فراتِ تشنہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مترجم: مدثرمحمودسالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے اپنی پیاری چڑیا کی چوں چوں سے میری آنکھ کھلی۔۔۔۔۔۔
یہ چھوٹی سی مغرور شہزادی اپنے رنگین پروں سے مجھے لبھاتے ہوئے ، معصومانہ انداز میں میرے گرد اڑان بھرکر اپنی سریلی آواز سے میرے کمرے کے ماحول کو خوابناک بنائے جارہی تھی۔

میں نے سستی سے انگڑائی لی ، سر اٹھا کر اپنے اطراف دیکھا اور بازو پھیلا کر اس تتلی کی طرح اڑنا چاہا جو نہر فرات کے کنارے اڑ رہی ہوتی ہے۔
میں اڑ کر اپنی نیند بھری سستی کو چھوڑ کر اپنے اعصاب کو بحال کرکے زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔

میں بستر میں لیٹی کھلی آنکھوں سے تتلی بن کر اڑنے کا خواب دیکھ رہی تھی کہ صبح کی روشنی جیسے ہی میرے چہرے پر پڑی اور میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔

صبح بخیر اے پرندوں کے سفیر!
چڑیا کمرے میں پھڑاپھڑائی ایک چکر میرے گرد لگایا اور آہستہ سے اپنے نفیس پنجرے میں داخل ہوگئی،گویا میرے مکمل جاگنے کا انتظار کیے بغیر اپنی پیاری اڑان سے میرے صبح بخیر کے کلمات کا جواب دیتی ہوئی پنجرے میں گھس گئی۔

صبح بخیر اے سَرو کے قد آور درختو!
میں نے گھر کی دوسری منزل پر موجود اپنے کمرے کی کھڑکی کے سامنے ساکت و جامد کھڑے سَرو کے تناور درختوں کو صبح کا سلام پیش کیا۔
ان درختوں سے پار گاؤں کا واحد قبرستان دیکھ کر جسم میں صبح صبح سنسناہٹ دوڑ گئی۔

صبح بخیر اے قبروں میں سونے والو!
آہ تم سب کتنی راحت سے مٹی کے اندر درختوں کی چھاؤں میں آرام فرما ہو۔
میں کمرے میں چہل قدمی کرکے اپنے اوسان بحال کرنے لگی اور اس موت سے دوری اختیار کرنے لگی جو نیند کی صورت میں رات مجھ پر اتری تھی۔

صبح بخیر اے میرے غمگین چہرے!
میں نے خود کو بستر پر اوندھا گرا کر نرم کمبل کو اپنی انگلیوں میں بھینچ لیا۔ میں کمبل کی نرمی اور لطافت کو انگلیوں کی پوروں سے محسوس کرنے لگی، مجھے کمرے اور اطراف کا ماحول عاشقانہ سا لگنے لگا اور میں انگلیوں کی پوروں سے کمبل کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے عشق کی خاموش زبان سمجھنے لگی۔

ایک چھوٹی سی لڑکی کی غم سے آشنا انگلیوں نے تخیل کے زور پر اس بڑے قصبے کا محاصرہ کرنا چاہا،
آہا میری انگلیاں تو فرات تک جاپہنچیں۔
فرات۔۔۔۔؟؟؟؟
میں نے قہوہ بنانےکاارادہ کرتے ہوئے سر کو جھٹکا۔

زندگی بھی عجیب احساس ہے، فرات کے کنارے کتنی ہی سردیاں اور گرمیاں بیت گئیں۔ کتنے موسم آئے اور ہمارا بچپنا چھین کرلے گئے، اور اپنے ساتھ ہماری خوشیاں بھی لے گئے۔
میری امی تو اس نہر فرات سے کچھ زیادہ ہی تنگ ہیں۔
مجھے ایک بار امی نے کہا تھا
یہ نہر مردوں کی طرح خائن اور غدارہے۔
امی کی تمام تر بدگمانیوں کے باوجود یہ نہر میرے دل کے بہت قریب ہے، یہ میرے جسم کے اسرار کی واحد رازدان ہے۔

جب میں اپنالباس اتارکر اس کی بانہوں میں اترتی تھی تو اس کی موجیں میرے جسم کا ہر حصہ چھوتی تھیں اور دیوانے عاشق کی مانند مجھے پانی میں ہچکولے دیتیں مگر اس کی دیوانگی میں سفاکیت نہیں ہوتی۔

اے فرات ہم دونوں شکست خوردہ ہیں، تجھے تیرے بڑھاپے نے اور تیرے گرد کھڑی ہونی والی دیواروں نے شکست دے دی ہے اور میں زندگی کے دکھوں سے شکست کھاگئی۔
فرات سے خیالی گفتگو کرتے ہوئے میں چلتے چلتے کمرے کے وسط میں رک گئی اور ایسے لگا کہ وقت کے ساتھ ہر شے تھم گئی ہے۔

میری نظر رات کے بچے ہوئے کھانے پر پڑی اور میں نے ہاتھ بڑھا کر قہوہ دانی میں تازہ پانی ڈال کر چھوٹے چولہے پر تیز آنچ پر قہوہ دانی رکھ دی۔
قہوہ ابلنے لگا اور قہوے کی مسحور کن خوشبو کمرے میں پھیلنے لگی۔
میں نے دو صاف کپ قہوہ سے بھرے اور ایک پلیٹ میں کھجور اور جو کے بنے ہوئے بسکٹ رکھے۔

میں نے دونوں کپ کھڑکی کے پاس لاکر رکھے اور ساتھ بسکٹ کی پلیٹ بھی دھردی۔
میں جلدی سے کوزے کی طرف بڑھی اور منہ دھوکر عجلت میں بال سنوارے اور آئنے میں خود کو دیکھ کر اپنے آپ کو تیار پایا۔
اب میں کرسی کھینچ کر کھڑکی کے پاس بیٹھی اور ایک کپ اٹھا کر اس کا چھوٹا سا گھونٹ لیتے ہوئے اپنے نامعلوم ساتھی کو قہوہ کی دعوت دی۔
عزیز من قہوہ لو نا۔۔۔۔

میں نے گھونٹ گھونٹ قہوہ پیتے ہوئے ہنس کر چھوٹی چڑیا کو مخاطب کیا
ارے چڑیا تھوڑا سا قہوہ تم بھی لو ۔۔
میں نے گلدان میں سے سرخ پھول پودے سے توڑا اور اپنے بالوں میں اٹکا لیا۔ اس دوران میری انگلیاں سرخ پھول کے گرد موجود کانٹوں کی چبھن سے جھنجھلا اٹھیں۔
میں نے دیکھا قہوہ کا دوسرا کپ ٹھنڈا ہورہا ہے اور اسے پینے والا ہنوز غیرحاضر ہے۔
آہ وہی بے درد جس نے ایک بار کہا تھا
دو لوگوں پر کبھی حاوی مت ہونا
ایک عاشق اور ایک مغلوب، اور میں عاشق ہوں۔

میں نے اپنا قہوہ اٹھایا اور سیڑھیاں اتر کر گھر کی پہلی منزل کی طرف بڑھی۔
میں نے امی کو اور بہن کو سلام کیا اور نیم گرم قہوے کے آخری گھونٹ بھرے۔
میرا بھائی بولا!!!!
کیا خیال ہے ناشتہ کرو گی؟
شکریہ میں نے قہوہ پی لیا ہے اور ابھی ناشتے کا موڈ نہیں۔
میری امی بولیں!!!!
یہ لڑکی پاگل ہے، اس کا کھانا پینا قہوہ اور کتابیں اور انگیٹھی کا دھواں ہے۔

میں مڑ کر دیکھے بغیر دروازہ سے نکل آئی اور نہر فرات کے دوسری طرف موجود اپنے مدرسے کی طرف لمبے لمبے قدم بھرتے ہوئے چل پڑی۔
اس نہر کا آخری سرا کہیں تو ہوگا جیسے زندگی کا آخری سرا کہیں موجود ہے۔
دن کے ایک بجے چھٹی ہونے کے بعد میں اکیلی نہر فرات کی طرف چل دی۔
میرے اندر انجانی سی مسرت بھری جارہی تھی اور میں سحر زدہ فرات کی طرف بڑھ رہی تھی۔

میں نے خشک سالی کی شکار فرات پر نظر ڈالی اور ایسے لگا جیسے کوئی بڑھیا طرح طرح کے امراض سے عاجز آکر آخری سانسوں میں اٹکی ہوئی ہے۔
میرے پیٹ میں بھوک سے آنتیں مروڑ کھارہیں تھیں اور میں پرندے کی طرح بے خوف ہوکر فرات کے اوپر اڑنا چاہتی تھی۔
میں خشک مٹی پر چلنے لگی اور اس پانی کو قدموں تلےبہتا ہوا محسوس کرنے لگی جو صدیوں پہلے یہاں بہتا تھا۔

میں نے اپنے سامنے ایک مگرمچھ کو پیاس سے ہانپتے دیکھا اس میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ وہ سامنے دریا کے وسط میں موجود کچھ پانی کی طرف جاسکتا۔
میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر کھینچ کر پانی میں لاپھینکا اور ہاتھ سے پانی اس کے منہ پر پھینکنے لگی،

میں پانی اس پر ڈالتے ڈالتے دفعتا سیدھی کھڑی ہوئی اپنے بازو اوپر کو اٹھائے اور آسمان کے ساتھ ایسے جھولنے لگی جیسے کسی سرسبز درخت پر چڑیاں خوشی سے جھولتی ہیں۔
(عربی سے ماخوذ)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “فراتِ تشنہ” جوابات

  1. فرمان اللہ Avatar
    فرمان اللہ

    لاجواب، بہت 👌 زبردست
    ادبی وفکری زبان کا اُسی طرح کی ادبی وفکری زبان میں ترجمہ مشکل سے مشکل کام ہے، جو بہت کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے.

    1. مدثر محمود سالار Avatar
      مدثر محمود سالار

      فرمان اللہ صاحب
      حوصلہ افزائی کا شکریہ

  2. محمد عدیل عاصم Avatar
    محمد عدیل عاصم

    کہانی کا اختتام سمجھ نہیں آیا.. باقی عنوان کے حساب سے فرات کی عکاسی خوب کی ہے.. ترجمے میں روانی ہےاس لیے پڑھنے میں دلچسپی برقرار رہی ہے!

  3. عنایت اللہ کامران Avatar
    عنایت اللہ کامران

    مترجم نے ترجمہ نگاری کا حق ادا کیا ہے. اچھی تحریر اور انداز بہت پیارا ہے.

    1. مدثر محمود سالار Avatar
      مدثر محمود سالار

      بہت شکریہ بھائی صاحب