بھارت میں نریندرمودی کی جماعت “بھارتیہ جنتا پارٹی” نے پہلے سے کہیں زیادہ نشستیں جیت کر ایک بارپھر حکومت سازی کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ ابتدائی رجحانات کے مطابق بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو واضح سبقت حاصل ہے۔
نئی دلی سے بی بی سی اردو کے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق نتائج کے رجحانات کے مطابق بی جے پی کے اتحاد کو گزشتہ انتخابات سے بھی زیادہ نشستیں مل سکتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق لوک سبھا کی 542 نشستوں میں سے بی جے پی 296 نشستوں پر آگے ہے جبکہ مجموعی طور پر 346 نشستوں پر اس کا اتحاد آگے ہے۔
یادرہے کہ بھارت میں مرکزی حکومت بنانے کے لیے 272 نشستیں درکار ہیں اور اگر یہ رجحانات برقرار رہے تو بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت اپنے بل بوتے پر ہی مل سکتی ہے۔
اس کے برعکس کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو 80 سے زیادہ نشستیں ملتی دکھائی دے رہی ہیں جن میں سے کانگریس محض 53 نشستوں پر آگے ہے۔
تیسرے نمبر پر ترنمول کانگریس اور وائی ایس آر ہیں جنھیں 24، 24 نشستیں ملی ہیں۔
جیت کے امکانات کو نہایت واضح دیکھتے ہوئے بی جے پی نے اپنے اجلاس میں سوچنا شروع کردیاہے کہ نریندر مودی وزیر اعظم کے عہدے کا حلف کب اور کہاں حلف اٹھائیں گے۔
وزیر اعظم نریندر مودی جن کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سنہ 2014 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار میں آئی تھی۔ اس بار بھی ان کا سامنا روایتی سیاسی حریف حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی اور ملک بھر میں طاقتور علاقائی حریفوں کے خلاف تھا۔
سنہ 2014 میں بی جے پی نے 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جو کہ گزشتہ 30 برسوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کی سب سے بڑی جیت تھی جبکہ کانگرس کو صرف 44 نشستیں مل سکیں تھی جو ان کی بدترین شکست تھی۔
گاندھی خاندان کی قیادت میں انڈین نیشنل کانگریس کی بری شکست کے بارے ان تجزیہ نگاروں کے دعوے ایک بار پھر غلط ثابت ہوگئے ہیں، جن کا کہناتھا کہ برصغیر سے موروثی سیاست کو خارج نہیں کیاجاسکتا۔
بھارت میں کاشت کاری میں بحران، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور انڈیا کے ممکنہ طور پر اقتصادی بحران کی جانب جانے کے خدشات کے پیشِ نظر اس الیکشن کا شاید اہم ترین موضوع معیشت رہا۔
فصلوں کی زیادہ پیداوار اور اشیا کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا اور بہت سے کسان قرضوں کے تلے دبتے چلے گئے ہیں۔
مودی کی قیادت میں دنیا کی اس چھٹی بڑی معیشت کی قومی مجموعی پیداوار میں اضافے کی شرح قدرے کم ہو گئی ہے۔ یہ شرح اس وقت سات فیصد کے قریب ہے اور گذشتہ سال ایک حکومتی رپورٹ لیک ہوئی جس کے مطابق بےروزگاری کی سطح 1970 کی دہائی کے بعد بلند ترین سطح پر ہے۔
بہت سے لوگ اس الیکشن کو انڈیا کی شناخت اور اقلیتوں کے تحفظ کی جنگ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ایک قدرے تلخ انداز کی اور کبھی کبھی پرتشدد انداز کی ہندو قوم پرستی ملک کے مرکزی دھارے میں شامل ہوگئی ہے۔ اقلیتوں کے خلاف حملے بڑھ رہے ہیں، جن میں درجنوں مسلمانوں پر گائے سمگل کرنے کے الزامات کے نتیجے میں سرِعام شدید تشدد کے واقعات شامل ہیں۔
ادھر فروری میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مبینہ طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کی جانب سے نیم فوجی دستے پر حملے میں 40 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد قومی سلامتی بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ اس کے بعد انڈیا نے پاکستان پر فضائی کارروائی کی جس کے بعد دونوں ممالک جنگ کے دھانے پر جا پہنچے تھے۔
ایک تبصرہ برائے “بھارت:عام انتخابات میں نریندرمودی کی بڑی جیت”
اقلیتوں کے حق میں یہ ایک بہت بری خبر ھے اور پاکستان کو بھی ہمسائیہ میں ایک معتدل اور دوستانہ حکومت کی ضرورت تھی جب کہ نریندر مودی
جیسا تنگذہن متعصب شخص سواۓ تکلیف دینے کے کچھ نہیں کرسکتا ۔