خواجہ صاحب، جنھیں ستائش کی کوئی تمنا ہی نہ تھی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کامسیٹس یونیورسٹی اٹک کیمپس کے مین گیٹ سے داخل ہوتے وقت اضطرابی اور اضطراری کیفیت میں کبھی ادھر ادھر ٹہلتے، کسی سے پوچھ گچھ کرتے، کسی وزیٹرسے انٹری کے لیے قومی شناختی کارڈ کا مطالبہ کرتے یا شناختی کارڈ  لیتے، کسی مہمان کو اپنی مطلوبہ فرد سے ملانے کے لیے اس کی رہنمائی کرتے، کسی سے گپ شپ لگاتے، کسی کے ساتھ زور زور سے ہنستے، کبھی چائے کی پیالی ہاتھ میں لیے چائے کی چسکیوں کے ساتھ ساتھ اپنی ڈیوٹی بھی نبھاتے ہوئے اکثرایک فرد نظر آتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب اس فرد کو ’خواجہ صاحب‘ کے نام سے جانتے، پہچانتے اور پکارتے تھے۔ پورا نام تو خواجہ محمد علیم تھا مگر سب پیار سے ان کو ’خواجہ صاحب‘ ہی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ میں اُنھیں خواجہ حلیم کہتا اور اکثر حاضری رجسٹر (جب ہم حاضری رجسٹر میں لگایا کرتے تھے) میں بھی خواجہ محمد حلیم ہی لکھتا تو وہ اکثر حاضری لگاتے وقت مجھے اپنے مخصوص انداز سے مخاطب کرتے ہوئے کہتے کہ یار! خلیل!! یہ خواجہ محمد  علیم ہے حلیم نہیں ۔۔۔ میں کہتا: یار! ہمارے لیے بس تو خواجہ محمد حلیم ہے بس۔۔۔۔ ان کے ساتھ اکثر یہی ہنسی مذاق ہوتا رہتا تھا۔ اورخواجہ صاحب بھی مجھے خلیق کی بجائے خلیل صاحب کہہ کر مخاطب کیا کرتےتھے۔ یوں حساب برابر کرتے تھے۔

آٹھ جنوری بروز پیر کو مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے وقت وہ آواز مجھے کہیں سنائی نہ دی۔ میرے کان اور آنکھیں اُس بندے کی تعاقب میں مین  گیٹ کے آس پاس متلاشی تھی مگر وہ چہرہ اور وہ آواز مجھے سنائی نہ دی جو ہم عرصہ دراز سے سنتے آ رہے تھے۔ وہ آواز سنائی بھی کیسے دیتی کیونکہ اس آواز کے مالک خواجہ محمد علیم کو تو ہم 5 جنوری 2024 بروز جمعہ سہ پہر3 بجے منوں مٹی تلے دفن کرچکے تھے۔۔۔

خواجہ محمد علیم جمعرات کے روز تقریباً 3 بجے انتقال کر گئے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جمعہ کے روز ان کی نماز جنازہ اُن کے آبائی گاؤں میں ادا کرکے آبائی قبرستان میں تدفین کی گئی۔

خواجہ محمد علیم کامسیٹس یونیورسٹی میں ایل ڈی سی کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ وہ کامسیٹس یونیورسٹی کے سابقون الاولون میں سے تھے۔ جہاں کوئی کام نہ کر سکتا تھا، جہاں کوئی جانا نہیں چاہتا تھا، وہاں خواجہ صاحب کو بھیج دیتے تھے۔ خواجہ صاحب بھی بغیر چوں چراں کیے چلے جاتے تھے۔

وہ ایسے بندے تھے جو ہر جگہ فٹ ہو جایا کرتےتھے، ہر جگہ کام کر لیتے تھے۔ نہ ستائش کا لالچ نہ شاباش کی تمنا مگر مہینے کے آخر میں وہ اپنے والدین اور بال بچوں کے پاس حق حلال کی کمائی لے کر ضرور جاتےتھے۔ ایک دفعہ بینک سے تنخواہ نکالتے وقت کیشیئر نے ان کو کچھ پیسے زیادہ دیدیے تھے۔ وہ گنتی کرکے دوسرے دن اُس وقت کے ڈپٹی رجسٹرار ملک سلیم خان صاحب  کے پاس آئے اور انھیں ساری بات بتا دی چنانچہ انھوں نے کسی کو خواجہ صاحب کے ساتھ بھیج کر اضافی رقم بینک کے  کیشیئر کو واپس کر دی۔

خواجہ صاحب اکثر ایک جملہ اُردو کے ایک محاورہ ’آم کھا پیڑ نہ گن‘ کو غلط تلفظ کےساتھ یوں ادا کیا کرتے تھے کہ ’آم کھا بٹیر نہ گن‘۔ اکثر ہم یار دوست اُن کو اس محاورے کی بنیاد پر چھیڑتے رہتے تھے۔ یوں اُن کے ساتھ یہ ہنسی مذاق جاری رہتا تھا۔ وہ بھی اعلٰی ظرف کے مالک تھے۔ یہ اُن کی اعلٰی ظرفی تھی کہ کبھی بُرا نہیں مانا کرتے تھے۔ خواجہ صاحب کی ایسی بہت سی یادیں اور باتیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں گی۔  

 االلہ رب کریم ہمارے بھائی، دوست اور کولیگ خواجہ محمد علیم کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا کرے اور ان کی پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “خواجہ صاحب، جنھیں ستائش کی کوئی تمنا ہی نہ تھی” جوابات

  1. محمد جاوید اصغر Avatar
    محمد جاوید اصغر

    بہت عمدہ خاکہ۔۔۔۔۔ خواجہ صاحب ۔۔۔

    1. Khaleeq Rabbani Anjum Avatar
      Khaleeq Rabbani Anjum

      شکریہ جزاک اللہ محمد جاوید اصغر صاحب