عورت مارچ

عورت مارچ میں متنازعہ نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

امن کیانی:
لفظ ’’عورت‘‘ پر اگر غور کیا جائے تو ذہن میں ایک بیٹی کا تصور آتا ہے۔ایک بیٹی جسے سرور کائنات، نور مجسم، دونوں جہا ں کے والی نے رحمت قرار دیا ہے۔ عورت ایک ماں ہے جس کے قدموں میں رب دو عالم نے جنت رکھ دی۔ عورت ایک بیوی ہے جسے ہمارے دین اسلام نے شوہر کا آدھا دین مکمل کرنے والی قرار دیا ہے۔ لیکن وطن عزیز میں موجود چند گھسے پٹے گروہ عورت کا کوئی اور ہی روپ پیش کر رہے ہیں۔ دینی اقدار کا جنازہ نکالتے ہوئے عورت کو اس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ خود عورت بھی دیکھے تو شرم سے ڈوب مرنے کو جی چاہے۔

8 مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ باقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی 8 مارچ کو خواتیں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہے۔اس موقع پر خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں خواتین کو کئی مسائل درپیش ہیں۔ کئی خواتین کو غیرت کے نام پر زندہ درگور کیا جاتا ہے۔ کئی خواتین کو شادی سے انکار پر زندہ درگور کیا جا تا ہے اور کئی خواتین کو وراثت میں ان کا حصہ نہیں ملتا اور بہت سے ایسے مظالم عورتوں پر ہو رہے ہیں کہ جن کے بارے میں جان کر دل دہل جاتا ہے۔اس موقع پر عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہم سب کا فرض ہے۔

تاہم گزشتہ برس 8 مارچ کو پاکستان میں ’’عورت مارچ‘‘ کے نام سے ایک مارچ کیا گیا۔ ذہن میں تو یہ تھا کہ عورتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی لیکن جو ہوا وہ نا قابل بیان ہے۔ عورت مارچ میں مظلوم عورتوں کی نمائدگی کی آڑ میں ایسا بھیانک منظر پیش کیا گیا جس نے وطن عزیز میں ایک کہرام برپا کر دیا۔

عورت مارچ میں موجود عورتوں نے ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے کہ اسے دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہتی۔ اس مارچ میں ایک بھی پلے کارڈ ایسا نہیں تھا جس میں عورتوں پر ہونے والے طلم کے خلاف لکھا گیا ہو۔

آئیے! ان پلے کارڈز پر موجود چند نعروں پر غور کرتے ہیں:
1:’’اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھ لو‘‘
یہ نعرہ مردوں کے خلاف لگایا گیا ہے جن میں ان کا باپ، ان کا بھائی اور ان کا شوہر بھی شامل ہیں۔ اس نعرے میں دوپٹے کو وہ اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی نظر آتی ہیں۔ اس نعرے کا دفاع کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم گھر سے باہر نکلتی ہیں تو دوپٹہ اوڑھنے کا کہا جاتا ہے۔

نعرے کے دوسرے حصے پر غور کیا جائے تو گویا وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ ان کے والد ان کے شوہر اور ان کے بھائی ان کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ گھر سے باہر جو مرضی کریں کوئی انہیں نہ روکے۔ وہ گھر والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کی عزت کا جنازہ نکالیں اور گھر والے اپنی آنکھیں بند رکھیں۔

2: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘
یہ الفاظ لکھتے ہوۓ قلم بھی ہچکچانے لگتا ہے، نجانے عورت مارچ کی عورتیں اس نعرے کو کیسے آرام سے لگاتی رہی ہیں۔ عورت مارچ کی خواتین اس نعرے کا دفاع کرتے ہوۓ گویا کہتی ہیں کہ وہ جیسے مرضی اپنے جسم کی نمائش کریں ۔ ارے ! اگر آپ کو اپنے جسم کی نمائش کرنی ہے تو یہ اعتراض نہ کیجۓ کہ مرد آپ کو گھورتے ہیں۔

مٹھائی کے ڈبے کو اگر کھول کر رکھ دیا جائے تومکھیوں کے ڈھیر لگیں گے۔ قصور مکھیوں کا نہیں کہ وہ مٹھائی پر کیوں بیٹھتی ہیں بلکہ غلطی ان کی ہے جنھوں نے مٹھائی کا ڈبہ کھلا رکھا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ مردوں کو اپنا جسم دکھا کر راغب کرو اور پھر کہو کہ وہ اسے کیوں دیکھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کا یہ عمل یعنی جسم دکھانا غلط ہے یا پھر وہ اعتراض غلط ہے کہ وہ گھورتے کیوں ہیں؟

3: ’’آج سے بارڈر پر ہم بیٹھیں گے‘‘
اس نعرے میں دینی احکامات کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دین اسلام میں عورت کو چار دیواری میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔عورت کو اگر بارڈر پر بیٹھ کر جنگ لڑنے کی اجازت ہوتی تو کربلا میں دین کی راہ میں عورتیں بھی لڑ رہی ہوتی۔ آپ ان جیسی بہادر اور پاک دامن والی نہیں پھر بھی آپ ایسی خواہش رکھ کر دینی احکامات سے انکار کر رہی ہیں۔ اگر آپ کو جنگ لڑنے کا اتنا ہی شوق ہے تو ان مظلوم عورتوں کے لیۓ لڑیں جن پر ظلم ہوتا ہے۔ان کے لیۓ لڑیں جو حقیقت میں قید ہیں۔
لیکن معذرت کے ساتھ عورت مارچ کی عورتیں ان مظلوموں کا ساتھ دینے کی بجائے ان کو مزید بدنام کر رہی ہیں۔

4:’’کھانا تم گرم کرو بستر میں گرم کروں گی‘‘
اس نعرے کو لکھنے کی ہمت بالکل نہ تھی پھر یہ سوچ کر لکھا کہ اس نعرے میں چھپے گھٹیا عزائم کو بے نقاب کر کے اپنا فرض ادا کروں۔ بظاہر تو اس نعرے میں مرد کو کھانا گرم کرنے کو کہا جا رہا ہے۔اگر اس کے دوسرے معانی پر غور کیا جائے تو ایک خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ بستر گرم کرنے کی اصلاح طوائف کے لیۓ استعمال ہوتی ہے۔اپنے لیے یہ الفاظ استعمال کر کے ان عورتوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آزادی سے ان کی کیا مراد ہے۔

ایسے کئی نعرے ہیں جو آزادی کے نام استعمال کیے گئے۔ان عورتوں کا کہنا ہے کہ انھیں مرد کے برابر حقوق حاصل نہیں۔ میرا ان سے ایک سوال ہے کہ اگر ان کی حرکتوں کی وجہ سے ان کے گھر والے انہیں گھٹیا سمجھتے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے؟ ہمارے معاشرے میں عورت کو مرد کے مقابلے میں زیادہ عزت دی جاتی ہے۔

اگر آپ کا مقصد ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہوتا تو آپ عافیہ صدیقی کے لئیے آواز اٹھاتی۔ اگر آپ کا مقصد ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہوتا تو قصور کی بے قصور کلیوں کے خلاف اٹھائی جاتی۔اگر ظلم کے خلاف آواز اٹھانی تھی تو ذہنی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنے والی عورتوں کے لیۓ اٹھائی جاتی۔لیکن اس مارچ کا مقصد ہی کچھ اور تھا ۔

اس مارچ کا مقصد جہاں فحاشی اور بے حیائی پھیلانا تھا وہاں باقی تمام عورتوں کو بدنام کرنا بھی تھا۔ یہ بات لمحہ فکریہ ہےکہ ہم سب کے لئیے کہ اگر ہم نے اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی تو ہمارے معاشرے میں فحاشی عام ہو جاۓ گی۔ ریاست مدینہ کی باتیں کرنے والوں کی ذمہ داری ہے اسے روکنے کے لئے اقدامات کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “عورت مارچ میں متنازعہ نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں؟” جوابات

  1. ظلِِ ھما Avatar
    ظلِِ ھما

    بہت عمدہ تحریر

  2. عائشہ معین Avatar
    عائشہ معین

    نہایت بہترین لکھا ہے، یہ ہی حقیقت ہی کہ عورتوں کے جو حقوق ہیں ان کو پیچھے کر کے عریانیت کو فروغ دینے کی مذموم کوشش کر کے تمام عورتوں کو برا بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، جس کیلیے فوری سدباب اور ایکشن کی ضرورت ہے۔۔