مند کرنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک سیلبس کے تحت گزشتہ 15 سالوں سے پڑھایاجاتاہے ۔ کووڈ کے دوران جب کہ سبھی گھروں میں محصورتھے۔ سبھی اداروں میں سناٹا تھا، پوری دنیا میں زیست کے پہیے کو نادیدہ جرثومے نے جامد کردیا تھا، ادارہ نے ان حالات میں آن لائن قرآن کلاسزشروع کرکے اس سلسلے کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ غرض چاہے کہرآلود یخ بستہ ’مایوس‘ سرد لہر وں والے ایام ہوں یا آگ برساتی چلملاتی دھوپ کا موسم ،جب بھی ہمیں فرض نے پکارا ہم بارہمولہ کے عوام کے لئے کمربستہ ہو کر نکلے۔


ہماری کوشش ہے کہ ہم مِثل شجرسماج میں رہیں، جس کا وجود ہرحال میں خیر ہی خیرہے۔ کوئی پتھر مارے تو پھل کی سوغات پیش کریں ، تھکے ہارے مایوس و مضطر دلوں کوہمارے پاس ٹھنڈی چھائوں میسر ہو ، سستانے والوں کو آغوشِ محبت میں لیں ، جو انسان کی ذات ، رنگ ، فکر ، نظریہ ، مذہب ، مسلک ، وضع قطع ، سروپا کا نقشہ دیکھ کر زیست کی ہوا نہیں بکھیرتا۔ جو مشرقی و مغربی دیکھتا ہے نہ عربی وعجمی میں امتیاز کرتا ہے ۔ جس کا وجود غذا بھی ہے،دوا بھی ۔ جو زندگی بھی ہے اور شفاء بھی۔۔۔


ادارہ پارسائی کادعوٰی نہیں کرتا۔ پارسا تو فرشتے ہیں اور ہم گناہگارانسان۔۔۔ ان دو دہائیوں میں جو کام بھی کیا ، وہ بارہمولہ کے عوام پر کوئی احسان نہیں ہے۔ یہ تواُس ذاتِ بے ہمتا کا فضل و احسان ہے ، جو وہ ہم سے یہ کام لے رہا ہے۔ لوگوں سے ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پروا۔ زندگی سانسوں کا ’بوجھ‘ لئے ہوئے ہے نہ جانے کب بلاوا آجائے ۔ دفترِ اعمال خالی ہے ، خیرکے یہ چند قدم چل کر توقع ہے کہ اللہ اس کے بدلے ہم سے در گزرفرمائے گا۔اپنی آخرت کی فکرمیں یہ بساط بھر کوشش ہے۔ اللہ کرے وہ ہمیں ان محسنین میں شامل کرے جو قوم کے لئے اپنی زندگی کا صدقہ کرتے ہیں۔
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں