باحجاب مسلمان استاد کلاس میں پڑھاتے ہوئے

تعلیم مفت یا معاوضہ کے ساتھ ، بہتر طرزعمل کون سا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت حسین

فی زمانہ سکھانے والوں کو یہ بات ضرور بتائی جاتی ہے کہ جو بھی کورس ہو اس کی فیس ضرور رکھیں تاکہ یہ مفت کا کلچر ختم ہوسکے ۔۔۔۔
ذاتی طور پر ہمیشہ اس فیس اور فری کے درمیان اعتدال کا رحجان پسند آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے نزدیک علم دینے والے کا اصل سرمایہ اس کی بھاری بھرکم فیس نہیں بلکہ اخلاص ہے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت بھاری بھرکم فیس بھی کسی صاحب علم کے علم کا معاوضہ نہیں بن سکتی ۔
صاحب علم کا سرمایہ اخلاص اگر اس کے پاس ہے تو اس کے علم کی تاثیر بن جاتا ہے ۔

سکھانے والے کی نیت کیا ہے اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن علم کے ذریعے اگر پیسہ پیسہ جوڑنے کی ہوس ، شہرت کی تمناء ، جمگھٹے کا شوق ، جی حضور کی صدائوں کی متلاشی سماعتیں ، خواص تک پہنچنے کی آرزو ہے تو یہ روحانی بیماریاں ۔۔۔۔۔ علم کی تاثیر ختم کردیتی ہے ۔

پھر سکھانے والا صرف لفظوں کا کھلاڑی ہوتا ہے ۔۔ لکھتا ہے تو پڑھنے والے کی آنکھ دماغ کی لذت کا سامان تو کر دیتی ہے لیکن الفاظ قلب و نظر میں اترے بغیر ہی دھواں بن کر اڑ جاتے ہیں ۔
بولنے والا ہوگا تو بولے گا تو چھا جائے گا ۔۔۔۔ مسحور کردے گا ۔۔۔۔ علمی نکتوں سے محفل لوٹ لے گا لوگ دل و جگر تھام لیں گے ۔۔۔۔ لیکن قلوب پر اثر نہیں ہوگا۔۔۔۔ نظریات کی تبدیلی نہیں ہوگی ۔۔۔

ہمارے اسلاف علم حاصل کرنے کی چاہت میں مارے مارے پھرتے تھے ۔۔۔۔۔ اور سکھانے کے مراحل میں بھی بحیثیت استاد اس کو بیچتے نہیں تھے ۔۔۔۔۔
اس لئے بات فیس لینے کی نہیں ۔۔۔۔ علم کی قیمت لگانے کی ہے جو پہلے علم کی روح کھینچ لیتی ہے پھر ہر طبقے کو اس کی حیثیت کے مطابق علم دینے کی قیمت مقرر کرتی ہے ۔۔۔۔
تعلیم کے لئے بھاری بھرکم فیسوں کا نقصان ۔۔۔

1.عوام الناس میں یہ خیال عام ہو جانا کہ تعلیم و تربیت صرف مہنگی جگہوں میں ہی دستیاب ہے جبکہ بہت سے اہل علم جو کہ گم نام بھی ہیں اور کم فیس کے ساتھ یا رضاکارانہ ہی بہت بہترین کام کررہے ہیں ۔۔۔ اصل اہل علم حضرات کی ناقدری کا عام ہوجانا ۔۔۔ ان کی طرف توجہ کم ہونا ان کو بے کار اور فضول سمجھنا کہ جبھی تو قیمت اتنی کم ہے ۔

مہنگی تعلیم دینے کی وجہ سے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے اس کو گلیمرائز کرنا اس کے ساتھ ظاہری چکاچوند کرنے والے عوامل کو شامل کرنا تاکہ لوگوں کو پیسہ دیتے وقت کھلے نہیں ۔۔۔جس سے لوگوں کی توجہ علم کے بجائے ظاہری چیزوں کی جانب مبذول ہوتی ہے اور اب یہ رحجان دین کی تعلیم کی طرف بھی منتقل ہورہا ہے ۔

مہنگی اور پہنچ سے دور ہونے کی بناء پر معاشرے کے ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقے تک ہی علم و ہنر حکمت کو محدود کئے رکھنا ۔۔۔۔ عوم الناس کو اس کا فائدہ نہ پہچانا ۔

ہم نے بھی ذاتی طور پر جو بھی کام کیا اس میں اس پہلو کو ہمیشہ مدنظر رکھا کہ ایسی فیس رکھی جائے جو لوگوں کو دیتے وقت اتنی بار نہ بنے کہ دینا ہی محال ہو جائے ۔۔۔۔
ایک مناسب فیس کے ساتھ ۔۔۔۔۔ زیادہ لوگوں تک رسائی سب سے بہتر اپروچ ہے نہ کہ بہت مہنگی فیس کے ساتھ ۔۔۔ تھوڑے لوگوں کو فائدہ پہنچانا ۔۔۔

علم ۔۔۔۔۔صحت ۔۔۔۔۔۔۔ اور فلاح انسانیت کے دیگر خدمت کے ہیں ۔ تعلیم کے شعبے میں لوٹ مار کرنے کی نیت سے ہی علم کی تنزلی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ اس میں اگر کوئی مناسب معاوضہ دیگر بہت سی ضروری وجوہات کی بناء پر رکھا جاتا ہے تو اس کا کوئی مناسب معیار خود ہی مقرر کرلینا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی فیس آپ کو مہنگا تو ثابت کرسکتی ہے لیکن صاحب علم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “تعلیم مفت یا معاوضہ کے ساتھ ، بہتر طرزعمل کون سا ہے؟”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    بہت علم دوست تحریر ہے ۔