پاکستان کا پرچم

آئو سیاحو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عثمان جامعی۔۔۔۔۔۔۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ”ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن“ کے تحت 27 ستمبر کو سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، کیوں کہ ہم ہر عالمی دن مناتے ہیں اس لیے یہ دن بھی منائیں گے، لیکن سیاحت کا دن منانے سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم دنیا بھر کے سیاحوں کو منا کر پاکستان لائیں۔

سیاحوں کو منانے، رجھانے اور لانے کے لیے ہمیں ان سے رابطہ کرکے انھیں پاکستان کے مختلف شہروں اور مقامات سے روشناس کرانا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ سیاحت کے شوقین افراد کے لیے پاکستان اور اس کے سیر کے قابل کچھ مقامات کا تعارف پیش کردیں۔ تو پہلے حاضر ہے خود پاکستان کا تعارف:

٭پاکستان
پیارے سیاحو! ہمارا ملک پاکستان جنوبی ایشیا میں واقع ہے۔ یہ لوکیشن اتنی اچھی ہے کہ ہم نے نیا پاکستان بھی یہیں بنایا ہے۔ پاکستان کے مشرق میں بھارت ہے، مغرب میں ایران اور افغانستان، شمال میں چین، جنوب میں بحر اور پاکستان میں کئی مقامات پر بحریہ ٹائون ہیں۔ چین اور سمندر سے ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔
پاکستان میں آپ ہوائی جہاز سے، سڑک سے اور افغانستان سے آسکتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو جیسے بعض ”سیاح“ ایران کے راستے بھی آجاتے ہیں۔

پاکستان میں سیاحوں کے لیے دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اسی لیے ہمارے قومی شاعر نے کہا ہے ”کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ۔“ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پیارے! یہ پاکستان ہے یہاں منہ اٹھا کر چلنا مت شروع کردے، آنکھیں کُھلی رکھ زمیں دیکھ کہیں کوئی گٹر تو نہیں کُھلا، کوئی گڑھا تو نہیں، فلک دیکھ کہ بجلی کا تار تو گرنے کو نہیں، فضا دیکھ مکھیاں تو نہیں بھنبھنا رہیں اور جراثیم لے کر تجھ پر حملہ کرنے تو نہیں آرہیں۔ بس اتنی سی احتیاط کے ساتھ پاکستان میں سیاحت کا بھرپور لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ تو سیاحو! ہم آپ کو پاکستان کے اہم سیاحتی مقامات سے روشناس کراتے ہیں۔

٭اسلام آباد
اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہ راولپنڈی کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ ہی سے ساتھ ہے، مگر ان دنوں کچھ زیادہ ہی ساتھ ہے۔ اسلام آباد کے لیے راولپنڈی کا ساتھ ضروری ہے، ورنہ دارالحکومت میں حکومت کو ”ہارالحکومت“ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

یہاں تاریخی عمارتیں تو نہیں مگر عمارتوں میں تاریخ ضرور بنتی ہے۔ چوں کہ سنہری حرفوں سے تاریخ لکھنے کے لیے سونے کا پانی چاہیے، جو بہت منہگا ہے، چناں چہ سیاہ تاریخ لکھ کر کام چلایا جاتا رہا ہے۔ اس شہر میں اکثر لوگ حکومت کرنے، جیبیں بھرنے اور دھرنے کے لیے آتے ہیں۔ جو سیاح یہاں گھومنے پھرنے آنا چاہتے ہیں وہ کچھ دن انتظار فرمائیں،کیوں کہ مولانا فضل الرحمٰن آنے والے ہیں، اگر وہ راستے سے اُلٹے قدموں گھوم گئے تو سیاح آکر گھوم لیں۔

٭کراچی
کراچی آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اس کی بڑائی میں لینڈمافیا اور بلڈرز کا سب سے بڑا کردار ہے، جن کی پستیوں اور مستیوں کے باعث شہر میں دور دور تک تازہ بستیوں کا جنم ہوا۔ لیکن سیاحوں کو ان بستیوں سے کیا لینا دینا، ہمیں تو بس انھیں کراچی کی وسعت کے بارے میں بتانا تھا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ اتنا بڑا شہر ہے کہ خود کراچی کراچی میں کہیں کھوگیا ہے۔

کراچی میں سیاحوں کے دیکھنے کو سمندر ہے۔ خود کراچی والوں کو بھی ایک زمانے تک نہیں پتا تھا کہ یہاں سمندر ہے۔ پھر ہمارے ایک ادیب انتظارحُسین نے انھیں بتایا کہ ”آگے سمندر ہے“، وہ آج زندہ ہوتے تو ان کے نئے ناول کا عنوان ہوتا ”اور پیچھے بحریہ ٹائون ہے۔“ کراچی والے تو اتنا جاننے ہی پر خوش ہوگئے کہ آگے سمندر ہے، لیکن ان کے راہ نمائوں نے کسی انتظارحُسین کا انتظار کیے بغیر سمندر سے آگے کی دنیا دریافت کرلی اور دبئی، امریکا اور برطانیہ جابسے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ سیاح حضرات سمندر پر نہ جائیں، سمندر تو دنیا بھر میں ہے کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں، ہمارا کچرے سے اَٹا ساحل دیکھ کر ہمیں شرمندہ کرنا ضروری ہے۔

کراچی میں قائداعظم کا مزار بھی ہے۔ قائداعظم وہ ہیں جنھوں نے پاکستان بنایا تھا، اس احسان کے جواب میں قوم نے ان کا مزار بنادیا، ہم احسان کا بدلہ مزار سے دیا کرتے ہیں۔ اگر سیاح مزارقائد پر نہ جانا چاہیں تو کوئی بات نہیں، ہمارے وزیراعظم بھی نہیں جاتے۔

کراچی میں پانی کی قلت ہے، اتنی کہ عوام قطرے قطرے کو ترستے ہیں اور حکم رانوں کو چُلو بھر پانی بھی میسر نہیں۔ چناں چہ کراچی میں آکر سیاح منہہ دھوئے بغیر جس منہ سے آئے تھے وہی لے کر جائیں گے، اس لیے بہتر ہوگا کہ کراچی نہ آئیں۔

٭پشاور
پشاور خیبرپختون خوا کا دارالحکومت ہے، یہ وہی صوبہ ہے جس میں بسنے والوں کے بارے میں ہمارے ایک قومی نغمے میں بچوں کو پاکستان کی سیر کراتے ہوئے یہ کہہ کر ڈرایا گیا ہے کہ
”ٹھوکر میں زلزلے یہاں ہیں، مُٹھی میں طوفان یہاں
سر پہ کفن باندھے پھرتا ہے دیکھو ہر اک پٹھان یہاں“

نغمے کے ان مصرعوں سے ڈر کر بچے اس صوبے کی سیر کرنے نہیں گئے تھے۔ تاہم سیاحوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، اب یہاں لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مٹھی میں چار پیسے آجائیں، اس لیے مٹھی میں زلزلے اور طوفان رکھنے کی گنجائش نہیں رہی ہے۔

رہی بات کفن کی تو جب سے سر پر منہگائی کا بوجھ پڑا ہے لوگوں نے کفن کھول کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے رومال بنالیے اور انھیں بیچ بیچ کر گھر چلارہے ہیں۔ پشاور میں ”بی آر ٹی پروجیکٹ“ سیاحوں کی دید کا منتظر ہے۔ دنیا گھومنے والوں کے بہت سے شاہ کار بنے دیکھے ہوں گے، لیکن پشاور میں پہلی مرتبہ وہ کوئی زیرتکمیل اور بنتا بگڑتا شاہ کار دیکھ پائیں گے۔ اس طرح وہ منصوبے اور بے وقوف بنانے کا عمل بھی سیکھ سکتے ہیں۔

٭لاہور
لاہور ہمارا تاریخی شہر ہے۔ یہاں مغلوں کی بنائی ہوئی عمارات ہیں، جن میں شاہی قلعہ خاصے کی چیز ہے۔ یہ عمارت اتنی تاریخی ہے کہ جو پاکستانی اپنی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے انھیں یہ قلعہ سرکاری طور پر دکھایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ”جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا“، یہی وجہ ہے کہ بعض حکم رانوں نے یہ سمجھ کر کہ لاہور کے باہر کوئی پیدا ہی نہیں ہوتا، اپنی ساری توجہ لاہور پر مرکوز رکھی۔
لاہور میں مغلوں کے بعد سب سے زیادہ تعمیرات شریفوں کی ہیں۔ سیاح مغلوں کے بارے میں مورخوں کی پھیلائی ہوئی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، مغل بہت شریف تھے، اور شریف تو پورے مغل تھے۔

ان عمارات کے علاوہ لاہور میں مینارپاکستان، عجائب گھر، چُڑیا گھر اور عثمان بزدار ہیں۔ اللہ شہر کو قدرتی آفات سے محفوظ رکھے، مگر وقت کا کیا پتا، اس لیے سیاح ذکر کردہ عمارات پہلی فُرصت میں دیکھ لیں، عثمان بزدار کو اگلے تیس چالیس سال بعد بھی کسی دورے میں دیکھا جاسکتا ہے۔

٭موہنجودڑو
حکومت سندھ نے سیاحوں کی سہولت کے لیے پورے سندھ کو موہنجو دڑو میں تبدیل کردیا ہے، تاکہ دوردراز کا سفر کرکے ان پانچ ہزار سال پُرانے آثار کو دیکھنے کے بہ جائے کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ جیسے شہروں ہی کو موہنجودڑو کے روپ میں دیکھیں اور دل شاد کریں۔ سیاح کچھ دن ٹھیر کر سندھ آئیں تو انھیں پتھر کا دور بھی یہیں دیکھنے کو مل جائے گا، اس کے لیے فلمیں دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ہمیں یقین ہے کہ ہماری تحریر پڑھ کر دنیا بھر کے سیاح پاکستان کا رُخ کرلیں گے، اتنے سارے سیاحوں کے قیام کے لیے ہوٹل کم پڑجائیں تو انھیں حکومت کے تیار کردہ پچاس لاکھ گھروں میں ٹھیرایا جاسکتا ہے، اس کے باوجود سیاحوں کی کھپت نہ ہوسکے تو سرکار کی جانب سے لگائے جانے والے لاکھوں درخت کس دن کام آئیں گے۔

ان درختوں پر مچان بنا کر سیاحوں کو فطری ماحول میں رہائش فراہم کی جاسکتی ہے، ورنہ وزیراعظم ہائوس تو ہے ہی خالی، بس یہ ہوگا کہ ایوان وزیراعظم کی دیواروں پر سیاحوں کے دھوئے ہوئے کچھے سوکھ رہے ہوں گے، تو کیا ہوا، یہ مناظر ہمارے لیے کوئی نئے تو نہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “آئو سیاحو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی”

  1. ذیشان پربتی Avatar
    ذیشان پربتی

    فیری میڈوز ننگاہ پربت
    (پریوں کا مسکن)

    قدرت کی نیز نگیوں اور مناظر کا انسان کی روحانی مسرت اور فیضان سے ہمیشہ ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ لہلہاتے کھیت ہوں ‘دشت و صحرا پھیلی ہوئی شاداب وادیاں ہوں یا سمٹے ہوئے دامان کوہ‘ سوچنے اور سمجھنے والے کے لیے

    ان سب میں ایک پیغام پنہاں ہے۔ ایسے تمام مقامات رو حانی مسرت حاصل کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہوتے ہیں:
    علم کے حیرت کدہ میں ہے کہاں اس کی نمود
    گل کی پتی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود
    اردو کا سب سے بڑا طنز گو شاعر اکبر بھی جب قدرت کو اس کے اصلی روپ میں دیکھتا ہے تو طنز و مزاح کو چھوڑ کر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے:

    "مجھ کو دیوانہ بنا دیتا ہے فطرت کا جمال,
    عارض گل سے خبر ملتی ہے روئے یار کی”.

    قدرت کی ان فیاضیوں سے ویسے تو ہر شخض اپنے شہر کی کال کو ٹھری سے باہر نکل کر پچھلے پہر کو طلوع و غروب آفتاب کے وقت یاتاروں بھری راتوں میں کسب فیض کرسکتا ہے لیکن قدرت کا یہ حسن اگر پوری بہار پر دیکھناہو تو شمال کے فلک بوس اور برف پوش پہاڑوں سے زیادہ موزوں کوئی مقام نہیں۔ ان ہی پہاڑوں میں قدرت کی ایک حسین و جمیل جلوہ گاہ نانگا پربت کی برف پوش چوٹی ہے۔ جہا ں خالق کائنات کی عظمت و جلال اس کے حسن و جمال کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہاں انسان خود کو قدرت سے قریب ہی نہیں بلکہ قدرت کی گود میں پاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں خدا کی کبریائی کے سامنے سر بسجود ہو جانے کو جی چاہتا ہے۔

    دیامر مقامی آبادی کا عقیدہ ہے نانگا پربت کی چوٹی پریوں کی ملکہ کی رہائش گاہ ہے‘ داستانوں میں آیا ہے کہ وہ ایک ایسے برفانی قلعے میں رہتی ہے جو شفاف اور دبیز برف کا بنا ہوا ہے۔
    نانگا پربت کے قدموں میں ایک طویل گلیشئیر سجدہ کناں ہے گلیشئیر کا سر نانگا پربت کے قدموں میں ہے اور تیس چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر جنگل کے درمیان فیری میڈو ہے۔ پریوں کا مسکن ‘پریوں کی چراگاہ ہو شر با حسن و طلسم کی وجہ سے آسٹریلین کوہ پیماء ہر من کو ہل نے ۱۹۵۳ء میں اسے فیری میڈو (Fairy meadows) کا نام دیا تھا۔مقامی زبان میں اسے (جت) یعنی چراگاہ کہتے ہیں۔ فیری میڈوز ایک افسانوی شہرت رکھتی ہے ۔ تاروں بھری رات میں بلندیوں سے اتر کر یہاں رقص کرنے والی پریوں کے قصے لوک داستانوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ مقامی آبادی کا عقیدہ ہے کہ نانگا پربت کی چوٹی پریوں کی ملکہ کی رہائش گاہ ہے۔ داستانوں میں آیا ہے کہ وہ ایک ایسے برفانی قلعے میں رہتی ہے جو شفاف اور دبیز برف کا بنا ہوا ہے اور برف کے بڑے بڑے مینڈک اور برف کے ایسے سانپ جو کئی کلومیٹر لمبے ہیں اس ملکہ کی حفاظت پر مامور ہیں اور ان علاقوں میں ر ہنے والی عورتیں رنگین کپڑوں اور شوخ زیوروں سے اجتناب کرتی ہیں کیونکہ انہیں پہننے سے پریاں ان سے حسد کرسکتی ہیں اور ان پر جادو کرسکتی ہیں۔ پامیر اور تبت ’’ بام دنیا ‘‘ کہلاتے ہیں لیکن وہاں بھی کوئی پہا ڑ نانگا پر بت سے اونچا نہیں ۔ یہ فخر صرف ہمالیہ اور قراقرم کو جن حاصل ہے۔