مسجد نبوی ، مدینہ منورہ ، سعودی عرب

مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ (3)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فرح مصباح

پہلے یہ پڑھیے

مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ (1)

مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ (2)

بطحاء کے مسافر

ایک اور ضروری بات جو قارئین کی نذر کرنا چاہتی ہوں۔ جب آپ ائیرپورٹ پر اترتے ہیں تو وہاں ایک لمبی لائن ہوتی ہے، یہیں آپ کی اسکیننگ ہوتی ہے، اور یہیں کاغذات کی چیکنگ وغیرہ ہوتی ہے۔ عام طور سے نمبر آنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ بزرگوں کے لیے پہلے ہی وہیل چیئر کے لیے اپلائی کر دیا جائے تاکہ بعد میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بیگ پر مخصوص کلر کی ربن باندھی جائے، یا بیگ پر ایک پیپر پر نام ، پتہ اور فون نمبر لکھ دیا جائے تاکہ اس حوالے سے بھی کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ایک عاشق رسول کے لیے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد صبر نہیں ہوتا ، چاہے جتنی بھی تھکن ہو ، یا اس کا رہائشی ہوٹل کسی محل کا منظر پیش کرتا ہو ، دل مضطر یہی چاہتا ہے کہ بھاگ کر مسجد نبوی میں پہنچ جائیں۔

دکھائے گا تجھ کو خدا ایک دن
مدینے کا دل میں تو ارمان رکھ


جب گاڑی مسجدِ نبوی کے قریب سے گزرتی ہے تو دل تھم سا جاتا ہے۔ مسجد نبوی کی چھتریاں نظر آتے ہی کیف و سرور کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اور ماہِ رمضان المبارک میں یہ حاضری مل جائے تو کیفیت جداگانہ ہوتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

زندگی کی سعادتیں اسلمؔ
مل گئیں سب مجھے مدینے میں

مسجد نبوی میں افطاری کا بھی بہت خوب انتظام ہوتا ہے۔ لاکھوں کے مجمع میں بھی جس شاندار نظم و ضبط سے افطاری ہوتی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی ۔ اسلام مذہب ہی ایسا ہے کہ اس کے اصولوں پر عمل کر کے نہ صرف انسان بہترین زندگی گزارتا ہے ، بلکہ تہذیب بھی سیکھتا ہے ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ اسلام کے اصولوں سے دوری اختیار کر کے دوسرے معاملات میں الجھ بیٹھے اور غیر مسلم اسلامی اصولوں کو اپنا کر تہذیب یافتہ قوم بن گئے ۔ بہرحال افطاری میں پہلے تو لوگ اپنے دسترخوان لگایا کرتے تھے یعنی خود بنوا کے کھلایا کرتے تھے ، لیکن اب تمام روزے داروں کو ایک جیسے پیکٹس ملتے ہیں جس میں کھجور، دہی، لبن اور زم زم ہوتا ہے۔

ابھی بھی کچھ لوگ اپنے طور پر اس وقت کھانے کی چیزیں بانٹتے ہیں۔ ایک محترمہ نے بتایا کہ ابھی بھی جو لوگ افطار کروانا چاہیں وہ رقم ایک جگہ جمع ہوتی ہے، پھر اس سے افطاری کے پیکٹ بنا کر تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔
افطاری کا منظر بہت روح پرور ہوتا ہے۔

سنا ہے نور کی برسات ہوتی ہے مدینے میں

بالکل سچ بات ہے ایسا لگتا ہے کہ نور ہی نور ہے ۔ آسمان پر نور, گلیوں پر نور, منبر و محراب پر نور, چاند پر نور, ہر جگہ نور ہی نور ہوتا ہے۔ مدینے کی ٹھنڈک الگ ہے جو دل میں اترتی ہے، روح کو سرشار کرتی ہے۔ وہاں جانے والے لوگوں کو اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ وہاں عرضیاں لبوں پر آنے سے پہلے پوری ہو جاتی ہیں۔

مشرف گرچہ شد جامی زلطفش

خدایا ! ایں کرم با ر دگر کن

(جامی اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لطف سے محظوظ ہو گیا ۔ یا اللہ، یہ کرم بار بار ہو )


ایک نہیں کئی مثالیں آپ لوگوں نے سنی ہوں گی۔ چند ایک کا تذکرہ ایمان کی تازگی کے لیےمیں بھی آپ کے سامنے کرتی ہوں۔

1) جس روز مسجد کے صحن میں پہلے روز افطاری کی تو دیکھا بہت سارے لوگ کچھ نہ کچھ بانٹ رہے تھے، میرے پاس اس وقت بانٹنے کو کچھ نہیں تھا لہذا سوچتی رہ گئی کہ کاش ! کچھ ہوتا تو میں بھی اپنے ہاتھ سے بانٹ دیتی۔
اسی اثنا میں میرے سامنے ایک عورت آتی ہے اور مجھے ایک ڈبہ دے کر کہتی ہے کہ اس میں سے آپ بھی لے لیں اور بقایا بانٹ دیں۔

2) ایک دفعہ ہم لوگ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئے، ہمارے ساتھ ایک بچوں والی فیملی بھی تھی۔ ہمیں کراچی کی فطری عادت کے مطابق چاول کھانے کی خواہش ہوئی، لیکن چاول ختم ہو چکے تھے۔ ہمارے پیچھے دو میاں بیوی بیٹھے تھے جن کا تعلق شاید ترکی سے تھا، ان کی ڈش چاولوں سے بھری ہوئی تھی۔ اگر اپنے ملک میں آپ کہیں بھی جائیں تو آپ یقیناً یہ خواہش نہیں کریں گے کہ کوئی اپنا کھانا آپ کو دے دے، لیکن سچ بات ہے ادھر گدائی کا مزا ہی کچھ اور ہے، چاہے آپ کا کسی بھی اسٹیٹس سے تعلق ہو۔

بعض دفعہ تو حرم کے صحن میں بیٹھ کر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک فقیر ہیں۔ بہرحال میں نے سوچا کہ وہ لوگ تو کھانے سے فارغ ہو چکے ہیں، کاش کہ یہ چاول کی ڈش ہمیں دے دیں۔ دماغ میں اس خیال آنا تھا کہ انہوں نے ویٹر کو بلا کر بولا یہ چاول انہیں دے دیں۔ واہ سبحان اللہ!

3) تیسرا واقعہ خانہ کعبہ کے صحن کا ہے ۔ ہمارا ہوٹل کعبے سے کچھ دور تھا۔ گرمی کے دن تھے راستے میں پانی تقسیم ہو رہا تھا، میرے شوہر اپنی والدہ کو لے کر آگے نکل گئے تھے۔ اگر میں رکتی تو ہم الگ ہو جاتے۔ بہرحال کافی رش تھا لہذا میں نے پانی کی بوتل نہ لی کہ حرم میں تراویح ہو رہی تھی اور رش کے باعث جگہ نہیں مل رہی تھی۔ زیادہ چلنے کے باعث کافی پیاس لگ رہی تھی۔ ابھی سوچ رہی تھی کہ کاش وہاں سے پانی لے لیتی، تھک ہار کر ایک جگہ بیٹھ گئی تو اچانک سے پیچھے سے ایک خاتون آئی اور پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑا کر چلتی بنی ۔

رب کی شکر گزاری آنکھوں سے آنسو بن کر چھلک پڑی تو سب کے لئے ہی ہاتھ اٹھ گئے کہ مولیٰ! تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، دلوں کی سنتا ہے اور عطا کرتا ہے ، بس تو سب کی مشکلوں کو حل فرما۔ آمین ایسے ان گنت واقعات وہاں سب کے ساتھ رونما ہوتے ہیں.

اسی وجہ سے جب میں ایک دفعہ نعت تحریر کر رہی تھی تو یہ الفاظ میرے دماغ میں آ گئے:

"طلب کو زباں پر آنے کی حاجت نہیں مدینے میں
کچھ ایسی ہے خاص مہمان نوازی مدینے میں "

ایسے ایک نہیں ان گنت واقعات لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ حرم جانے والے کئی لوگوں نے اسی طرح کی باتیں بتائی ہیں ۔
پھر وہ چاہے صحن مکہ کا ہو یا مدینے کا ۔

مدینہ میں ہمارا قیام صرف پانچ روز کا تھا یہ دن تو پلک جھپکتے ہی گزر گئے یہاں صحن حرم میں نہ صرف عبادات کا موقع ملتا ہے بلکہ مسلم امہ کو ایک جگہ جمع ہونے کا بھی موقع ملتا ہے ان کے حالات سننے اور ان سے حاصل ہونے والی محبت وہ حدیث یاد دلادیتی ہیں کے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔

مسجد کے اندر ایک دوپہر ایک فلسطینی بہن سے ملاقات ہوئی انہیں انگلش میں بات کرنا آتی تھی لہذا ہم آرام سے ان سے بات کر سکے انہوں نے بہت محبت سے گلے لگایا . جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں ، انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ٹیچر ہیں . جنوبی فلسطین میں ان کی رہائش ہے . وہ لوگ مسجد اقصیٰ نہیں جا سکتے کہ انہیں وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے . ظالم اسرائیلیوں نے ان کے جیٹھ کو 2002 میں شہید کر دیا تھا . شوہر ایک ایکسیڈنٹ میں چل بسے . انہوں نے ایک اور بات بتائی کہ انھیں فلسطین سے مدینہ پہنچنے میں ڈیڑھ دن لگتا ہے. وہاں سے قافلوں کی صورت میں لوگ بسوں پر سوار ہو کر آتے ہیں .

جب انہوں نے یہ ڈیڑھ دن والی بات بتائی تو اچانک سے جو دماغ میں بات آئی . وہ یہ تھی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی براق کے ذریعے مدینہ سے فلسطین چند لمحوں میں پہنچے ہوں گے . کتنا ہی اچھا لگتا ہے . مدینہ فلسطین مکہ یہ پیارے پیارے شہر دلوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں . اس نے مجھے دعا دی کہ آپ ضرور بیت المقدس آئیں گی. آپ کو اللہ مسجد اقصیٰ میں لے کر آئے گا .

اس نے بتایا کہ ہمارے فیس بک کانٹیکٹ پر بھی نظر رکھی جاتی ہے ۔ اس کی عمر تقریبا 35 سال کے لگ بھگ لگ رہی تھی . اسے بہت محبت سے دعائیں دیں اور الوداعی گلے لگایا . ایسا لگتا تھا کسی سگی بہن سے جدا ہو رہی ہوں. انصار اور مہاجر کا بھائی چارہ یاد آگیا واقعی امت مسلمہ کی شان اور محبت الگ ہے ۔

پھر اگلے روز حرم میں میری ملاقات دو انڈین لڑکیوں سے ہوئی . ان سے میں نے انڈیا کے حالات کے حوالے سے معلوم کیا . دونوں نے کہا کہ حجاب کا مسئلہ تو حل ہو گیا ہے لیکن اذان کا مسئلہ چل رہا ہے اور بکرا عید پر قربانی کا بھی بہت مسئلہ ہوتا ہے . میں نے ان سے پوچھا کہ کیا قائد اعظم اور علامہ اقبال نے بہت اچھا کام نہیں کیا جو ہمیں ایک الگ وطن بنا کردیا ؟ انہوں نے جواب دیا اچھا کام کیا ۔

اگر وہ لوگ دو قومی نظریہ نہ پیش کرتے تو پھر ہم بھی انہی حالات کا شکار ہوتے جو آئے دن ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے یہ بات سوچ کر ہم نے دل میں شکر ادا کیا کہ رب نے ہمیں پاکستان جیسی نعمت نصیب فرمائی جس میں ہم آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات کو ادا کر سکتے ہیں ۔

اگلے دن میری ملاقات ایک عراقی فیملی سے ہوئی . ان کی بیٹی کے شوہر کو اس کے شادی کے فورا بعد ہی مار دیا گیا تھا . وہ انگلش میں بات نہیں کر سکتے تھے لیکن انہوں نے عربی میں جو کچھ مجھے سمجھایا وہ آپ کے پیش نظر کروں گی:

” میری بیٹی ہے اس کی عمر صرف 26 سال ہے اور بچے کی عمر پانچ سال ہے . میں اس بچے کی نانی ہوں . اس بچے کا نام فہد. اس کے ابو کو آج سے پانچ سال پہلے ذبح کر کے شہید کر دیا گیا تھا . دس لوگوں کو ایک ساتھ بند کیا اور پھر ایک کے بعد ایک باقیوں کے سامنے ذبح کیا گیا . یہ بات اس بچے کے پیدائش سے بھی پہلے کی ہے . داعش کے لوگوں نے اس بچے کے باپ کو مار دیا ۔

اللہ اللہ کلیجہ کٹنے کو تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فہد کا مسکراتا ہوا چہرہ مجھے پورا سفر ستاتا رہا . اس کی تصویر بھی دیکھتی تو میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ۔

اللہ تعالی سب مسلمانوں پر رحم فرمائے مگر مجھے بہت اچھا لگا کہ وہ لوگ بہت ہمت والے ہیں . ہنستے اور پھر بات بتاتے بتاتے رونے لگتے. پھر ہمت کے ساتھ مضبوط ہو جاتے. اس عمر میں جب ہماری نوجوانوں کی اکثریت فیشن ، ٹک ٹوک ، پارٹیز اور سیاسی لڑائیوں میں ملوث ہوتی ہے , مسلمانوں کی اکثریت جو باہر ممالک میں رہتی ہے واقعی دین کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں .

وہ لوگ بڑے ایمان کے ساتھ دشمن کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں . ایمان انھیں مضبوط کرتا ہے ۔ اللہ تعالی ہماری قوم اور نسلوں کو بھی نیکی کی ہدایت دے اور دنیاوی گمراہیوں سے بچا کر اتنا مضبوط بنا دے کہ ہم ایک سچےاور اچھے مسلمان کی صورت ایک ہو جائیں اور ہماری اولادوں میں سے ہی کوئی محمد بن قاسم خالد بن ولید یا کوئی اور شجاعت کا پیکر بن کر ابھرے ۔( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں