عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمرالزمان کائرہ کے نوجوان بیٹے کی گذشتہ روز ٹریفک کے حادثے میں ہلاکت کی خبر پر پاکستان کے وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ،پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف، پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو سمیت پاکستانیوں کی اکثریت نے سوشل میڈیا پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
پرسوں سے پاکستان میں اس سوال پر بھی بحث مباحثہ شروع ہوگیا ہے کہ اخباری رپورٹر نے قمرالزمان کائرہ کو اس انداز میں خبر دے کر غلط کیا۔ یادرہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب وسطی کے صدر قمر الزمان کائرہ کو جواں سال بیٹے کی ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے کی خبر اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک رپورٹرنے برسر مجلس دی تھی۔
سوشل میڈیا کے چند صارفین نےمیڈیا کے اس رپورٹر کو اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے نوکری سے فارغ کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ ایک صارف نے صحافت کے موجودہ نظام ہی کو فرسودہ قراردیا۔ کیا واقعی پاکستان کے سیاسی نظام کی طرح یہاں کا نظام صحافت بھی فرسودہ ہے؟
جی ہاں! الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پر صحافتی اخلاقیات کا جس طرح جنازہ روز نکلتا ہے، اس سے تو صارف کا خیال درست لگتا ہے۔ پروفیشنل ازم اب کم ہی نظر آتا ہے،اس کے ذمہ دار جہاں مالکان ہیں، وہاں خود صحافی بھی ہیں۔ جب مالکان اور اخبارنویسوں، دونوں نے صحافت کو اپنے ذاتی مفادات کے فروغ کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا، تب صحافت بے چاری کیا بنتا!
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں صحافت کی تعلیم دینے والا کوئی ادارہ نہیں ہے، جن تعلیمی اداروں میں ماس کمیونیکیشن کے شعبے قائم ہیں،وہاں سے فارغ التحصیل صحافیوں کی قابلیت اور اہلیت کے بارے میں خود حاضر سروس صحافیوں کے خیالات اچھے نہیں ہوتے۔
سوال ہے کہ اس مرض کا علاج کیا ہے؟
ظاہر ہے کہ اصلاح احوال کا راستہ ایک ہی ہے کہ صحافیوں کی اصل تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ نہ صرف الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا بلکہ ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ افراد کی بھی ٹریننگ۔ اور سوشل میڈیا کے صارفین کی تعلیم و تربیت بھی نہایت اہم ہے تاکہ ان ذرائع کی مدد سے معاشرہ میں درست شعور پیداہو۔ شعور ہی سے ترقی اور خوشحالی ملتی ہے۔
بادبان www.badbaan.com نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس بحران میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔ آنےوالے چند دنوں میں بڑے پیمانے پر صحافتی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کرے گا۔ یہ ایک سنہری موقع ہوگا نہ صرف الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ افراد کے لئے بلکہ ان کے لئے بھی جو ایک طویل عرصہ سے ان میدانوں میںکچھ کر گزرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، پیشہ وارانہ انداز میں اپنا نام چمکانا چاہتے ہیں لیکن انھیں کوئی موقع میسر نہیں آرہا بالخصوص نوجوان افراد کے لئے۔
ایک تبصرہ برائے “قمرالزمان کائرہ کے بیٹے کی ہلاکت، صحافتی اخلاقیات، اب کیا کرنا چاہئے؟”
بادبان کا یہ فیصلہ کہ وہ صحافیوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرے گا بہت شاندار ھے۔ سچ تو یہ کہ ھر معاملے میں صرف تنقید سن سن کر کان پک چکے ہیں ۔ کوئی تو ھو جو عملی تربیت کا اہتمام کرے۔ یہ ایک بہت اچھا قدم ھوگا ۔