خانہ کعبہ ، بیت اللہ، مکہ مکرمہ، سعودی عرب

میرا سفر حج 2011ء

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قانتہ رابعہ

اللہ نے حج کے لیے جس کا جو وقت لکھا ہے، بندہ اس سے پہلے کر سکتا ہے نہ بعد میں۔ بنے بنائے پروگرام اچانک ایسے ختم ہوتے ہیں کہ مدت تک ذہن قبول نہیں کرتا اور بسا اوقات بیٹھے بٹھائے ایسے بلاوا آجاتا ہے کہ یقین کرتے ہوئے بھی نہیں آتا۔ اس سال بہت سے قریبی عزیزوں کے علاوہ بھی لوگ حج کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ جو بھی جاتا ہے دعاؤں کی درخواست کی جاتی یے اور ساتھ ہی چھم سے آنکھوں کے سامنے اپنے حج کا سفر آجاتا ہے۔ ایک ایک چیز سامنے آتی ہے اور تڑپ شدید سے شدید تر ہوتی ہے کہ دوبارہ بلاوا کب آئے گا؟
آنکھوں کی پیاس کب بجھے گی؟ کب روح کوتسکین ملے گی؟

بھلا پہلا حج بھی کوئی حج ہوتا ہے! وہ تو سراسر سیکھنے کا عمل ہوتا ہے۔ کچھ کاموں کا پہلے سے علم ہوتا ہے اور کچھ کا تو علم بھی نہیں ہوتا۔

واپس آنے کے بعد مجھے بہت مدت لگی تھی اپنے شہر کے راستوں اور گلی کوچوں سے مانوس ہونے میں۔ جہاں سے گزرتی وہی سڑکیں، وہی مسافتیں، وہی سفید احرام، وہی خانہ کعبہ۔ چلتے چلتے رک جاتی، راستے بھول جاتی۔ دل میں ایک کہر سی اٹھتی، یاالہی! ابھی تو وہاں کی زبان،لب و لہجے سے انسیت ہوئی تھی، ابھی تو وہاں کے اسرار و رموز کھلنا شروع ہوئے تھے کہ واپسی کے لیے مجبور کردیا گیا؟

جانے سے پہلے مجھے ٹائیفائیڈ ہوا تھا جو اینٹی بائیوٹک ادویات کی دوگنا زیادہ خوراک کے استعمال کے باوجود ٹھیک نہیں ہوا تھا۔ جوں جوں گیارہ اکتوبر قریب آرہا تھا، میرا دل بیٹھنے لگتا۔ ڈاکٹر نے مجھے ایک قدم بھی چلنے سے منع کیا ہے، وہاں کیا ہوگا ؟

اوپر سے مرے کو مارے شاہ مدار ! ہم نے حج کے شروع دنوں میں اے کیٹیگری کی رقم جمع کروائی تھی اور اس پر بھروسہ کر کے بیٹھ گئے۔ وہ تو حج کی روانگی کی تاریخ آئی تو چچا زاد بھائی عمران کا فون آیا: باجی میں بھی حج پر جارہا ہوں، آپ کا مکتبہ نمبر کیا ہے؟ میں نے بتایا تو اس نے فون بند کرکے دو ایک منٹ میں دوبارہ کال کی۔
۔۔۔”باجی میں نے نیٹ پر دیکھا ہے آپ کی بلڈنگ تو بہت دور ہے حرم سے کم از کم تین کلومیٹر”

اس نے کال بند کی، میرا دل بالکل ہی ڈوب گیا۔ اپنے گناہوں سے پہلے ہی دل سہما ہوا تھا۔اب گناہگار ہونے کا احساس اتنا شدید ہوا کہ سفر حج اسی کیفیت میں شروع ہوا۔ اگر گناہگار نہ ہوتی تو بلڈنگ اتنی دور نہ ملتی۔ سب لوگ جنہوں نے بعد میں کاغذات جمع کروائے وہ ہم سے قریب رہائش گاہ کے حقدار اور ہمیں حاجی کیمپ میں رقم واپس کر کے کہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ دی کہ چونکہ بعض وجوہات کی بنا پر آپ کی رہائش دور ہے تو یہ رقم بصد احترام واپس کی جاتی ہے !

ہونہہ!!

خیر شکوے بھرے دل کے ساتھ سارے مراحل طے ہوئے۔ عمرہ کے لیے جاتے ہوئے جس دروازے سے داخل ہوئے وہ نسبتا غیر معروف تھا کہ رش زیادہ نہ تھا اور تعمیراتی کام کی وجہ سے کافی رکاوٹیں تھیں۔ ہمیں جس نے بھی گائیڈ کیا یہی بتایا کہ باب فہد آپ کی بلڈنگ سے نسبتاً قریب ہے اور راستہ بھی آسان ہے لیکن مقامی لوگوں کے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں نے اتنی گھمن گھیریاں کھلائیں کہ حرم میں داخل ہونے کے لیے جو دروازہ ملا وہ اینٹوں ،بجری اور تعمیراتی سامان سے اٹا پڑا، اونچے نیچے کچے پکے راستوں پر چلتے دروازہ سے داخل ہوئے تو اوپر باب فتح لکھا تھا۔

ایک اور حسرت باب فہد سے داخل نہ ہونے کی ساتھ لیےاندر داخل ہوئے عمرہ بھی ادا کیا اور شکوے کا گراف مزید اوپر چلا گیا۔

مطلب گناہگار ہوں تو یہ سزا ضروری ہے۔ درگزر معافی تلافی سے کام چل سکتا تھا۔ میرے ابا جی مرحوم نے اپنی کتاب میں اللہ کے لیے "بڑی سرکار” کا لفظ استعمال کیا ہے تو مجھے بھی یہ درست لگا۔ ظاہر ہے وڈی سرکار دیاں اچیاں شاناں!!

اس کے بعد جب بھی 3کلومیٹر پیدل چل کے حرم میں پہنچتی تو طواف کی ہمت ختم ہو چکی ہوتی۔ بس! شوق کے بل بوتے پر ایک طواف ہی ہوپاتا اور جو بتایا کرتی تھیں ہم نےآج تین طواف کیے پانچ کیے چھے کیے ان کے لیے جذبات رشک سے زیادہ رقابت کے ہو گئے تھے، دل میں پھانس سی چبھ گئی۔ رقم شروع میں جمع کروائی پیسے اے کیٹگری کے دیے اور بڑی سرکار نے رہائش دی جہانوں ملکوں باہر !

وہاں کے مقامی لوگوں سے بھی پوچھا جاتا جرول جانا ہے ،تو کانوں کو ہاتھ لگاتے اور عربی میں تلاوت شروع کر دیتے جس کا صاف مطلب ہوتا کہ
او بی بی! اتنی دور اللہ میاں کے پچھواڑے

مزے کی بات یہ تھی کہ ٹیکسی پر جاتے کارڈ اسے دیتے تو دس جگہ پر رک کر معلوم کرتا کہ یہ ہوٹل ہے کہاں ؟

ہوٹل تو نہیں تھا کبوتروں کے کابک جتنے کمرے استقبالیہ کی جگہ پر ایک چھوٹی سی میز اور دو بندوں کی جگہ تھی باقی گھومنے پھرنے کے لیے ہورا مکہ پڑا تھا!

خیر دل کی تسلی کے لیے اپنے آپ سے کہا کہ بی بی قانتہ! جس نے اتنی دور پھینکا ہے اس سے ڈیل کر لو طواف سے دوگنا جانے کا فاصلہ اور اتنا ہی آنے کا تو بس ہر قدم طواف سمجھ کر اٹھاؤ ، اس کے بعد دل کی کیفیت راضی برضا والی ہوگئی۔ کچھ سکینت سی بھی محسوس ہوئی۔ اس کے اثرات حد درجہ دل خوش کن تھے جن کا تذکرہ اپنے سفرنامہ حج زہے نصیب میں موجود ہے۔

پہلی تسلی تب ہوئی جب ایک عالمہ نے پوچھا:آپ پہلے عمرہ کے لیے حرم میں داخل ہوئیں تو کس دروازے سے داخل ہوئی تھیں ؟”
"،،باب فتح سے” میں نے بتایا تو انہوں نے بے اختیار مجھے گلے لگایا

یا سلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حج کے لیے اسی دروازے سے داخل ہوئے تھے،،

میرے جسم کاایک ایک رونگٹا کھڑا ہوگیا
،،اچھا تو جسے سزا سمجھ رہی تھی یہ اوپر والی سرکار کا کرم تھا۔ میں دیر تک روتی رہی، اس کے بعد شکوے سارے دھل گئے، بس کبھی سال میں ایک آدھ مرتبہ دل میں سوال کسک پیدا کرتا تھا۔ رہائش اتنی دور تھی طواف بھی بس دن میں دو سے زیادہ نہیں کر سکی!

آج مورخہ انیس جون 2023ء مجھے جناب خلیل الرحمٰن چشتی صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفر حج کی پی ڈی ایف آنکھوں دیکھا حال کے عنوان سے بھیجی تو میں نے جب یہ پڑھا تین ذوالحج بروز ہفتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی طوی جو محلہ جرول کے نام سے مشہور ہے میں پہنچے تو تب سےمیرا دل پگھل کر پانی کا سمندر بن بکا ہے اور آنکھیں میری آنکھیں اشکوں سے لبریز سجدہ کی حالت میں جھکی ہوئی ہیں۔

مجھ گناہگارہ پر اتنا کرم! جہاں مقامی بھی نہیں گئے میرا رب مجھے وہاں بھی لے گیا۔کیا پتہ میرے قدم ۔۔۔میرے ناپاک قدموں نے اس جگہ کو چوماہو جہاں سے آقائے نامدار گزرے تھے، آخر پچیس دن وہاں گھومی ہوں آخری دن تو میں نے وہاں کے سارے گلی محلے اکیلی نے چھان مارے تھے کہ ورکشاپ میں کام کرنے والے نے باہر آکر مجھے اکیلی کو ایسے گھومتے ہوئے دیکھ کر کہا
مخ مافیہ ،مخ مافیہ ،
دل میں تو میں نے کہا تھا تم ہوگے لیکن اب مجھے رشک ہے کہ میرے قدموں نے شاید اس جگہ کو چوم لیا ہو جہاں محبوب خدا اتوار کے دن تک قیام پزیر رہے
میرا رب عظیم تر ہے!
صلو علیہ و آلہ
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “میرا سفر حج 2011ء”

  1. راشدہ قمر Avatar
    راشدہ قمر

    ❤❤❤