مسافر ، ائیرپورٹ ، جہاز

دیار غیر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قیصرہ پروین / راولپنڈی

آج ایک بار پھر ہم سب دوستوں کو اکٹھے ہونے کا موقع مل گیا . ایک دوست کی بیٹی کی شادی تھی ، دس بجنے والے تھے ، ابھی بارات نہیں پہنچی تھی ، باتوں کا سلسلہ چل نکلا اور سکول کا سنہری دور آنکھوں کے سامنے گھوم گیا –

صبح اکٹھے سکول جانا ، تفریح کے وقت اگر کسی کو سبق یاد نہ ہوتا تو اسے یاد کرانا ، کبھی کبھار سزا کی صورت میں ٹیچر کا گراؤنڈ میں سبھی کے سامنے کھڑے کر دینا ، سرسوں کے ساگ کے بنے پراٹھے تو کبھی کڑھی بکوڑے لے کر آنا اور مل بیٹھ کر کھانا –

ایک دوست نے چھیڑتے ہوئے پوچھا کہ کچھ یاد ہے جب ہم سب نے ایک ریپر میں صابن ڈال کر تمہیں دیا تھا اور تم اپنا سبق یاد کرنے میں اتنی مصروف تھی کہ کاغذ اتار کر فوراً منہ میں ڈالا اور پھر صابن تمھارے دانتوں میں پھنس گیا . ہاں وہ شرارت تو کبھی بھی بھلائی نہیں جاسکتی میں نے کہا –

سبھی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں . تفریح کے وقت جب بھی گراؤنڈ میں کوئی چیز والا آتا تو کچھ نہ کچھ کھانے کو دل کرتا مگر پیسے نہ ہونے کی صورت میں یہ خواہش دل ہی میں دم توڑ دیتی ، اور گھر کے پکے پراٹھے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتیں –

عید پہ ملنے والے پیسے جمع کرکے کبھی کبھار سبھی دوست پارٹی کر لیتی تھیں . ریکٹ کے لیے پیسے جمع کر کے اپنا شوق پورا کر لیتیں . ہمارا گھر ایک مہمان خانہ تھا جہاں آپا ، باجی اور اس کے بعد ہماری سہیلیاں مل بیٹھتیں . زندگی کو خوب انجوائے کیا . والدین بھی اندھا اعتبار کرتے تھے. برائیاں تو ہر دور میں ہی رہی ہیں مگر تربیت اور والدین کا اعتماد انسان کو کبھی برائی کے گڑھے میں گرنے نہیں دیتا –

فالتو وقت تھا کہ ماضی کو کرید کرید کر سامنے لایا جارہا تھا . بچیاں ہاتھ میں موبائل لیے اپنی دنیا میں مگن تھیں . کبھی کبھار ہماری باتیں سن کر ہنس دیتں ، بھلا ان کو ہماری یادوں اور بچپن سے کیا واسطہ ؟

سال کے اختتام پہ سکول کی پکنک ناقابل فراموش تھی. یاد ہے جب کسی نے پلاؤ ، کسی نے چنا چاٹ تو کسی نے پکوڑے بنا کر لائے تھے. کلر کہار کی سیر ، کالج کے لڑکوں کی چھیڑ چھاڑ سے سبھی کو جلدی جلدی بسوں میں سوار ہونے کا حکم مل گیا ، گنتی شروع ہوئی تو دو لڑکیاں غاہب تھیں –

کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے اور ہم سب کے ساتھ بھی یہی ہوا . ہمارا سامان پہاڑی کے اوپر رہ گیا جب ہم سامان لے کر بس میں داخل ہوئیں تو پرنسپل نے خوب ڈانٹا .

سب کو بسوں میں سوار کر کے روانہ کر دیا گیا اور پرنسپل گارڈ کے ساتھ ان لڑکیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگیں . وہ وہاں ہوتیں تو ملتیں . والدین کی عزت کو خاک میں ملا کر اپنے عاشقوں کے ساتھ کسی اور منزل کی طرف چل پڑی تھیں . ایسی منزل جو بے حیائی اور ذلت کے سوا کچھ نہ تھی . ان کی اس حرکت کی وجہ سے سکول کی طرف سے پکنک پہ پابندی لگ گئی . کرے کوئی بھرے کوئی . ایک بات تو بھول ہی گئی . جب سب نے چار سوتی کی کڑھائی والے کپڑے بنائے اور پورے سکول کی اساتذہ اور لڑکیوں کی داد وصول کی –

ثمینہ کہنے لگی کہ میرا بڑا بیٹا لندن جا کر مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے وہ ٹیوشن پڑھا کر پیسے جمع کرنے پہ لگا ہوا ہے میں نے لاکھ سمجھایا کہ یہیں رہ کر مزید تعلیم حاصل کر لینا مگر اس کا کہنا ہے کہ تعلیم حاصل کر کے وطن واپس لوٹ آؤں گا –
میں نے کہا کہ یہ ہم سب کی غلط فہمی ہے . ایک دفعہ جو وطن سے دور چلا جائے پھر وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتا ، اپنے پیاروں کے جنازوں پہ بھی نہیں کیونکہ دیار غیر ایک دلدل ہے . انسان کی مجبوریاں اسے اس دلدل سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتیں –

ایسا تو نہ کہو مجھے پہلے ہی مت ڈراؤ . میرا بیٹا بہت فرمانبردار ہے وہ ایسا کچھ سوچے گا بھی نہیں . ثمینہ نے خوف زدہ لہجے میں کہا –
اللہ کرے ایسا ہی ہو . سب ایسے نہیں ہوتے مگر اکثریت کی مجبوریاں ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں . وہ لوٹ کر آنا بھی چاہیں تو لوث نہیں سکتے –

والدین اور بہن بھائی برسوں تک ان کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں ، اس کی زندہ مثال میری خالہ اور خالو ہیں . خالو نے دو شادیاں کی تھیں. بڑی بیوی سے اولاد نہ تھی . پھر میری خالہ سے شادی ہوئی ، ان سے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے –

خالو نے تین چار بھینسیں رکھی تھیں جن کا دودھ دھو کر اسلام آباد میں جا کر گھروں میں دیتے تھے لیکن خالو اکثر بیمار رہتے تھے ، گھر میں کوئی اور کمانے والا بھی نہ تھا ، ماموں وغیرہ مل کر مہینے کا سودا گھر میں ڈال دیتے تھے جس کی وجہ سے ان کی گزر بسر ہوتی تھی .

جب میرے کزن اقبال نے ایف ، اے مکمل کر لیا تو اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر ہی میں چھوٹی موٹی ٹیوشن پڑھانے لگا ، بڑی امی بھی محلے کے لوگوں کا کوئی نہ کوئی کام کر دیتیں . اس طرح گھر کا تھوڑا بہت خرچہ چلنے لگا – دو بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اب اقبال کی شادی کے بعد خالو کے سر پہ ایک بیٹی کا بوجھ باقی تھا . اقبال کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا . گھر کے اخراجات بھی بڑھنے لگے مگر کہتے ہیں کہ جس روح نے آنا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رزق بھی ساتھ ہی لکھ دیتے ہیں –

امریکہ کے شہر ٹیکساس کو آباد کرنے کے لیے امریکی حکومت نے ایک لاٹری ڈالی جس میں مختلف صلاحیتوں کے مالک لوگوں کو وہاں نوکری ملنی تھی . میرے کزن نے بھی شوق ہی شوق میں اس لسٹ میں اپنا نام ڈال دیا . اسے کیا معلوم تھا کہ اس کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو جائے گا جہاں زندگی کی سہولتیں تو میسر آ جائیں گی مگر اپنے سے جڑے رشتے ایک ایک کرکے جدا ہو جائیں گے-

پھر وہ دن بھی آ گیا جب اقبال اپنے پیاروں کو چھوڑ کر دیار غیر آباد ہو گیا . خالہ سے زیادہ بڑی امی نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا –
کہتے ہیں کہ سوتیلے اچھے نہیں ہوتے مگر ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا، ساری انگلیاں برابر نہیں ہوتیں . اقبال کی بڑی امی نے خالہ سے زیادہ اسے پیار اور محبت دی . اقبال کے جانے کے بعد اس کے بیٹیوں اور بیوی کو بھی اسی نظر سے دیکھا جس نظر سے اقبال کو دیکھتی تھیں –

اقبال کو سٹور میں اچھی نوکری مل گئی . وہ ہر ماہ اپنے بیوی ، بچوں اور والدین کے لیے علیحدہ علیحدہ خرچہ بھیجتا . پانچ سال پلک جھپکتے ہی گزر گئے . اس دوران اس نے اپنے بیوی بچوں کو بھی وہاں بلا لیا .

اجنبی ماحول اور اجنبی شہر صبا کے لیے ایک قید خانے سے کم نہ تھا . اقبال تو صبح کا گیا شام کو لوٹتا تھا . صبا بچوں کے ساتھ گھر میں اکیلی ہوتی تھی . امریکہ میں آندھی طوفان بہت زیادہ آتے ہیں اور جس شہر میں یہ رہ رہے تھے وہاں تو اکثر ایسا ہوتا کہ زور سے بادل گرجتے ، بجلی چمکتی ، طوفانی ہوائیں گاڑیوں تک کو اڑا کر لے جاتی –

صبا کو بجلی کی کڑک سے بہت ڈر لگتا تھا . بچوں کو لے کر گھر کے ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ جاتی اور اس طوفان کے ٹلنے کی دعائیں مانگتی –

ان کے گھر کے کچھ فاصلے پہ ایک دو پاکستانی فیملیز آباد تھیں جن سے اسے بہت ڈھارس ملتی تھی . کچھ اور بھی پاکستانی ، انڈین بنگلہ دیشی ، نیپالی اور دوسرے اسلامی ممالک کے لوگ آباد تھے . ان کے گھر سے کچھ فاصلے پہ ایک مسجد تھی جہاں جمعے کے دن سبھی اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ اکٹھے ہوتے تھے . ہر کوئی اپنے اپنے گھروں سے کچھ نہ کچھ پکا کر لاتا اور یوں نماز جمعہ کے بعد خواتین علیحدہ اور مرد علیحدہ کھانا کھاتے . اس طرح گھر کا ماحول بھی بنا ہوا تھا اور ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی بھی ہو جاتی تھی –

اسلام میں اکٹھے نماز کا فائدہ ہی یہی ہے کہ ایک دوسرے کی خیریت اور پریشانی کا پتہ چل جاتا ہے . کچھ عورتیں وہاں چیزیں فروخت کرنے کے لیے بھی ساتھ لے آتی تھیں . اس طرح ان کے رزق میں بھی برکت بڑھ جاتی . ویسے بھی اسلام نے نماز کے بعد زمین میں پھیل جانے اور تجارت کرنے کا حکم دیا ہے –

ان کے گھر کے پیچھے بہت بڑا جنگل تھا ، ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا . ایک دن ایک سانپ گھر میں گھس آیا . صبا تو خوف سے مرے جا رہی تھی ، اس نے کانپتے ہاتھوں اقبال کو فون کیا اور پھر ریسکیو والے آئے اور سانپ کو پکڑ کر لے گئے . امریکہ والوں کی ایک بات جو اچھی یہ ہے کہ وہ جانوروں کا بہت خیال رکھتے ہیں ، یہاں تو انسانوں کو انسانوں سے خطرہ لگا رہتا ہے . بھرے خاندان سے نکل کر اکیلے زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں ناممکن سی بات ہے مگر کچھ پانے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے –

اقبال کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی. اس نے اپنے دونوں بچوں کو سکول داخل کروا دیا . اب گھریلو اخراجات میں بھی اضافہ ہونے لگا مگر جب خدا نے دور رزق لکھ دیا تھا تو پھر کچھ نہ کچھ مشکلات کے بعد آسانی بھی تو پیدا کرے گا –
اب اقبال کے ہاں ایک اور بیٹی کی پیدائش ہوئی ، کہتے ہیں کہ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں اور ایسا ہی ہوا .

اقبال اپنے خاندان کے ساتھ اپنے پیاروں کو ملنے آ رہا تھا ان سے زیادہ ان کے بچے خوش تھے . وطن کی مٹی کو چھوتے ہی انھوں نے رب کا شکر ادا کیا . آج وہ اقبال محض اقبال نہ تھا ، ایک کامیاب بزنس مین بن چکا تھا ، جو کچھ چاہتا پیسے سے خرید سکتا تھا . مہنگی گاڑی اپنا گھر اپنا بزنس مگر وہ ایک چیز نہ بھولا تھا اپنوں کا احسان اور ان کی نیکیاں . وہی انسان اچھا ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے احسان کو یاد رکھے –

سب بہت خوش تھے ، بڑی امی کے لیے تو گویا عید تھی . ہر کوئی ان کے لیے گفٹ خرید رہا تھا . دعوتیں کی جا رہی تھیں ، کبھی مری تو کبھی ناران کاغان کی سیر کے منصوبے بنائے جا رہے تھے . ڈیڑھ ماہ گزرتے دیر ہی نہ لگی. واپس لوٹ کر اس نے اپنی بڑی ماں کے حج کے لیے پیسے جمع کرنے شروع کیے اور وہ اس میں کامیاب ہو گیا . اگر وہ چاہتا تو سب سے پہلے اپنی ماں کو بھیجتا مگر اس نے ایسا نہ کیا اور انصاف کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ہر چیز پہ پہلے بڑوں کا حق ہوتا ہے –

والدین کی دعاؤں سے اس نے اپنا سٹور کھول لیا ، کامیابی اس کے قدم چومنے لگی ، اب اس کے لیے اگلا قدم اپنے والدین کو حج پہ بھیجنا تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ خالہ حج پہ جانے کے لیے راضی نہ تھیں ، وہ جہاز کی اڑان سے بہت ڈرتی تھیں . ان کا خیال تھا کہ خدانخواستہ اگر جہاز کریش ہو گیا تو ان کی ہڈیاں تک نہ ملیں گی ، سب نے انھیں سمجھایا کہ دیکھیں آپ کا اصل خاندان تو دیار غیر میں آباد ہے وہ بھی تو جہاز پہ گئے تھے اور پھر موت کا تو ایک وقت اور جگہ متعین ہے – ہر کسی نے انھیں حوصلہ دیا اور یوں وہ دونوں اللہ اور اس کے حبیب کے روضہ مبارک پہ پہنچ گئے –

دونوں خالائیں کہا کرتی تھیں کہ حج صرف امیر ہی کر سکتے ہیں غریب صرف خواب دیکھ سکتے ہیں مگر نہیں ، جس روح نے لبیک کہا اس نے ہر حال میں اللہ تعالٰی کے گھر کی زیارت کرنی ہے –

اقبال کے دونوں بیٹے اب کالج پہنچ چکے تھے ، ساتھ ساتھ جاب بھی کر رہے تھے تاکہ والد کے ساتھ کچھ ہاتھ بٹ جائے اور ویسے بھی دوسرے ممالک میں میٹرک کے بعد بچے جاب کرنے لگ جاتے ہیں . ایک ہمارا پاکستان ہے جہاں ساری عمر بچوں کو بچہ ہی سمجھا جاتا ہے اسے بڑا ہو کر اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کے مواقع ہی فراہم نہیں کیے جاتے –

زندگی کے دن اچھے گزر رہے تھے کہ ایک دن اقبال کو بری خبر سننے کو ملی . اس کی جان سے بھی پیاری بڑی ماں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ، ان کے لیے یہ خبر کسی قیامت سے کم نہ تھی . بس ایک ہفتہ ہی بیمار رہی تھیں . ڈاکٹر نے جگر کا کینسر بتایا –

………………………

اسی دوران میں ” بارات آ گئی ، بارات آ گئی ” سبھی نے شور مچا دیا . لڑکیاں ہاتھوں میں گلاب کی پتیوں سے سجی پلیٹیں لیے لائنیں بنائے دروازے پہ کھڑی ہو گئیں –

دلہا کی امی ، کزنز ان کے بچے اور کئی بزرگ خواتین ہال میں داخل ہوئیں . سبھی کے اوپر پھول برسائے گئے . دلہا کی نانی اور دادی اماں وفات پا چکی تھیں . اس کی پھپھو نے ان دونوں کا کردار ادا کیا –

دلہا کی کوئی بہن بھائی نہ تھا ، وہ اکیلا ہی تھا مگر یہ کمی اس کے چچا اور پھپھو زاد بہن بھائیوں نے پوری کر دی –

سبھی مہمانوں کو ان کی جگہ بڑے احترام کے ساتھ بٹھایا گیا . کچھ دیر بعد دلہا کو ہال میں لایا گیا . اگرچہ اس کے خاندان کے لوگ زیادہ تھے مگر وہ پھر بھی نروس ہوا جا رہا تھا –

کرسی پہ بیٹھنے کے پچاس ہزار لیے جا رہے تھے آخر دلہن کے ابو نے آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو کرسی چھوڑ نے کا اشارہ کیا . یوں بات دس ہزار پہ ختم ہو گئی – چھوٹی بہن نے دودھ پلائی کی رسم میں دو ہزار وصول کر لیے –

بعض اوقات یہ چھوٹی چھوٹی رسمیں اگرچہ اس وقت ہمیں اچھی لگتی ہیں مگر بعد میں کئی گھرانوں کے ٹوٹنے کا سبب بھی بن جاتی ہیں –
تمام رسوم کے بعد سبھی مہمان اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے – ابھی کھانے میں وقت تھا – لہذا میری دوست کے بجائے بچیوں نے کہانی دوبارہ سنانے پہ اصرار کیا –

……………………

وطن اور اپنوں سے دور جب بری خبر سننے کو ملے تو اس وقت ان پہ کیا گزرتی ہے یہ وہاں کہ رہنے والے ہی بہتر بتا سکتے ہیں ، یہاں تو سبھی اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو سہارا دے دیتے ہیں وہاں تو کوئی سہارا دینے والا بھی نہیں ہوتا –

میری چھوٹی کزن اپنے تایا ابو کی بہو تھی . دونوں گھر جڑے ہوئے تھے . اگرچہ کھانا پکانا علیحدہ علیحدہ تھا مگر وہ اور اس کا میاں جوکہ ایک ہاتھ سے معذور تھا ان کا بہت خیال رکھتے تھے –

خالہ کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے اقبال نے خالہ اور خالو کو اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کیا مگر مسئلہ پھر وہی آن کھڑا ہوا کہ جہاز میں نہیں بیٹھوں گی . اب اقبال نے اپنی ساس کو بھی ان کے ساتھ بلانے کا فیصلہ کیا – اس طرح ان تینوں کے نصیب میں بھی اس ملک کا رزق لکھ دیا گیا –

پاکستان میں تو ہر کوئی کسی نہ کسی طرح وقت نکال کر ایک دوسرے کے پاس چند گھڑیاں بیٹھ کر ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی میں شریک ہو جاتا ہے مگر وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا – بعض اوقات ایک ہی کمرے میں رہنے والوں کی آپس میں ملاقات نہیں ہوتی کہ کون کب آیا اور کب گیا . پیسے کی ریل پیل نے رشتوں میں اتنی دوریاں پیدا کر دی ہیں کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت ہے نہ بچوں کے پاس والدین کے لیے چند لمحے –

چند ایسے گھرانے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے ذریعے اپنے بچوں کی پرورش کر رہے ہیں اور انھیں رشتوں کی اہمیت اور خاندان کے فائدے بتا کر اپنا مستقبل محفوظ کر رہے ہیں ورنہ تو ہر کوئی اپنی زندگی اپنی مرضی کے اصولوں پہ چل رہا ہے –

خالو اور صبا کی امی نے کسی نہ کسی طرح دو مہینے گزار لیے مگر خالہ وطن واپسی پہ بضد تھیں – آخر کار دو مہینے گزار کر سبھی پاکستان لوٹ آئے – دن رات اچھے گزر رہے تھے کہ اقبال کو بزنس میں نقصان ہونا شروع ہو گیا اس کی سمجھ میں اس کی
وجہ نہ آ سکی – شاید سبھی بچے زیر تعلیم تھے اور دو دو گھروں کو خرچہ بھیجنا اب اس کے لیے مشکل تھا –

جب اقبال کے ہاں پانچویں بچے کی پیدائش ہوئی تو اس وقت گھر کے حالات بہت خراب ہو چکے تھے . سٹور ختم ہو گیا ، وہ جس سٹور پہ پہلے کام کرتا تھا اس کے مالک نے اسے دوبارہ جاب پہ رکھ لیا –

صبا بچیوں کو سکول چھوڑنے کے بعد طلحہ کو ساتھ لیتی اور سکول جاب پہ چلی جاتی – واپس آ کر پھر کچھ کام شروع کر لیتی – اس کی بڑی بیٹی بھی اس کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹا دیتی –

اس نے آن لائن جیولری اور کپڑوں کا کاروبار بھی شروع کردیا . اس کی بھابھی پاکستان سے مال لے کر اسے پارسل کرتیں اور وہ سکول یا کسی تقریب میں سٹال لگاتی . اس طرح اس کے کام میں برکت ہوئی اور حالات میں کچھ بہتری آنے لگی. اقبال نے بھی دن رات کی محنت سے اپنا کھویا ہوا سٹور واپس خرید لیا –

ان کے بڑے بیٹے انجینئرنگ کے آخری سال میں تھے . چھوٹی بیٹی نے بھی انجینئرنگ کا شعبہ منتخب کیا . اس سے چھوٹی بیٹی نویں جماعت میں تھی جبکہ طلحہ پانچویں جماعت میں پہنچ گیا –

کہتے ہیں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں تمھیں مال کے گھاٹے ، اولاد اور بیماری دے کر آزماؤں گا اور ان تمام آزمائشوں سے وہ سب گزر رہے تھے – وطن سے دور جب کوئی خوشی کی خبر ملے تب بھی دل اداس ہو جاتا ہے اور جب غم کی کوئی خبر ملے وہ بھی جان پہ بجلی بن کر گرتی ہے –

اقبال اور صبا کے لیے دو بہت بری خبریں تھیں. اس کی جان سے پیاری تائی امی اور پھر چھ مہینے بعد اس کے تایا منہ کے سرطان میں مبتلا ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے –

سردی کا موسم تھا . گیس نہ ہونے کے برابر تھا . کبھی گیس کا پریشر کم ہوتا اور کبھی بڑھ جاتا ، صبا کے دو بہن بھائی معذور تھے ، کمرہ گرم رکھنے کے لیے جب گیس کا کا پریشر کچھ زیادہ ہوا تو صبا کی امی نے ان کے کمرے میں ہیٹر لگا دیا تا کہ کمرہ کچھ گرم ہو جائے – اسی دوران اس کی امی اپنے کزن کی بیٹی کی شادی پہ تیار ہو کر جانے والوں کو رخصت کرنے ساتھ والے گھر چلی گئی صرف دس منٹ ہی کا وقت گزرا تھا کہ ان کے بیٹے کا کمبل جوکہ ہیٹر کے کچھ فاصلے پہ پڑا تھا گیس کا پریشر زیادہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا –

وہ معصوم سے فرشتے بچاؤ بچاؤ کی آوازیں نکالتے رہے چیختے رہے ، مگر ان کی چیخ پکار کی آوازیں کسی کے کانوں تک نہ پہنچی اور وہ آگ کے شعلوں کی نذر ہو گئے – ظفر اور ہما کے جسم کی ہڈیاں کوئلہ بن چکی تھیں ، دور دور سے لوگ اس منظر کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے – ریسکیو اور پولیس کی لائن لگ گئی . جس کسی نے بھی یہ منظر دیکھا تھا ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی –

ان معصوم بے زبان فرشتوں کی موت ایسے لکھی تھی اس میں سبھی کے لیے بہت بڑی آزمائش تھی – صبا نے ٹیلی ویژن پہ جب خبر سنی تو سکتے میں آ گئی رو رو کر برا حال کر لیا . کسی نہ کسی طرح پاکستان آنا چاہ رہی تھی مگر کیسے آخر مہینے بعد وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ پاکستان آئی –

مہینے بعد واپسی کا وقت بھی آ گیا ، ابھی ہفتہ ہی گزرا تھا کہ خالو کے گر جانے کی خبر انھی مل گئی . میری خالہ زاد بہن اور اس کے میاں کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش تھی ، پیمپر باندھنا انھیں صاف کرنا نہلانا دہلانا سبھی کچھ وہ کر رہے تھے ، اللہ تعالیٰ صبر اور ہمت بھی انھی لوگوں کو دیتا ہے جو کہ اس کے قابل ہوتے ہیں . دونوں میاں بیوی اور نواسی نے دن رات ایک کر کے ان کی خدمت کی –

اقبال ایک مہینے کی چھٹی پہ آیا اور جو ہو سکتا تھا اپنے والدین کی خدمت کی ، ابھی اسے لوٹے ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ خالو کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے – ان کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا ، مگر کیا جا سکتا تھا روز روز وطن واپسی اتنی آسان نہ تھی ، اقبال خالہ جان کی عدت ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے تاکہ انھیں اپنے پاس بلا لیں –
خالہ کبھی جانے کی ہامی بھر لیتیں اور کبھی انکار کر دیتیں ، آخرکار وہ اپنے بچوں کے پاس پہنچ گئیں ، مگر وہاں جا کر بھی وہ ایک دو مہینے ہی رہیں گی اور پھر واپسی کی ضد شروع کر دیں –

…………..

آنٹی ! کتنی دکھ بھری داستان سنائی ہے . ہم تو اپنے بھائی کو کبھی بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دیں گے ، ثمینہ کی بیٹی جو کہ بہت توجہ سے میری باتیں سن رہی تھی بول اٹھی :

ہاں میں بھی اپنے بیٹے کو اپنی آنکھوں سے کبھی دور نہیں کروں گی , پیسے کی خاطر اسے کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہونے دوں گی . وطن ہی میں سب کچھ ہے روکھی سوکھی کھا کر گزرا کر لیں گے مگر اس کی جوانی کو دیار غیر کی نذر نہیں کروں گی .

ثمینہ کی آنکھوں میں خوشی کی چمک پھیل گئی – سبھی اپنے اپنے ٹیبل سے اٹھ کر کھانے پہ ایسے جھپٹ پڑیں جیسے شکاری شکار پہ جھپٹ پڑتا ہے –


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “دیار غیر”

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    مڈل ایسٹ ھو یا یوروپ اور امریکہ ہر جگہ کے مسائل ہیں اور بہت سارے پاکستان میں رہنے والوں کو سمجھ نہیں آسکتے۔۔۔لیکن ہر جگہ اہک کہانی ہر دوسرا یا تیسرا شخص سنائے گا کہ میں نے ہمیشہ کے لئے پاکستان سیٹ ھونے کے لئے اپنے رشتہ داروں کو پیسہ بھیجا کہ وہ میرے لئے کاروبا ر سیٹ کر دیں لیکن آخر کار وہ کاروبار ان رشتہ داروں کا ھوتا ھے ناکہ اس دیار غیر میں مقیم شخص کا اور یہ تو بہت common ھے کہ ان آبائی جائیداد پر قبضہ ھو جاتا ھے۔۔۔۔لیکن جو کچھ بھی ھو دل دل پاکستان جان جان پاکستان