تہران کا میٹرو انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔ ہم ایک برقی سیڑھی اترے، پھر دوسری، پھر تیسری اور بالآخر چھ سیڑھیاں اترنے کے بعد زیرزمین تجریش کے ریڈ لائن کی پہلے اسٹیشن پر پہنچے۔
ہم چونکہ پہاڑی علاقے میں تھے اس وجہ سے بھی ہمیں کافی زیر زمین اترنا پڑا۔ یہ ہمارے لیے حیرت کی بات تھی کہ ایران تمام تر ناجائز اور نو آبادیاتی قوتوں کی انسان دشمن پابندیوں کے باوجود اتنی ترقی کرچکا ہے کہ ان کے ہاں میٹرو اسٹیشن کا نظام زیر زمین ہے اور شاندار ہے۔ دوبئی کا میٹرو نظام اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ تہران کی میٹرو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ میٹرو کا نظام کیسے بنایا جاتا ہے اور تمام تر پابندیوں اور مشکلات کے باوجود قومیں کس طرح ترقی کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کشور جہان، سفرنامہ، قسط:1
ایران کشور جہان، سفرنامہ، قسط:2
ایران کشور جہان، سفرنامہ، قسط:3
ایران کشور جہان، سفرنامہ، قسط:4
ایران کشور جہان، سفرنامہ، قسط:5
سات لائنوں پر مشتمل تہران میٹرو کو3 لاکھ سے زائد لوگ روز استعمال کرتے ہیں۔ 159 اسٹیشنز پر مشتمل 292 کلو میٹر طویل تہران میٹرو مشرق وسطی کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔
2040 تک11 لائنوں پر مشتمل 430 کلومیٹر طویل اور430 اسٹیشنز تک نیٹ ورک کو وسعت دینے کا منصوبہ ہے۔ 2018 میں ایک تخمینے کے مطابق 8 کروڑ سے زائد لوگوں نے سفر کیا تھا۔ ہم جس لائن پر تھے، ہمیں کئی اسٹیشنز کے بعد اپنی لائن بدلنا تھی تاکہ ہم اپنے ہوٹل تک پہنچیں۔ اس کے بعد ہم اورنج لائن میں بیٹھ گئے۔ ایک ٹکٹ جس کی پاکستانی روپے میں قیمت 20 روپے ہے، آپ کئی لائن بدل کر اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ صاف ستھری اور تہذیب یافتہ سروس۔ آپ تہران جائیں تو ضرور اس پر سفر کریں۔
اس کے بعد ہوٹل پہنچے۔ ڈنر کو انجوائے کیا۔ پھر کمرے میں سونے کے لیے چلاگیا۔ یہ تہران میں ہمارا دوسرا دن تھا جو بھرپور انداز میں سیکھنے اور سیر و تفریح میں گزرا۔
تیس اپریل سن دو ہزار چوبیس
حسب معمول بیدار ہونے کے بعد ناشتہ کیا۔ آج ہمارا پروگرام تہران کے ’بازار بزرگ‘ جانے کا تھا اور اس کے بعد آزادی اسکوائر کی سیر شامل تھی۔ میٹرو اسٹیشن کی طرف ڈاکٹر خالد کی سربراہی میں ہم روانہ ہوئے۔ پھر ایک جگہ اترے۔ دوستوں نے کہا کہ پہلے ایران کے روایتی کھانوں سے لطف اندوز ہوں گے پھر بازار بزرگ جائیں گے۔
کھانے کے لیے مناسب جگہ ڈھونڈنے میں کافی وقت لگا۔ پیدل چلے اور خوب چلے۔ ایک بہت بڑے چوراہے پر پہنچے اور لوگوں سے پوچھنا شروع کیا۔ ایک صاحب نے کمال مہربانی سے ہاتھ کے اشارے سے سڑک کی دوسری جانب جانے کو کہا۔
ہم سب اسی طرف چل پڑے۔ راستہ میں ایک پک اپ پر کیلے بڑے ترتیب سے لگے ہوئے فروخت ہو رہے تھے۔ میں ان کی تصویر لینے کے لیے رکا۔ اپنے ارد گرد دیکھا تو گروپ کا کوئی ممبر نظر نہ آیا۔
میں سمجھا کہ روڈ پار کرنے کے لیے زیر زمین راستے سے جارہے ہوں گے۔ میں وہاں گیا تو دیکھتا ہوں کہ یہ تو میٹرو اسٹیشن ہے۔ پھر واپس اوپر آیا تو عطاءاللہ پریشانی کے عالم میں میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے کہا کہ آپ اکیلے کہاں چلے گئے، ہم سب پریشان ہوگئے کہ آپ کو کوئی لے تو نہیں گیا، اچانک گروپ سے جدا ہوگئے۔
جس ریسٹورنٹ میں ہم داخل ہوئے تو ایسا لگا کہ ہم جو دو تین گھنٹوں سے خوار ہورہے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کھانے کی اس خوبصورت جگہ کو منتخب کیا تھا ۔ یہ ریسٹورنٹ شاندار طرز تعمیر کا شہکار تھا۔ یہاں ایرانی ایلیٹ کھانا کھانے آتی ہے۔ کھانا بھی شاندار تھا جو مونس احمد نے اپنی کمپنی آصف ٹائر کی طرف سے گروپ کے اعزاز میں دیا تھا۔ یہ روایتی چیزوں سے بھرپور تھا۔ اس ریسٹورنٹ میں بھی ایران جدید کا منظر غالب تھا۔ خواتین کے سکارف واجبی اور نمائشی تھیں۔
وکیل تجار ریسٹورنٹ آج سے 96 سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ ابھی کچھ عرصے پہلے اسے تعمیر نو کے عمل سے گزارا گیا تھا۔ یہ جس اسکوائر پر واقع تھا، تہران کا مشہور پھانسی اسکوائر کہلاتا ہے۔ یہاں مجرموں کو پھانسی دی جاتی تھی۔
یہاں سے پھر تقریباً 2 کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد ہم بازار بزرگ کی مرکزی شاہراہ پر پہنچے۔ یہاں پر ہم بازار بزرگ کے مین بلیوارڈ پر چلتے رہے۔ اچانک دیکھا کہ جو لڑکی ہمارے ساتھ ٹور آپریٹر کے طور پر ساتھ تھی، اسے تہران کی مورل پولیس نے پکڑ لیا۔ دراصل وہ اور ہمارا ایک ساتھی گپ شپ میں مصروف تھے کہ مورل پولیس والے اسے اچانک ایک طرف لے گئے۔ ہم پریشان ہوئے کہ ماجرا کیا ہوگیا۔ وہاں پر فیمیل پولیس والی اہلکار ان سے پوچھ گچھ کرنے لگیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد ان کو چھوڑ دیا گیا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا؟ اس نے بتایا کہ وہ کہہ رہی تھی، لباس درست رکھیں جو واقعی ایران کے حساب سے قابلِ اعتراض تھا۔ پھٹی ہوئی جینز پر اعتراض تو بنتا تھا۔
اس مصیبت سے چھوٹے تو پھر چلنا شروع کیا۔ آگے چل کر شٹل پر بیٹھ گئے۔ یہ بہت بڑا بازار ہے جہاں ایک طرف پیدل اور دوسری طرف بائیکس کو چلنے کی اجازت ہوتی ہے۔
یہاں سے واپسی پر ٹیکسی میں بیٹھ کر آزادی اسکوائر چلے گئے۔ راستے میں تہران شہر کے خوبصورت نظارے دیکھے۔ آزادی اسکوائر جس کو ’شاہ یاد ٹاور‘ بھی کہا جاتا ہے کہ شاہ ایران نے ایرانی قوم کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ مکمل ہونے پر 1971 میں تعمیر کرایا تھا۔ اس پر اس زمانے کے 300 ملین ڈالر کا خرچہ آیا تھا جو ایران کے تاجروں نے دیا تھا۔
آزادی ٹاور کو ایک نوجوان آرکیٹکٹ حسین امانت نے ڈیزائن کیا ہے۔
45 میٹر اونچی اس شاندار ٹاور کو جو مہرآباد ائیر پورٹ کے قریب ہے تہران کا ایک اہم ٹورسٹ مقام ہے۔
ہم وہاں مغرب سے تھوڑا پہلے پہنچے تھے۔ وہاں تصاویر بنائیں۔ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہے۔ یہاں پر ہمیں میر حمید میر نے جوائن کیا جو ایکسپو گئے ہوئے تھے۔ وہ میرے لیے زار گروپ کی پروڈکٹس لے کر آئے تھے جو ہمارے دوستوں کو خوب پسند آئیں۔ میرا پروگرام ہے کہ زار گروپ کے ساتھ کام کیا جائے۔
یہاں پر میر حمید کے ساتھ ائیر پورٹ اسٹیشن سے ہوٹل کے لیے روانہ ہوئے۔ ایک لائن بدل کر دوسری لائن پر آگئے۔ تہران کی میٹرو سروس واقعی زبردست ہے۔ ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر نماز مغرب اور عشاء ادا کیں اور کچھ دیر انگلش چینل پریس ٹی وی کو دیکھا۔ پریس ٹی وی پر غز ہ کی مسلسل اور بھرپور کوریج کی جارہی تھی ۔ یہ زبردست ٹی وی چینل ہے جو بی بی سی اور الجزیرہ کی طرز پر شروع کیا گیا ہے۔ اس کے لوگ کافی معیاری رپورٹنگ کر رہے تھے۔( جاری ہے)