شمائلہ-اقبال، ویو پوائنٹ

سانحہ اے پی ایس پشاور، دکھ جس کا کوئی مداوا نہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

                            کون بھول سکتا ہے دکھ کی وہ ساعتیں، غم کی وہ گھڑیاں جن میں کئی ماؤں کی گودیں اجڑیں۔

سانحہ اے پی ایس پشاور پاکستانی تاریخ کی بدترین دہشت گردی تھی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کون جانتا تھا کہ صبح اٹھ کر، جلدی جلدی تیار ہوکر اسکول جانے والے معصوم پھول آج گھر سے کبھی نہ واپس آنے کے لیے نکلے ہیں۔ بہت سی مائیں صبح آہستہ آہستہ تیار ہونے والے بچوں کو ڈانٹ بھی دیتی ہیں مگر کب جانتی تھی کہ یہ ننھے فرشتے اب انھیں کبھی دکھائی نہیں دیں گے۔

یہ قیامت سے کم گھڑی نہ تھی جب آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچے دہشت گردوں کے نشانے پہ تھے اور والدین سکول کی عمارت سے باہر کلبلا رہے تھے۔ نہ وہ زندوں میں تھے نہ مردوں میں۔ ہر لمحہ قیامت تھا، ہر سانس مشکل تھی۔ اگلے پل کیا ہونے والا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ جن کو اپنے بچوں کے محفوظ ہونے کی اطلاع مل گئی تھی ان کی خوشی دیدنی تھی اور جن کے بچے ان لمحوں میں لاپتہ تھے یا شہید ہو گئے تھے ان کی حالت غیر تھی۔

16دسمبر کی یہ قیامت خیز گھڑیاں یاداشت سے کیسے محو ہو سکتی ہیں؟ دنیا بھر میں شاید ہی کوئی ایسا ہو گا آرمی پبلک اسکول کے سانحے پر جس کی آنکھیں دکھ سے نہ چھلکی ہوں، شاید ہی کوئی ایسا دل ہو جس نے اس کرب کو محسوس نہ کیا ہو۔

سانحہ اے پی ایس کیا تھا؟ یہ کیوں ہوا؟ اس کے محرکات کیا تھے؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتے ہیں۔ 16 دسمبر 2014کی صبح پشاور کے آرمی پبلک اسکول(اے پی ایس) پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)کے دہشت گردوں نے حملہ کیا اور وہاں پرموجود طلباء اوراساتذہ سمیت 144 افراد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ دہشت گرد فرنٹیئر کور کے لباس میں ملبوس ہو کر آرمی پبلک سکول میں داخل ہوئے اور سکول کے ہال میں اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ اس کے بعد کمروں کا رخُ کیا۔ وہاں پر موجود بچوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایا۔

سکول کی پرنسپل کو گولیاں مار کر آگ لگا دی گئی۔ اس بھیانک واقعہ میں 9 اساتذہ کے ساتھ ساتھ 3 فوجی جوان بھی شہید ہوئے۔ شہید ہونے والے بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں۔ پاکستان آرمی نے ساڑھے نو سو بچے اور اساتذہ کو سکول سے بہ حفاظت نکالا۔ پاکستانی فوج کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں 6 دہشتگرد جہنم واصل ہوئے جبکہ ایک دہشتگرد نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔

          پاکستانی تاریخ میں یہ دہشت گردانہ حملہ مہلک ترین حملہ تھا جس نے 2007ء میں ہونے والے کراچی بم دھماکے کے واقعہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ مختلف خبررساں اداروں اور مبصرین کے مطابق دہشت گردوں کی یہ کارروائی 2004ء میں روس میں ہونے والے بیسلان سکول پر حملے سے ملتی جُلتی تھی۔

          کسی بھی ملک میں ہونے والی دہشتگردی کے پیچھے دشمن کے مذموم مقاصد ہوتے ہیں۔ ان مذموم مقاصد میں ملک کی جڑیں کمزور کرنا اور عوام الناس کو خوف زدہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کی معیشت کو کمزور کرنا بھی شامل ہوتے ہیں۔

معیشت کو کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ جب ریڑھ کی ہڈ ی کمزور ہو جائے تو ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

          سانحہ اے پی ایس پشاور میں جہاں کثیر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا وہیں سارے پاکستانی والدین کے دل نہ صرف خوف زدہ ہو کر رہ گئے بلکہ اپنے بچوں کی سلامتی کو لے کر وسوسوں میں بھی گھر گئے۔ اے پی ایس پشاور سانحہ کے بعد پاکستان بھر کے سکول بند کر دیئے گئے۔ والدین بچوں کوسکول بھجوانے کا سوچ کر بھی گھبرانے لگے۔

سانحہ اے پی ایس پشاور ایسا قومی سانحہ  تھا جس نے پوری قوم کو دہشت گردی کے ناسور کے خلاف متحد کر دیا تھا۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں دہشت گردوں کے ہاتھوں اس قدر زیادہ معصوم جانوں کا نقصان ہوا ہو۔ پاکستان کی 76سالہ تاریخ مختلف حادثات و سانحات سے بھری پڑی ہے تاہم کچھ ایسے واقعات ہیں جنھیں ہم کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول انہی میں سے ایک ہے۔

( ویو پوائنٹ، شمائلہ اقبال)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں