باحجاب مسلمان خاتون مسجد میں قرآن پڑھتے ہوئے

امی جان کی رمضان ڈائری ( نواں ورق )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ام محمد عبداللہ

پہلے یہ پڑھیے :

امی جان کی رمضان ڈائری ( پہلا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( دوسرا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( تیسرا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( چوتھا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( پانچواں ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( چھٹا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( ساتواں ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( آٹھواں ورق )

”سعد بھائی، سعد بھائی آپ کو ایک مزے کی بات۔۔۔۔۔۔“ صہیب بڑے پرجوش انداز میں دادا ابو کے کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں بیٹھے سعد بھائی کو وہ کوئی بات بتانا چاہتا تھا۔

”ہا ہا ہا“ سعد بھائی کے منہ سے ہنسی کا فوارہ پھوٹا تھا اور اس کی بات کاٹ کر وہ بولے۔ ”مزے کی بات چھوڑو پہلے یہ مان جاؤ کہ تم ایک غائب دماغ بےوقوف پروفیسر ہو۔“

”جی نہیں۔ میں غائب دماغ اور بے وقوف نہیں ہوں“ صہیب بےمزہ ہو کر بولا۔ ”وہ تو تم ہو۔ دادا ابو ذرا اس کے پاؤں تو دیکھیں۔“ سعد بھائی نے دادا جان کی توجہ صہیب کے پاؤں کی طرف دلائی تو وہ بھی اپنی ہنسی نہ روک سکے۔ جلدی میں صہیب نے دو مختلف رنگوں کی جرابیں پہن رکھی تھیں۔

”میں بےوقوف نہیں ہوں۔“ صہیب شرمندگی کے باوجود خود کو بےوقوف تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا۔ ”ثابت کرو۔“ سعد بھاٸی نے اسے چیلنج کیا۔ ” ثابت بھی کر دوں گا لیکن اس کے لیے مجھے ایک ہفتہ چاہیے۔“ صہیب نے کہا تو سعد بھائی ہنستے ہوئے بولے۔ ” ٹھیک ہے لیکن فیصلہ یہیں ہو گا دادا ابو کے سامنے۔“

مسجد میں نماز فجر کے بعد صہیب دعاؤں کی چھوٹی سی کتاب نکال کر پڑھنے لگا تھا۔ ”کیا پڑھ رہے ہیں صہیب؟“ ابو جان نے پیار سے پوچھا ”نماز کے بعد کے اذکار۔“ ”انہیں زبانی یاد کر لیں۔ ”جی اچھا۔“

”بڑے خوش نظر آ رہے ہیں صہیب میاں۔“ دادا جان نے صہیب کو مسکراتے دیکھ کر کہا۔ ”دادا جان! مسجد سے گھر واپسی تک میں نے بڑی بڑی نیکیاں کی ہیں۔“ ”وہ کیا؟“ دادا جان حیران ہوٸے۔ ”میں نے دس غلام آزاد کیے ہیں۔ سو نیکیاں کمائی ہیں۔ اپنی سو برائیاں معاف کروائی ہیں۔ شام تک شیطان کے شر سے محفوظ ہوں اور روز قیامت میرے جیسا افضل عمل کسی کے پاس نہیں ہوگا مگر شاید کسی کا ہو بھی۔“

جناب آپ نے سو مرتبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، کہا ہے۔ دادا جان نے خوش ہو کر صہیب کی کمر تھپتھپائی۔

”صہیب بیٹا! جاؤ ذرا مارکیٹ سے دہی لے آؤ ۔“ امی جان نماز عصر کے بعد افطاری بنانے میں مصروف تھیں۔ ”امی جان! شام کے اذکار پڑھ لوں۔“ ”راستے میں پڑھتے جانا۔“ ”اذکار زبانی یاد نہیں اس لیے دیکھ کر پڑھ رہا ہوں۔ راستے میں تسبیح کرتا جاؤں گا۔“

”لائٹ بند کرو صہیب!“ سعد بھائی سونا چاہ رہے تھے لیکن صہیب رات کے اذکار پڑھنے میں مصروف تھا۔ ”پڑھ لیے۔“ صہیب نے بتی بند کر دی۔

ایک ہفتہ پلک جھپکتے میں گزر گیا۔ ”جی جناب تو آپ مان لیں کہ آپ ایک غائب دماغ بےوقوف پروفیسر ہیں۔“ سعد بھائی نے صہیب کو چھیڑتے ہوئے کہا۔ وہ ہفتے بعد دادا جان کے کمرے میں اکٹھے تھے۔

”جی نہیں! دادا جان! قرآن پاک کی سورہ آل عمران میں عقل والوں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ رمضان تو ہے ہی ذکر کا مہینہ۔ میں اس ماہ مبارک میں اللہ پاک کے ذکر کی عادت اپنا رہا ہوں۔ مجھے اب صبح و شام اور رات کے اذکار زبانی یاد ہو گئے ہیں۔

میں کھیلتے اور گھر سے باہر آتے جاتے رستے میں سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، استغفراللہ اور صَلَّى اللہ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ بھی پڑھتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں رمضان المبارک میں ذکر کی عادت اپناؤں تو پھر اسے زندگی بھر نہ چھوڑوں۔

”اب بتائیں میں بےوقوف ہوں کیا؟“ صہیب نے دادا جان کی طرف مدد طلب نگاہوں سے دیکھا۔
”نہیں بھئی ہر گز نہیں۔ تم نے تو بہت عقل والا کام کیا صہیب لیکن یہ سب تم نے سیکھا کہاں سے؟“

”امی جان کی رمضان ڈائری سے۔“ صہیب نے لہک کر کہا تو سعد بھائی نے بھی ذکر کی عادت اپنانے کا پختہ ارادہ کر لیا۔( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں