نواز شریف اور شہباز شریف

کیا بنے گا مسلم لیگ ن کا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان حکمران جماعت مسلم لیگ ن عجب کیفیت میں مبتلا ہے۔ اس کے رہنما کہتے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف عام انتخابات کے بعد حکومت نہیں بنانا چاہتے تھے۔ پھر اسی سانس میں ایک دوسری بات کہتے ہیں کہ ہم سے زبردستی حکومت نہیں بنوائی گئی۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما و وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف عام انتخابات کے بعد حکومت نہیں بنانا چاہتے تھے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مصدق ملک نے کہاکہ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی دعوت دی تھی۔

انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی اگر حکومت بنانے کے لیے الیکشن لڑ رہی تھی تو پھر حکومت بنائی کیوں نہیں؟ آتے حکومت بناتے اور عوام کے مسائل حل کرتے، ہم بھی مسائل حل کررہے ہیں۔

مصدق ملک نے کہاکہ میں نے ابھی تک نہیں سنا کہ ہم سے زبردستی حکومت بنوائی گئی ہے۔ تحریک انصاف اب آکر حکومت بنا لے، ہمیں احتجاج سے فرق نہیں پڑتا۔

ویسے یہ کیفیت اس وقت سے طاری ہے جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی اور کامیاب کرائی گئی۔ اس وقت بھی کہا جارہا تھا کہ نواز شریف تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت بنانے کے حق میں نہیں تھے، وہ نئے انتخابات چاہتے تھے لیکن شہباز شریف نے انھیں سمجھایا، یوں مسلم لیگ ن نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

نواز شریف کا خیال تھا کہ پاکستان جس برے معاشی بحران میں ہے، اسے نکالنے کے لیے ایسے فیصلے کرنا پڑیں گے جو عام پاکستانیوں کے لیے ناپسندیدہ ہوں گے۔ نتیجتاً مسلم لیگ ن کی مقبولیت کا گراف نیچے جائے گا۔ مسلم لیگ ن کے قائد کا خیال درست ثابت ہوا۔ شہباز شریف حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس وغیرہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا۔ عمران خان دور میں اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت ڈیڑھ سو روپے فی لیٹر تھی ، شہباز شریف حکومت اسے تین سو روپے فی لیٹر تک لے گئی۔ اسی طرح باقی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بنی۔

مسلم لیگ ن کا مقتدر قوتوں سے کہنا تھا کہ وہ اسے عوامی غیظ و غضب سے بچائے اور جس طرح سن دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کی جیت کا اہتمام کیا گیا تھا، ویسا ہی اہتمام اس کے لیے بھی کیا جائے۔ ممکن ہے کہ مقتدر قوتوں نے کچھ ’ہوں ، ہاں‘ کے سے انداز میں سر ہلایا ہو، اس کے نتیجے میں دعویٰ کیا گیا ’ ساڈی تے گل ہوگئی اے۔‘ اس کے بعد جب نواز شریف 21 اکتوبر 2023 کو وطن واپس آئے تو مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ بیانیہ بنایا گیا کہ قائد ن لیگ چوتھی بار وزیراعظم منتخب ہوں گے، مگر 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کے نتائج ویسے ظاہر نہ ہوئے، جن کی توقع تھی۔ ان غیر متوقع نتائج کے بعد شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ واضح رہے کہ مقتدر قوتیں پہلے بھی نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کے حق میں نہ تھیں، شہباز شریف انیس سو ننانوے سے ان کے پسندیدہ ہیں۔

اس وقت شہباز شریف اتحادی جماعتوں کے وزیراعظم ہیں۔ ایک بار پھر عوام دشمن فیصلے المعروف بہ مشکل فیصلے کیے جارہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کہتے ہیں کہ ملک کا دیوالیہ نکل چکا ہے، اس لیے عوام کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔

اگر عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا تو اس کے نتائج مسلم لیگ ن کے لیے مزید ہولناک انداز میں سامنے آئیں گے۔ اگر ن لیگی رہنما کسی خوش فہمی کے شکار ہیں تو وہ اس سے جان چھڑا لیں تو بہتر ہے۔ عوام مسلم لیگ ن کی باتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں کہ بس! دو سال تک ہی مشکل فیصلے ہوں گے، پھر عوام کے لیے ریلیف ہی ریلیف ہوگا۔ لوگ کہتے ہیں کہ دو برس بعد کی بات نہ کرو ، آج کی بات کرو۔ آج ہمیں کیا ریلیف دو گے؟

عوام کا یہی سوال مسلم لیگ ن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔ صدر آصف علی زرداری ایوان صدر میں بیٹھے شہباز شریف حکومت کی حالت پر مسکرا رہے ہیں، عمران خان المعروف بہ قیدی نمبر 804 اڈیالہ جیل میں بیٹھا مسکرا رہا ہے، پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی تماشا دیکھ رہی ہیں۔ میاں نواز شریف متفکر ہیں کہ کیا بنے گا ان کی مسلم لیگ کا۔

عوام کے لیے فوری اور مسلسل ریلیف کا اہتمام نہ کیا گیا تو مسلم لیگ ن کا کباڑہ ہی ہوگا۔ پھر بھول جائیں کہ مقتدر قوتوں کے بل بوتے پر مسلم لیگ ن کی بقا ممکن ہوگی، اور مریم نواز شریف کبھی وزیر اعظم بن سکیں گی۔ مسلم لیگ ن بقا چاہتی ہے تو عوام کو خوش کرنا ہوگا۔ ورنہ ’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘۔

بادبان، عبید اللہ عابد


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “کیا بنے گا مسلم لیگ ن کا؟”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائ کی۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے