نوجوان خاتون

لبادہ ۔۔۔۔۔ ( اردو افسانہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نگہت سلطانہ / گجرات

وہ بھولے بھالے بادل جو دن بھر نیلے آسمان پر اٹھکیلیاں کرتے رہے تھے
شام ہوتے ہی طوفانی بارش کا روپ دھار چکے تھے۔
مون سون کی بارشیں اسے بہت پسند تھیں مگر آج کی بارش نے اس کی بائیس سال پرانی یادوں کی کتاب کے کئی ورق کھول کر رکھ دیے۔ ہاں وہ بھی ایک طوفانی شام تھی جب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کتاب کا ہر ورق لرزا دینے والا تھا۔ ناخوشگوار یادوں کی کتاب ابھی بند نہیں ہوئی تھی کہ پنکی کا خیال آ گیا

” اوہ ابھی تک گھر نہیں آئی”
فوراً کال ملائی
” پنکی بیٹا کہاں ہو گھر آؤ "
” مام ! میں عدی کے ساتھ ہوں بارش انجوائے کر رہے ہیں ہم ۔ ۔ ۔ "
” بیٹا بہت دیر ہو چکی ہے اب گھر آجاؤ "
اس کے الفاظ کانپ رہے تھے
” مام کیا کہہ رہی ہیں ابھی تو آٹھ بجے ہیں یار ! ڈونٹ وری آ جاتی ہوں تھوڑی دیر تک ۔ ۔ ۔ "

” بی بی جی! کھانا تیار ہے آئیں ! گرم گرم کھا لیں "
خالہ جی کی انٹری سے بھی اس کی توجہ پنکی کی طرف سے نہ ہٹ پائی ۔ ۔ ۔
” خالہ جی! یوں کرو ، ڈھک کے رکھ دو ، پنکی آتی ہے تو اس کے ساتھ ہی کھاؤں گی۔ مجھے فی الحال ایک کپ چائے بنا دو اچھی سی ۔

………

اس نے موبائل سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا
” جی ! ٹھیک ہے تو پھر اس کے بعد میں اپنے کوارٹر چلی جاؤں ۔ ۔ ؟”
” ہاں ! چلی جاؤ "خالہ جی چلی گئی۔
گھر میں موجود ہر فرد کی وہ "خالہ جی” تھی۔ انتہائی سگھڑ اور مسز ممتاز کے لیے وفادار۔ ان کا کوارٹر بھی دوسرے ملازمین کی طرح کوٹھی کے اندر ہی ایک سائڈ پر تھا۔

………..

” ہاں تو لیڈیز اینڈ جنٹلمین! میں بات کر رہی تھی حقوقِ نسواں بل مجریہ 2016ء کی۔ جب یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اس وقت بھی اس مذہبی طبقے نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ مذہب کے ان ٹھیکیداروں کی environment کیونکہ کسی قسم کے social welfare میں نہیں ہوتی لہذا فارغ اوقات کو اختلافات برائے اختلافات میں گزارتے ہیں۔ بہر حال وہ بل اسمبلی میں پاس ہوا تھا اور ہماری ایماء پر زنا پہ حد جیسی کئی ظالمانہ سزائیں اس ملک کے قانون سے ختم کر دی گئیں۔

تو دوستو! ماروی سرمد کا خواب ہمارا خواب ہے کہ یہ ملک ایک دن سیکولر بن کر رہے گا ۔ ۔ ۔ ۔ "

حاضرین اٹھ اٹھ کر مسز ممتاز کے لیے تالیاں بجانے لگے۔ ہال بے ہنگم ہاؤ ہو سے گونج اٹھا۔ اس شور و غل میں اس کو ڈائس پر پڑے بجتے موبائل فون پر پنکی کی کال اٹینڈ کرنے کا موقع مل گیا۔
” مام ! گھر آ جائیں نا میں عدی کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ "
” عدی کو گھر تو نہیں بلا لیا ۔ ۔ ؟ "
” مام ! عدی میرے ساتھ ہے ، ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں "

"اُفف ! یہ لڑکی نہیں سمجھے گی۔”
اس نے بڑبڑا کر فون بند کر دیا۔
تقریر کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا
"۔ ۔ ۔ ہاں تو حاضرین! اب آتے ہیں 21 جون 2021ء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کو پیش کیے جانے والے بل پر،

اس بل کا سینیٹ میں حکومت اور اپوزیشن کی متفقہ حمایت سے پاس ہو جانا ہمارے وژن کی کامیابی ہے اور آج اس سیمینار میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کے ساتھ شوبز کے ۔ ۔ ۔ افراد کی شرکت، ڈرامہ رائیٹرز اور ملک کے معروف اسٹیک ہولڈرز کی یہاں موجودگی اور معروف این جی اوز کے نمائندگان کی یہاں موجودگی ہمارے لیے حوصلہ افزاء ہے ۔ ۔ ۔”

بھوربن کی جادو اثر خوبصورتیوں میں گھرے اس فائیو اسٹار ہوٹل کا شاندار ہال ایک مرتبہ پھر تالیوں سے گونج اٹھا۔
اور شہر کی مشہور مقررہ اور سوشل ورکر مسز ممتاز کو پھر موبائل فون دیکھنے کا موقع مل گیا جس پر پنکی کا میسج جگمگا رہا تھا۔
” مام ! آپ کا سوشل ورک، آپ کی میٹنگز، آپ کے سیمینارز جانے کب ختم ہوں گے۔ آج بھی عدی آیا اور گھنٹوں آپ کے انتظار میں بیٹھا رہا اور ملے بغیر چلا گیا۔”

” اُفف پنکی! پنکی ! اچھا سنو یہاں آج بڑا پر تکلف ڈنر ہے اور میوزک نائٹ بھی ارینج کی ہے ہماری این جی او نے، میں رات کو لیٹ آؤں گی۔ تم خالہ جی کو ضرور پاس بلا لینا۔”
"۔ ۔ ۔ ہاں تو لیڈیز اینڈ جنٹلمین! "
اس نے تقریر کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔

” میں سمجھتی ہوں محض قانون بن جانا کافی نہیں۔ ہمیں اپنے رویے بھی چیک کرنے چاہئیں۔ ہمیں اپنے بچوں خصوصاً لڑکیوں کو کچھ تو آزادی دینی چاہیے۔ آخر وہ اسی سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیداوار ہیں۔ سمجھ دار ہیں confidant ہیں۔ اپنا اچھا برا سمجھتی ہیں۔ ہر وقت کی روک ٹوک انہیں upset کر دیتی ہے۔”
Am i right ?”
ہال ایک مرتبہ پھر سیٹیوں، تالیوں اور yeah yeah کی آوازوں سے گونج اٹھا۔

…………..

” پنکی ! اٹھ جاؤ بیٹا ۔ ۔ دیکھو تو دن کے بارہ بج رہے ہیں۔ جاگو اب ۔ ۔ "
” اوں ۔ ۔ ۔ ں، سونے دیں مام ۔ ۔ ۔”
” یہ کیا بات ہوئی ۔ ۔ ۔ سارا دن سوکے گزارنا ہے ۔ ۔؟؟”
پھر اچانک مسز ممتاز کو رات والی بات یاد آگئی۔
” میں نے تمہیں تاکید کی تھی کہ خالہ جی کو پاس بلا لینا۔۔۔”
اس کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔ اسی غصے میں اس نے اے سی آف کر دیا۔
” مجھے یہ تو بتائیں آپ کا مسئلہ کیا ہے مام۔ ۔ ؟”
اس نے کمبل دور دے مارا اور مام کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی۔

” آپ دنیا کو تو یہ نصیحت کرتی ہیں کہ اپنے بچوں پر اعتماد کریں، ان پر پابندیاں نہ لگائیں، روک ٹوک نہ کریں، مگر گھر میں آپ کا معاملہ الٹ ہے۔ رات لیٹ کیوں آئی؟ لڑکوں کے ساتھ تو نہیں گھومی پھری؟ خالہ جی کو ساتھ سلا لینا وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔ ۔
اُفف مام ! یہ کیسا contradiction ہے ؟
یہ کیسا liberalism ہے ؟”
” میری بچی! میری بات سنو "
ممتا کا پیار جوش مارنے لگا۔

” رہنے دیں ۔ ۔ نہیں پیار کریں مجھے۔ آپ کے پاس میرے لیے ٹائم بھی تو نہیں۔۔۔
میں ہی شاید وہ سیاہ نصیب ہوں جسے باپ کی شکل دیکھنا نصیب ہی نہ ہوئی اور ماں کو کئی کئی ہفتے ایک نظر دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ماں کا دل کرچی کرچی ہو گیا بیٹی کو بازوؤں میں سمیٹ لیا اور ساتھ کچھ کہنا چاہا مگر کہہ نہ پائی البتہ آنکھوں سے ساون جاری ہو گیا ۔ ۔ ۔

"مام مجھے بتائیں آج ضرور بتائیں یہ تضاد کیوں ہے ؟”
"ضرور بتاؤں گی میری بیٹی پوری سٹوری سناؤں گی لیکن آج نہیں ، پھر کبھی ۔ ۔ "
” کیوں کیوں آج کیوں نہیں ۔ ۔ ؟”
پنکی ایک بار پھر بپھر گئی
” آج یوں کرتے ہیں دونوں ماں بیٹی شاپنگ کے لیے چلتے ہیں مووی بھی دیکھیں گے ، تاکہ میری بیٹی کا موڈ ٹھیک ہو جائے ۔ ۔ "
” آہا یہ ہوئی نا بات !! چلیں میں بس فریش ہو لوں ۔ ۔ ۔ "

…………

نیو ایڈمیشن، اسپورٹس ویک، ٹری پلانٹنگ کیمپین یونیورسٹی میں سب چیزیں اکٹھی شروع ہو گئیں لہذا رش بہت بڑھ گیا تھا۔ اس رش میں پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ اسے تلاش کر رہی تھی کہ اچانک اس پر نظر پڑ گئی
” عدی! عدی! "
” ہیلو پنکی "
” عدی اس ویک اینڈ پر مام گھر ہوں گی سارا دن، تم آؤ گے نا ۔ ؟”
"آں ہاں ہاں "

” سنو پتا نہیں کیوں ایک وہم ساہے کہیں تم بے وفائی نہ کر جاؤ ۔ ۔ ۔!”
” وہم ہے تمہارا ، اچھا پنکی میں اس وقت تمہیں ٹائم نہیں دے رہا کیونکہ ۔ ۔ ۔ "
” تم نے آج جاپان اور جر منی کے دستور کا تقابلی مقابلہ کرنا ہے ۔ ہے نا ؟
” یہی سمجھ لو آخر politics کا اسٹوڈنٹ ہوں "اہم پی اے” کا بیٹا ہوں ۔ ۔ ۔
اوکے اس ویک اینڈ پر ملتے ہیں پھر ۔ ۔ ۔ بائے ۔ ۔ ۔ "
” بائے ۔ ۔ ۔ "

…………

پنکی کے لیے آج کا دن عید سے کم نہ تھا۔
خوشی سے نہال تھی کیونکہ مام نے وعدہ کیا تھا آج کا دن اس کے نام کرنے کا۔۔۔
اور اسے اپنی لائف اسٹوری بھی سنائیں گی اور پھر وہ مام کو عدی کے بارے میں بتائے گی ۔

اس نے خالہ جی سے کہہ کر کئی لذیذ کھانے بنوا لیے تھے اور ایک سرپرائز گفٹ بھی مام کے لئے خرید رکھا تھا ۔ مام نے پرائیویسی کو محفوظ رکھنے کے لیے سبھی ملازمین کو ایک دن کی چھٹی دے دی۔ ناشتہ کے بعد دونوں لان سے ملحقہ کمرے میں بیٹھ گئیں۔
” ہاں تو میری پیاری مام
شروع کریں اپنی اسٹوری اور میرے کوئیسچن کا جواب ۔ ۔ ۔ !”
” ہاں مائی ڈیئر ضرور سناؤں گی
کہانی کچھ یوں ہے کہ ۔ ۔ ۔”

…………

اس کا تعلق تھر کے ایک پسماندہ گھرانے سے تھا ۔ پانچ بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑی تھی۔ بڑی ذہین اور حسین بھی تھی۔ غربت کے باوجود اس نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ میٹرک میں نمایاں پوزیشن کے بعد مٹھی کے گرلز کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ کالج کی بہترین مقررہ بھی تھی۔

شاید ہی کوئی تقریری مقابلہ ایسا ہو جس میں اس نے ٹاپ نہ کیا ہو۔ اس کا باپ وڈیرے کی حویلی میں کمدار تھا۔ ایک دفعہ علاقے میں شدید قحط پڑا اور پھر وبا بھی پھوٹ پڑی جس کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کا باپ چل بسا . پورے گھرانے کے لیے یہ بہت بڑا امتحان تھا۔ وڈیرے نے اتنی مہربانی کی کہ اس کی ماں سے کہا : میرے پوتے پوتیوں کو پڑھانے کے لیے وہ روز حویلی آ جایا کرے۔ یوں ایک مناسب معاوضہ اسے ہر ماہ مل جایا کرتا تھا جس سے اس نے تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور گھر کا خرچہ بھی چلتا رہا ۔

ایک شام جب وہ وڈیرے کی حویلی پہنچی تو اسے پتہ چلا کہ بچے اپنی اپنی ماؤں کے ساتھ ننھیالی علاقے عمرکوٹ گئے ہیں۔ وہ واپسی کے لیے بیرونی برآمدے تک پہنچی ، اسے موسم کے تیور بدلے ہوئے دکھائی دیے۔ جب وہ آئی تھی ہوا کے ہلکے ہلکے جھکڑ چل رہے تھے۔ مگر اب تو جیسے یہ جھکڑ طوفان کی شکل دھار چکے تھے۔ سوچوں میں گم تھی کہ اندر سے ملازمہ آئی اور کہنے لگی

” تاجو بی بی ! اندر آجاؤ کمرے کا دروازہ کھولتی ہوں بیٹھ جاؤ ” ۔ وہ اندر بیٹھ گئی۔ وڈیرے کا سب سے چھوٹا بیٹا جو غیر شادی شدہ تھا آتے جاتے اکثر آنکھ مٹکا کرتا رہتا تھا، اپنی عالیشان گاڑی سے اتر کر جب ادھر سے گزرا تو کھلے دروازے سے نظر سفر کرتی اس کے چہرے پر جا ٹکی۔۔۔ وہ بلا جھجھک کمرے میں آگیا اور پھر باہر کا طوفان تو جانے کب تھم بھی گیا۔ مگر کمرے کے اندر جس طوفان نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا تھا وہ جب تھما تو اس کی چادر تار تار ہو چکی تھی۔ چادر سے قیمتی ایک چیز سے وہ محروم ہو چکی تھی۔

وڈیرے کے بیٹے نے اسے دھمکی دی کہ یہ بات کسی کو بتائی تو اس سمیت اس کے پورے گھرانے کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔
وہ ہانپتی کانپتی روتی سسکتی گھر آئی اور ماں سے سب کہہ دیا اور یہ بھی کہا کہ میں پولیس میں رپورٹ کراؤں گی۔ اس کی ماں نے اسے سخت برا بھلا کہا۔

” پاگل ہوئی ہے جن لوگوں کی رپورٹ درج کرائے گی پولیس انہی کی غلام ہے۔”
” ماں تو پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہوں ۔ ۔ ؟”
” میں کل تیرے ساتھ حویلی چلوں گی ابھی تو چپ کر کے سو جا "

…………

وہ اپنی ماں کے ساتھ چھوٹے وڈیرے کے سامنے بیٹھی تھی۔ کچھ کہنے والی تھی کہ ماں بول پڑی۔
” چھوٹے سائیں !! مجھے بتا میں کیا کروں ؟ ۔۔۔اس کے مامے چاچے تو اسے کاری کرکے مار دیں گے ۔۔ یہ بے گناہ ماری جائے گی۔ ۔ ۔ !
چھوٹا وڈیرہ سوچ میں پڑ گیا پھر گویا ہوا
” تو اسے حویلی چھوڑ دے میں اس سے نکاح کر لیتا ہوں شہزادیوں کی طرح رہے گی یہاں ۔”
ماں فوراً رضا مند ہوگئی یوں وہ جھونپڑی سے اٹھ کر محل میں آ گئی اور تاجو سے مسز ممتاز بیگم بن گئی۔

اور پھر کچھ ماہ بعد اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس کے باپ نے اس کا نام عدنان رکھا۔ عدنان کی پیدائش کے بعد بھی اس نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایم اے سوشیالوجی کر لیا۔
ایک دن اس کے شوہر نے کہا کہ اچھی سی تیار ہو جاؤ کچھ guests آ رہے ہیں ان سے ملوانا ہے تمہیں ۔”

اور پھر تھوڑی دیر بعد لمبی سی شاندار گاڑی میں سے ایک مرد اور دو عورتیں برآمد ہوئے انہیں حویلی کے شاندار ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ یہ لوگ ایک NGO کے نمائندے تھے اور ایم پی اے بشارت حسین تالپور کو قانونی معاونت رضاکارانہ فراہم کرنے کے لئے آئے تھے۔ یہ لوگ مسز ممتاز بیگم سے بھی بہت متاثر ہوئے اور اسے NGO میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو اس کے شوہر نے NGO میں شمولیت اختیار کرنے پر زور دیا۔۔۔ کہا
” حویلی میں سارا دن کوئی کام تمہارے کرنے کا نہیں، تم بس زیور اور قیمتی لباس پہنا کرو اور NGO کی میٹنگز اٹینڈ کیا کرو۔ بس ہر حال میں اسمارٹ نظر آؤ ۔۔جو دیکھے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ یہ ہے ایم پی اے بشارت حسین تالپور کی مسز۔

………….

وقت نے پر لگا کر اپنی پرواز جاری رکھی۔ عدنان دو سال کا ہو گیا۔ ملک میں انتخابات کی گہما گہمی تھی۔ بشارت حسین تالپور نے بھی حسب معمول صوبائی سیٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا مگر قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک انتخابی جلسے کے دوران جب وہ تقریر کر رہا تھا تو مخالف پارٹی کے بندے نے جو گھات لگائے بیٹھا تھا فائرنگ کر دی۔ دو دن ہسپتال میں رہ کر جان بحق ہو گیا۔

ممتاز بیگم کے لیے ایک اور کڑا امتحان شروع ہو گیا۔ سسرال میں ہر دن عذاب بن کر رہ گیا۔ بڑے وڈیرے نے تو ایک دن بھی اس کے وجود کو حویلی میں گوارا نہیں کیا تھا ہر وقت طعنے سہتی رہتی تھی۔ آخر ایک دن بڑے سائیں نے حکم دیا
” نکل جاؤ یہاں سے جہاں چاہے چلی جاؤ۔”
وہ بڑا چلاتی رہی کہ میرا بچہ مجھے دے دو مگر وڈیرے نے کہا
” بچے کو بھول جاؤ، زندگی میں کبھی پلٹ کر نہ آنا ادھر ۔ ۔ ۔ "

یوں اس کی زندگی جہاں سے چلی تھی، وہیں واپس آ ٹھہری لیکن نہیں ! وہ اب ممتاز بیگم تھی ۔ اس نے زندگی کے مسائل سے تن تنہا نمٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور NGO کی سر گرمیوں میں بھر پور حصہ لینا شروع کر دیا۔ اور پھر ایک دن فیاض احمد نے اسے پروپوز کیا۔ وہ اس کی NGO کا زونل سیکٹری تھا۔ اپنے سرکل میں سچا لبرل مشہور تھا۔ عورت کی آزادی پر کئی مقالے لکھ چکا تھا اور ایک Documentary بھی بنا چکا تھا۔ ممتاز بیگم نے سوچ بچار کے بعد پروپوزل قبول کر لیا۔ یوں ان دونوں کی شادی ہو گئی۔

شادی کے ایک سال بعد ان کے ہاں ایک پیاری سی لڑکی نے جنم لیا۔ممتاز بیگم حسب معمول NGO کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہی۔ شادی کے تقریباً تین سال ہو چکے تھے کہ وہی فیاض احمد جو عورت کی آزادی اور فیشن کا بڑا قائل تھا اور حجاب و نقاب سے شدید نفرت کرتا تھا اس کو اپنی بیوی کی موبائل کالز پر شک ہونے لگ گیا۔ بیوی کے لباس پر اعتراض ہونے لگا حتیٰ کہ بیوی کی جاسوسی شروع کرا دی۔

نہ تو ممتاز بیگم اپنے اسٹائل میں تبدیلی لانے کو تیار تھی نہ فیاض احمد نے اپنا طریقہ درست کیا اور بات طلاق تک جا پہنچی اور پھر یہ ہوا کہ ایک انتہائی لبرل آدمی نے اپنی ماڈرن اور فیشن ایبل بیوی کو لبرل ہونے کی وجہ سے ہی طلاق دے دی اور کہا کہ بچی بھی ساتھ لے جاؤ۔

مسائل ضرور تھے مگر NGO کی کرم فرمائیاں بھی کافی تھیں۔۔اسے اخراجات کی فکر تھی نہ کوئی جھنجھٹ۔۔۔ اس نے چھوٹے بہن بھائیوں کے مسائل بھی حل کئے اور اپنی زندگی کا پہیہ بھی رواں رکھا۔ وہ بچی کو لے کر اسلام آباد آ گئی اور ایک شاندار کوٹھی خرید لی۔ اور اب وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ اسلام آباد میں مقیم ہے اور یہ بھی کہ اس وقت اس کی پیاری بیٹی اس کے سامنے بیٹھی ہے۔”
مام نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے اسٹوری ختم کی۔

” ک ۔ ۔ ک۔ ۔ کیا ؟ یہ آ۔ ۔ آپ کی اسٹوری ہے ۔ ۔ ۔ ؟ ۔ ۔ او میری پیاری ممی ۔ ۔ ۔!”
پنکی نے مام کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔۔
"لیکن مام۔۔میرا کوئیسچن تو رہ ہی گیا ۔۔”
"کیا؟؟”
"یہ کہ آپ خود لبرل ہیں، سیمینارز میں اور دیگر ایکٹیوٹیز میں ہر جگہ عورت کی ‘آزادی’ کی بات کرتی ہیں۔۔مگر میرے لئے ہمیشہ فکر مند رہتی ہیں۔۔۔”

"..میری بچی ! میری زندگی کے تجربات بتاتے ہیں کہ "عورت کی آزادی” سوائے فریب اور سراب کے کچھ نہیں۔ اور جہاں تک تعلق ہے لبرل ازم کا، تو مجھے بتاؤ اگر میں لبرل ازم کا لبادہ نہ اوڑھتی تو یہ ہائی سوسائٹی مجھے قبول کرتی؟؟ اور یہ ٹھاٹھ باٹ اسی طرح ہوتے؟؟
"اوہ ہاں۔۔۔شاید ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔”
” اچھا… اب تم بتاؤ تم کچھ کہنا چاہتی تھیں ۔ ۔ ۔ "
"مام ! وہ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ میں ۔ ۔ "
"بولو نا بات مکمل کرو بیٹا ۔ ۔ "
” مام میں شادی کروں گی تو عدنان سے کیونکہ ۔ ۔ ۔ ۔”
” کیونکہ ۔ ۔ ۔؟”
ممتاز بیگم ایک دم سنجیدہ ہو گئی
” م ۔ ۔ ۔مام اب یا تو شادی ہو جائے فوراً یا ۔ ۔ ۔ "
” یا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ پہیلیاں نہیں بجھواؤ بیٹی "
” یا پھر ابارشن (abortions) "
"ک ۔ ۔ ۔ کیا۔ ۔ ۔؟”

ممتاز بیگم کو پاؤں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ہر چیز گھومتی دکھائی دینے لگی۔
” بیٹی ! تم کہہ رہی تھی کہ عدنان کے آئی ڈی کارڈ کی کاپی ہے تمہارے پاس ۔ ۔ ۔ ؟”
” جی ہے میں دکھاتی ہوں "
اس نے کاپی مام کے سامنے رکھ دی ۔ ۔ ۔
آئی ڈی کارڈ کی کاپی دیکھ کر ممتاز بیگم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کھڑا ہونا چاہا مگر چکرا کر گر پڑی۔ ۔ ۔
” مام ۔ ۔ مام ! کیا ہوا یہ لیں پانی پئیں ۔ "
اس نے پانی کا گلاس مام کے منہ سے لگایا

” مام کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ؟؟”
” پنکی ! یہ کیا کر لیا تونے ۔ ۔ ۔؟؟۔ یہ عدنان تو وہی ہے ۔ ۔ ۔ یہ میرا بیٹا ہے ۔ ۔ ۔”
اور پھر وہ بے ہوش ہو گئی
” مام ۔ ۔ مام یہ کیا ہو گیا ۔”

پنکی پھوٹ پھوٹ کر رو دی مگر اگلے لمحے خیال آیا مام کو ہسپتال لے کر جانا چاہئے۔ افف مام نے سبھی ملازمین کو چھٹی دے رکھی ہے اور میری گاڑی ورک شاپ پر کھڑی ہے۔ اچھا عدی کو فون کرتی ہوں۔ اس نے خالہ جی کو مام کے پاس بٹھایا اور موبائل پر نمبر ملاتی ہوئی پورچ میں آ گئی کہ مام کی گاڑی کو چیک کرے پیٹرول وغیرہ ہے یا نہیں۔ نمبر ڈائل کر رہی تھی کہ عدی آگیا۔

” عدی صحیح وقت پر آئے ۔ ۔ ۔ "
” خیریت ہے ۔ ۔ ؟ پریشان لگ رہی ہو ۔ ۔ ۔ "
” عدی! جلدی اندر آؤ مام کو ہسپتال لے جانا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ "
” پنکی ویری سوری ابھی تو میں بہت جلدی میں ہوں۔ میں تو تمہیں بس یہ دینے آیا تھا ۔ ۔ ۔”
” یہ کیسے کاغذات ہیں ۔ ۔ ۔ ؟”

” پاکستان میں اب تک Women Empowerment کے حوالے سے جو کچھ ہوا ہے Social اور Legal جدوجہد ، یہ اس کا Review ہے ۔ میں اس پر تحقیقی نوٹ لکھ رہا ہوں تم بھی اسے بغور پڑھو اور ۔ ۔ ۔ ۔
” عدی مام کو ہسپتال ۔ ۔ ۔ "
” کیا ہوا آنٹی کو؟ ۔ ۔ ۔
” بے ہوش پڑی ہیں ۔ ۔ "
” پنکی میں جلدی میں ہوں "

” عدی تمہاری گاڑی میں یہ لڑکی کون ہے فرنٹ سیٹ پر ۔ ۔؟
” یہ رمشہ ہے میں نے شاید تذکرہ کیا تھا کہ یہ لوگ انگلینڈ سے یہاں شفٹ ہوئے ہیں دو تین سال یہاں گزاریں گے۔ اس وقت میں رمشہ کو گھمانے لے جا رہا ہوں اور یونیورسٹی بھی دکھانی ہے۔ اس نے ایڈمیشن لینا ہے نا۔ یہ میری پھپھو زاد ہے ۔ ۔ ۔ "
” عدی! ۔ ۔ عدی! مام کو ہسپتال نہ لے کر گئے تو ۔ ۔ ۔ "
” پنکی! میں جلدی میں ہوں ۔ میں ارسلان کو فون کرتا ہوں وہ آتا ہے تمہاری ہیلپ کرے گا۔ وہی ارسلان میرا کلاس فیلو ۔ ۔ ۔”
” عدی! ۔ م ۔ ۔ م۔ ۔ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔”
” پنکی تم یہ پیپرز پکڑو ۔۔۔یہ لو میں جا رہا ہوں فوراً ارسلان کو بھیجتا ہوں۔ "

عورت کے حقوق ، عورت کی آزادی ، عورت کی Empowerment یہ قانون، یہ بل، یہ قرارداد، فلاں مارچ، فلاں ریلی، دوڑ دھوپ، اچھل کود، عیاری، ہوشیاری کی ایک داستان ان پیپرز کی شکل میں اس کے ہاتھوں میں تھی۔ نم آنکھوں کے ساتھ جلدی سے اندر گئی ، جامد و ساکت پڑی مام کو دیکھا اور پھر جلدی سے باہر بھی آگئی ، یہ امید لئے کہ شاید عدی واپس آگیا ہو۔

لان کی صفائی کرتی پسینے سے شرابور خالہ جی کی بہو پر بھی نظر پڑی، اس کا چھوٹا بچہ ماں کے قریب زمین پر ہی بیٹھ کر دنیا و مافیہا سے بے خبر چپس کھا رہا تھا جو کہ ایک کاغذ پہ رکھے تھے اور کاغذ بچے کی گود میں رکھا تھا۔ ممتاز بیگم کی اکلوتی بیٹی کا دوسرا ہاتھ حرکت میں آیا اور پھر اگلے ہی لمحے کاغذ پر لکھی داستان کے ہزار ٹکڑے ہو گئے۔ کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا ، ایک ٹکڑا معصوم بچے کی کاغذی پلیٹ میں بھی جا گرا . بچے نے ادائے بے نیازی سے وہ ٹکڑا پرے پھینک دیا تاکہ اس کی ماں اسے کچرے میں شامل کر لے۔

اس کا وجود بے جان پتے کی طرح مکمل طور پر ہوا کے رحم و کرم پر تھا کہ اچانک کسی نے اسے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔ جانے کیسی ٹھنڈک تھی جو پورے وجود میں اتر گئی۔
” خا ۔ ۔ ۔ خا ۔ ۔ ۔ خالہ جی ۔ ۔ ! خالہ جی ۔ ۔ ! میں لٹ گئی میں برباد ہو گئی۔ مجھے خود سے جدا نہ کریں ۔ ۔ ۔ "
خالہ جی نے ایک بڑی چادر اس پر اوڑھا دی ۔
” اندر آؤ بیٹا میرے ساتھ ” دونوں اندر آ گئیں۔
” یہ کیا ہے خالہ جی ۔ ۔ ؟

” یہ جائے نماز ہے میں بچھاتی ہوں . تم وضو کر کے آؤ بیٹا ! ہم دونوں نماز پڑھیں گے ، الله سے دعا مانگیں گے۔ اور یہ قرآن ہے بیٹی میں تو ان پڑھ ہوں۔ ہاں آج صبح بیٹے نے ٹی وی آن کیا ، وہ پچھلے سال میری بی بی جی نے مجھے دیا تھا نا ٹی وی سونی کا وہ، تو کانوں سے جو چند فقرے ٹکرائے وہ یاد ہیں۔”
” مجھے بتائیں بتائیں نا ۔ ۔ "
پنکی کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی

” کوئی دینی پروگرام تھا کوئی مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ قرآن شریف میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے، بے سکونی کا بھی اور بتا رہے تھے کہ قرآن شریف کو پڑھو اور عمل کرو تو حق ۔ ۔ ۔ حقو ۔ ۔ ۔ وہ کیا ہوتا ہے بیٹی؟”
” حقوقِ نسواں ۔ ۔ ۔ "
” ہاں ہاں بتا رہے تھے کہ وہ بھی معلوم ہو جائیں گے ۔ ۔ ۔ "

پنکی نے قرآن پاک سینے سے لگایا اور چوما لیکن پھر فوراً رکھ دیا
” خالہ جی میں تو بہت گنہگار ہوں ۔ ۔ "
” بیٹی سچی توبہ اور تمہاری آنکھوں کے یہ آنسو سب گناہ مٹا دیں گے۔ تم قرآن کھولو میری بچی ۔ ۔ ۔ "

پنکی نے قرآن شریف کو دوبارہ اٹھا کر چوم لیا۔ سکون کی ایک لہر روح تک میں سرائیت کر گئی۔ اور پھر وہ خالہ جی کے ساتھ سجدے میں گر گئی ۔
اس ہستی کے آگے جو
اگر چاہے تو مردے میں جان ڈال دے۔
بیمار کو شفا دے دے
ادنیٰ کو اعلیٰ کر دے
صحرا کو گلشن کر دے
اور گلشن کو خلد راز ۔ ۔ ۔ ۔ #


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “لبادہ ۔۔۔۔۔ ( اردو افسانہ )”

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    Good and ironical.