یارڈسیل کا اشتہار۔ امریکا

یارڈ سیل۔۔۔۔ آپ بھی یہ تجربہ کرکے دیکھئے ذرا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں ایک مغالطہ زبانِ زدِ عام ہے کہ ہم مشرقی لوگ تو رکھ رکھاؤ کے مالک ہیں اور ہمارا اپنے پڑوسیوں سے میل جول رہتا ہے مگر مغرب میں کوئی کسی کو نہیں پوچھتا اور سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ یہ بات تو آنکھوں دیکھے مشاہدے کے بعد کی جائے تو زیادہ مستند ہوگی۔

تہذیب و ثقافت میں گہری دلچسپی ہونے کے باعث میں جس سوسائٹی میں بھی رہوں وہاں کے رسم و رواج اور رہن سہن کو حتی الوسع سمجھنے کی سعی کرتا ہوں۔

آج آپ کو مغرب کی ایک دلچسپ اور منفرد روایت بتاتا ہوں۔ منفرد اس لیے کہ یہ مفید روایت مجھے پاکستان میں دیکھنے کو نہیں ملی۔

عموماً گاڑی میں ہوں تو راستے میں لگے ہوئے چھوٹے سائز کے اشتہار یا نوٹس کی طرف توجہ نہیں جاتی۔ایک دن میں گھر کے قریب مارکیٹ پیدل گیا تو راستے میں کئی جگہ رنگین اشتہار دیکھے جو رنگین کارڈ پر ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے۔

مابدولت رُک کر ایک اشتہار پڑھنے لگے تو لکھا تھا یارڈ سیل اور ساتھ گھر کا پتا مع گلی نمبر اور دن و تاریخ نمایاں لکھی ہوئی۔ ہمارا پہلا رد عمل تو یہ تھا کہ یارڈ تو گریو یارڈ ہوتا ہے اور گریو یارڈ تو قبرستان کو کہتے ہیں۔

تو یہ کونسا یارڈ ہے جس کی سیل ہوگی۔ آگے جاکر وہی اشتہار چند اور دیواروں پر دیکھا تو تجسس پیدا ہوا کہ یہ کوئی نئی چیز ہے اس کے متعلق کسی مقامی فرد سے پوچھنا پڑے گا۔

یارڈ گھر کے سامنے یا پچھواڑے والے باغیچے کو کہتے ہیں۔ یارڈ کا لفظ باغیچہ کے علاوہ بھی کئی دیگر الفاظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے شپ یارڈ ، کورٹ یارڈ وغیرہ۔

بہرحال میں آپ کو یارڈ سیل کی تفصیل بتاتا ہوں۔ یہاں امریکہ میں دو چار گلیوں کے لوگ ہر چار ، چھے ماہ بعد کسی ایک پڑوسی کے باغیچے میں اپنا استعمال شدہ اور قابل استعمال گھریلو سامان نہایت سستی قیمت پر بیچتے ہیں۔

چند دوست مل کر طے کرلیتے ہیں کہ کس کے بیرونی باغیچے میں کس دن یہ فروخت ہوگی۔ پھر اشتہار لگادیا جاتا ہے اشتہار لگانے سے دیگر افراد بھی رابطہ کرکے اپنا سامان وہاں لاکر فروخت کرسکتے ہیں۔

نہ کوئی کرایہ نہ کمیشن جس نے جو بیچنا ہے اپنی صوابدید پر بیچے۔ یہ ایک دن کا پروگرام ہوتا ہے اور عموماً چھٹی والے دن ہی ہوتا ہے۔

جنہوں نے اپنا سامان فروخت کرنا ہے وہ اپنے گھر سے اپنے سامان کی مناسبت سے میز یا کپڑے لٹکانے والا سٹینڈ خود لاتا ہے۔
ہر طرح کا قابل استعمال گھریلو سامان ہونا چاہئے۔

سامان کی قیمت برائے نام ہوتی ہے اور لوگ استعمال شدہ سامان خریدنے میں کسی قسم کی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ کراکری اور کپڑے وغیرہ تو عام اشیاء ہیں ،لوگ دیگر گھریلو استعمال کی الیکٹرونکس بھی بیچتے ہیں۔

اشتہار ایک ہفتہ پہلے لگادیا جاتا ہے تو آس پاس کے لوگ اور راہ چلتے لوگ چکر لگاکر اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق چیزیں خریدتے ہیں۔

سامان کی برائے نام قیمت کا اندازہ آپ ایک چھوٹی سی مثال سے لگالیں کہ مجھے اپنے کمرے کے لیے اے سی خریدنا تھا اور چونکہ گرمیوں کا موسم میرے شہر میں زیادہ سے زیادہ تین ماہ کا ہوتا ہے تو نیا خریدنے سے اجتناب کررہا تھا،

چند ہفتے پہلے ہمارے محلے میں یارڈ سیل تھی وہاں چکر لگایا اور جن صاحب کا گھر تھا، ان سے گزارش کی کہ کوئی پڑوسی استعمال شدہ اے سی بیچ رہا ہو تو مجھے بتائیے گا۔

وہ صاحب فوراً بولے: میرے سٹور میں ایک اے سی ہے اگر لینا ہے تو میں ابھی لادیتا ہوں۔ موصوف نے اپنی ہی گاڑی میں رکھ کر اے سی میرے گھر پہنچا دیا۔

عموماً نیا اے سی دو سو ڈالر سے شروع ہوکر چھے سات سو تک بھی ہوتا ہے اور ان صاحب نے مجھے فقط پانچ ڈالر میں اے سی گھر پہنچا دیا۔
آپ اندازہ لگالیں کہ یارڈ سیل میں لوگ کیوں دلچسپی رکھتے ہیں۔

اگر اس طرح کی مثبت سرگرمی ہم پاکستان میں چھوٹے شہروں میں اپنے محلوں میں کریں تو کافی لوگوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوجائیں اور سفید پوشی کا بھرم بھی رہ جائے۔
لوگ استعمال شدہ برتن اور کپڑے تک خریدتے ہیں تو شرم محسوس نہیں کرتے۔

آپ بھی اپنے محلے میں کسی دن یہ تجربہ کرکے دیکھیں۔ آپ کے گھر کے سٹور میں کتنا ہی ایسا سامان ہوگا جو پھینکنے کو دل نہیں چاہتا اور آپ کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے تو اس طرح کسی کے کام آجائے گا اور آپ کے گھر سے غیرضروری سامان ختم ہوجائے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “یارڈ سیل۔۔۔۔ آپ بھی یہ تجربہ کرکے دیکھئے ذرا” جوابات

  1. فرحت طاہر Avatar
    فرحت طاہر

    جماعت اسلامی ایسا ہی کرتی ہے .پرانی چیزیں ریکنڈیشنڈ کر کے بازار لگا دیتی ہے جس سے ضرورت مند نہایت کم قیمت پر اسے خرید لیتے ہیں .ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوگی
    تعلیمی سال کے آغاز پر تدریسی اشیا ء اور کتب کے اسٹال جگہ جگہ لگاتی ہے

  2. ubaid_ullah Avatar
    ubaid_ullah

    محترمہ فرحت طاہر!
    جماعت اسلامی ایسا کام کرتی ہے تو بہت اچھا کرتی ہے۔ آپ کو یہ تجربہ یا مشاہدہ https://www.badbaan.com/ پر شئیر کرنا چاہئے۔

  3. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    یارڈ سیل کو کینیڈا اور انگلینڈ میں گیراج سیل اور رمیج سیل بھی کہا جاتا ھے اور یہ سب یورپین ملکوں کی ایک بہت ہی کامن روایت ھے۔ پاکستانی قوم کے اندر وہ کھلا پن نہیں ھے جو ان ممالک کے عوام میں پایا جاتا ھے ھمارے لوگ بظاہر احساس برتری کا شکار ہیں اس لئے ھمسائے کے پرانے کپڑے یا استعمال شدہ ڈنر سیٹ دس بیس روپے میں خریدنا اپنی ہتک سمجھیں گے۔ اور ایک اور پہلو یہ ھے کہ ھمارے ملک میں یہ رواج شاید اس لئے بھی نہیں پنپ سکا کہ بہت غربت کی وجہ سے پرانی چیزیں کام کرنے والیوں کو یا غریب رشتہ داروں کو دے دی جاتی ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک میں مفت دینے کا رواج نہیں ھے اس لئے وہ اپنی بے کار چیزوں سے بھی پیسہ بناتے ہیں۔. مجموعی طور پر یہ ایک اچھی تحریر ہے ۔

    1. مدثر محمود سالار Avatar
      مدثر محمود سالار

      زبیدہ روف صاحبہ بہت شکریہ تحریر پسند کرنے کا۔