پورن انڈسٹری

انٹرنیشنل پورن انڈسٹری، پاکستانی لڑکیاں اور عورت مارچ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد:
ہمارے ہاں کا سیکولر اور لبرل طبقہ ایسا بھی ہے جو جمہوریت ، انصاف، تحمل، برداشت، روشن خیالی اور آزادی اظہار رائے کے نعرے لگاتا ہے لیکن افسوسناک امر ہے کہ وہ خود ان ساری خصوصیات سے محروم ہے۔ صرف ایک لبادہ ہے جو اس نے اوڑھ رکھا ہے ورنہ یہ طبقہ قسم قسم کے تعصبات کا مارا ہوا ہے۔ جمہوریت ، انصاف، تحمل، برداشت اور روشن خیالی اس طبقہ میں برائے نام بھی نہیں۔

سیکولرز اور لبرلز کے تعصبات کو نمایاں کرنے کے لئے میرے پاس درجنوں مثالیں موجود ہیں، انھیں کسی وقت ضرور بیان کروں‌گا فی الحال معروف کالم نگار ، دانشور محترمہ فرحین شیخ ہی کی زبانی جان لیں کہ ان کے ساتھ کیا بیتی۔۔ انھوں نے عورت مارچ کے حوالے سے ایک تحریر وجاہت مسعود صاحب کی ویب سائٹ کو بھیجی، اس تحریر کے ساتھ کیا کچھ ہوا، یہ ایک افسوسناک کہانی پے۔

محترمہ فرحین شیخ لکھتی ہیں:
’’ہم سب‘‘ کی ویب سائٹ پہ ابھی میرا کالم ’’ انٹرنیشنل پورن انڈسٹری میں پاکستانی لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی طلب اور عورت مارچ ‘‘ شائع ہوا۔ یہ کالم میری کئی روز کی تحقیق کا نچوڑ تھا۔ شائع ہوتے ہی تیزی سے شئیر ہوا اور اگلے ہی گھنٹے مقبول ترین کی فہرست میں جاپہنچا۔ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ویب سائٹ سے میرے کالم کا آخری حصہ جو عورت مارچ کے حوالے سے تھا نکال دیا گیا ہے اور کالم کا عنوان بھی کاٹ دیا گیا ہے‘‘۔

’’مجھے ’’ہم سب ‘‘ کی انتظامیہ کے اس رویے پہ اس لیے شدید افسوس ہو رہا ہے کہ وہ گھٹن کے اس دور میں خود کو آزادی اظہار کا بڑا حامی کہتے ہیں ۔ جب کہ میں نے وصی بابا کو کالم میل کرتے وقت اس بات کی تاکید کی تھی کہ اس میں کوئی تبدیلی کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ لیجیے گا ۔ میرا ’’ ہم سب ‘‘ کے پلیٹ فارم سے بہ حیثیت ایک لکھاری رشتہ بہت پرانا ہے ۔ اتنا حق تو بنتا تھا کہ وہ میری تحریر میں من مانی قینچی نہ چلاتے بلکہ شائع کرنے سے انکار کر دیتے ۔ اس صورت میں میں ان کی شکر گزار ہوتی‘‘۔

’’ریٹنگ بڑھانے کے لیے اہنے مطلب کا مواد چھوڑ دیا گیا اور عورت مارچ کے حوالے سے اس کاروبار کو جو لنک کیا گیا تھا اس حصے کو اڑا دیا گیا‘‘۔

’’پہلی بار مجھے ان سے یہ شکایت ہوئی، میں۔سمجھتی تھی کہ یہ اپنے کہنے کے مطابق ہر سوچ کے حامی فرد کو جگہ دیتے ہیں اور اس کا نقطہ نظر چھاپتے ہیں لیکن میرے لیے یہ بہت بڑا جھٹکا ہے۔ میں نے جس مقصد سے لکھا تھا وہ تو فوت کردیا گیا ۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ میں نے پورن انڈسٹری کو پروموٹ کیا ہے‘‘۔

محترمہ فرحین شیخ کے اس شکوہ کے جواب میں ویب سائٹ کے مدیر نے وضاحت کی کہ جو حصہ حذف کیا گیا تھا اسے عدالت میں ثابت کرنا ممکن نہیں تھا۔ جواب میں محترمہ فرحین شیخ کا کہنا تھا کہ ابتدا میں اس کو پورا کیوں شائع کیا گیا ؟ کالم شایع ہونے کے بہت دیر بعد اسے ایڈٹ کیا گیا، ایڈٹ کرنا ایڈیٹر کا حق ہے، مگر کیا وہ پیرے اور سطریں بھی نکالی جاسکتی ہیں جو کالم کی بنیاد ہیں؟ اگر انھیں اعتراض تھا تو شائع نہ کرتے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس موضوع کو کالم کی بنیاد بنایا گیا تھا وہی نکال دیا تھا، اور وہ بھی پورا کالم شایع کرنے کے بعد۔ اور رہ گئی بات عدالتی کارروائی کی تو نہ اس میں کسی فرد کا نام ہے اور نہ ادارے کا پھر عدالتی معاملہ کیوں کر بنتا ؟

اب آئیے! وہ پورا کالم پڑھتے ہیں جس پر سارا ہنگامہ ہوا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مرضی والے نعرے کے پیچھے کس کی مرضی؟
فرحین شیخ
لکھاری کی حیثیت سے میرا تعلق ہر شعبہ زندگی کے افراد سے رہتا ہے، چناں چہ جاننے والے کو قانونی مسئلہ درپیش ہو، طبی معاملہ یا کسی کاروباری معاملے میں مشاورت، مجھ سے رابطہ کیا اور توقع رکھی جاتی ہے کہ میرے سماجی حلقے میں کہیں نہ کہیں کام بن جائے گا۔

کچھ دن قبل میرے پاس ایک جاننے والے کا فون آیا۔ اس کو شوٹ کے لیے کچھ ماڈل لڑکیوں کی ضرورت تھی۔ پیکیج بھی اچھا خاصا تھا۔ یہ شوٹ ویسٹرن ڈریسز کی تھی اور بیرونِ ملک ہونی تھی۔ یہ ماڈل ارینج کرنا میرے بس کی بات نہ تھی سو میں نے معذرت کرلی۔ کچھ دن قبل پھر اس سے بات ہوئی تو میں نے اس بارے میں سوال کیا تو اس نے بتایا کہ ’’بھئی پاکستانی لڑکیوں کے بہت نخرے ہیں اور کام بھی یہ اپنی مرضی بھی اپنی شرائط پر کرنا چاہتی ہیں پھر معاوضہ بھی زیادہ مانگتی ہیں‘‘۔

’’ نخرے کیسے ؟ ‘‘ پوچھنے پر پتا چلا کہ
’’ شوٹنگ کے دوران چھوئی موئی کا پودا بنی رہتی ہیں، یہاں سے کوئی چھو نہ لے اور وہاں سے کوئی پکڑ نہ لے۔ ارے! کام تو بس کام ہوتا ہے ناں! اس میں یہ سب تو نہیں دیکھا جاتا۔ جاب کوئی بھی ہو اس میں بہت سنسیئریٹی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن پاکستانی لڑکیوں کے بہت مزاج ہیں بھئی۔ ‘‘

سامنے والے کی پوری تقریر تحمل سے سن کر میں نے کہا کہ ’’ بھیا، بھلا کیا ضرورت ہے پاکستانی لڑکیوں کے نخرے اٹھانے کی؟ ان کے ویزے لگواﺅ، یہاں سے لے کر جاﺅ، لگژری ہوٹل میں ہفتے بھر کے مفت قیام طعام کا بندوبست کرو، شوٹنگ کے دوران نخرے بھی برداشت کرو؟ کیا ضرورت ہے یہ بلا اپنے سر لینے کی؟ جس ملک میں بیٹھے ہو وہاں لڑکیاں مر گئی ہیں کیا؟‘‘

جواب ملا:’’یہ سچ ہے کہ وہاں ایک آواز پر لڑکیوں کی لائن لگ جاتی ہے، اور اتنے کم معاوضے میں کام کرنے پر تیار ہوجاتی ہیں کہ جتنی رقم کا مطالبہ ایک پاکستانی لڑکی کرتی ہے اس میں تو چار چار تھائی، کمبوڈین، ملائی، فلپائنی یا روہنگی لڑکیاں مل جاتی ہیں۔‘‘

’’تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ تمہارا پیسہ بھی بچے گا اور وقت بھی؟ انہی کو لے کر کام شروع کرو۔‘‘
میں نے مخلصانہ مشورہ دیا تو جھٹ جواب آیا:
’’مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی بیوٹی کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں ڈیمانڈ بہت ہے؟‘‘

میرے دماغ میں یہ بات کُھب گئی اور میں نے اس بارے میں تحقیق شروع کردی۔ اس تحقیق نے میرے ہوش اڑا دیے اور ایسے ایسے انکشافات کیے جو بعض قارئین کے لیے ہوسکتا ہے نئے نہ ہوں لیکن میرے لیے ناقابل یقین اور نئے تھے۔

’’ماڈلنگ اور شوٹ کے نام پر بیرون ملک جا کر کام کرنے والی پاکستانی لڑکیوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر بڑھتی جارہی ہے۔ ان ممالک میں دبئی سرفہرست ہے۔ پہلے وزٹ کے بعد ہی ان لڑکیوں کا لائف اسٹائل واضح طور پر بدلنا شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان آکر گھر، گاڑی، پیسہ سب کی مالکن بن جاتی ہیں۔ یہ لڑکیاں صرف ڈریسز کی شوٹ ہی نہیں کرتیں بلکہ بکنی اور نیوڈ شوٹ تک کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی دنیا، عرب ممالک اور ایشیا پیسیفک میں پاکستانی لڑکیوں کی پورن موویز کی ڈیمانڈ بھی بڑھتی جارہی ہے۔

کیا پاکستانی لڑکیاں پورن انڈسٹری میں بھی مارکیٹ بنا چکی ہیں؟ اس کا جواب بدقسمتی سے ”ہاں“ میں ہے۔ یہ انکشافات میرے لیے کسی جھٹکے سے کم نہ تھے لیکن مزید معلومات پر پتا چلا کہ زیادہ پیسے کی وجہ سے یہاں سے ماڈلنگ کے نام پر جانے والی پاکستانی لڑکیاں پورن ویڈیوز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں، جس کے بدلے وہ کیش رقم تو لیتی ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ پراپرٹی اور گاڑی تک کا مطالبہ کر دیتی ہیں جو ان کو وعدے کے مطابق فراہم کیا جاتا ہے۔

عرب مالک میں پاکستانی لڑکیوں کی مارکیٹ بڑھتی جارہی ہے، جن میں زیادہ تر لڑکیوں اور عورتوں کا تعلق پنجاب کے چھوٹے شہروں سے ہے۔ یہ نہ صرف پورن فلموں میں کام کرتی ہیں بلکہ سیکس ورکر کے طور پر بھی مامور کی جاتی ہیں۔ ان لڑکیوں کا تعلق بہت عام سے گھرانوں سے ہوتا ہے، فیملی بیک گرائونڈ بھی عموماً دیہات کا ہوتا ہے لیکن یہ لڑکیاں بیرونِ ملک کے ایک دو وزٹ کے بعد ہی اس قدر گرومڈ ہوچکی ہوتی ہیں کہ ان کو پہلی نظر میں دیکھنے پر کسی اداکارہ یا ماڈل کا گمان ہوتا ہے۔

بیرون ملک پاکستانی لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ نے پیسے کی لالچ میں اس انڈسٹری کی طرف پاکستانی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کو جھونک دیا ہے۔ یہ لڑکیاں اغواشدہ نہیں ہوتیں نہ انہیں جبراً لے جایا جاتا ہے بلکہ یہ اپنی مرضی سے جاتی ہیں۔ ان میں دیہات اور شہر سب جگہ کی لڑکیاں شامل ہیں۔ کام کرنے والی ایک لڑکی ہی دوسری لڑکی کے لیے رابطے کا ذریعہ بنتی ہے، جو عموماً اس کی کوئی سہیلی، جاننے والی یا پھر رشتے دار ہوتی ہے۔

اس رابطے کے بدلے وہ اچھا خاصا کمیشن وصول کرتی ہے۔ نئی لڑکی کو یہاں سے لے جانے سے لے کر کام پر لگانے تک کا سارا عمل وہاں موجود دلالوں کے ہاتھوں پورا ہوتا ہے۔ یہ دلال ان لڑکیوں کو مکمل سہولیات فراہم کرتے ہیں، سودے کرواتے ہیں اور پھر انہی کی کمائی پر پلتے بھی ہیں۔ ویزوں سمیت بہت سے قانونی مسئلے حل ہونے تک یہ دلالوں کے ہاتھوں میں کھیلتی ہیں اور اس کے بعد اسی راستے پر تعلقات بنا کر اونچی اڑان بھر جاتی ہیں۔

’’دبئی اس وقت پاکستانی لڑکیوں کا سب سے بڑا کوٹھا بن چکا ہے۔‘‘
یہ جملہ میری سماعت سے گزرا تو میں نے کتنی ہی بار اکیلے میں دہرا کر خود کو یقین دلانے کی کوشش کی اور ہر بار یقین کی سرحد کے پاس تھک کر گر پڑی۔ لیکن ذرا سی تحقیق سے پتا چلا کہ یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ دبئی میں ہونے والے ایونٹس میں پاکستانی لڑکیوں کو آن ڈیمانڈ بلوایا جاتا ہے۔ یہ لڑکیاں وزٹ ویزے پر جاتی ہیں اور وہاں کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں مقیم مہمانوں کی جنسی خدمت پر مامور کر دی جاتی ہیں۔

ان لڑکیوں کو درہم کی صورت میں بھاری معاوضے ملتے ہیں تو انہیں اس کا چسکا لگ جاتا ہے اور یہ خود اگلے ایونٹ کے انتظار میں دن گننے لگتی ہیں۔ صرف ایونٹس ہی نہیں بلکہ دنیا کے مشہور سیاحتی مقامات پر پاکستانی لڑکیوں کی طلب بھی بہت زیادہ ہے، جہاں یہ نہ صرف غیرملکی مردوں کے لیے تسکین کا سامان ہیں بلکہ خود پاکستانی مرد سیاحوں کے لیے بھی پرکشش ہوتی ہیں۔ کرونا وائرس نے چینی لڑکیوں کو انٹرنیشنل سیکس مارکیٹ سے بالکل باہر دھکیل دیا ہے، اس خلا کو پاکستانی لڑکیوں کے ذریعے پر کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔

ان سب کارگزاریوں کی اجازت پاکستان کا قانون نہیں دیتا۔ یہ ایک بڑا جرم ہے لیکن اس کو دھڑلے سے بالکل ایسے ہی انجام دیا جارہا ہے جیسے پاکستان میں دیگر جرائم کو۔ جی ہاں، یعنی با اثر افراد کی سرپرستی میں۔ اس چَین میں شامل یہ بااثر افراد ایسے ہی نامعلوم ہیں جیسے ماضی میں کراچی کو بوری بند لاشوں کی وحشت سے سجانے والے افراد نامعلوم تھے۔

اس بھیانک حقیقت کے باوجود یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں ایک عام عورت اب بھی محفوظ ہے۔ یہاں راہ چلتا کوئی مرد آج بھی کسی عورت کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ انٹرنیشنل سیکس مارکیٹ میں جگہ بنانے والی پاکستانی لڑکیوں نے بنا جبر اپنی مرضی سے اس راستے کا انتخاب کیا ہے۔ پاکستان میں اب بھی ایک عام عورت کے ساتھ اگر کوئی ظلم ہوتا ہے تو پورا معاشرہ اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ انصاف کے لیے آوازیں اٹھتی ہیں اور قانون بھی ساتھ دیتا ہے۔

اس پوری تحقیق میں دو جملے مجھے بری طرح کاٹتے رہے اور میں ان دو جملوں کا آپس میں ربط جوڑتی رہی۔ پہلا یہ کہ’’ پاکستانی لڑکیاں تو چھوئی موئی کا پودا بنی رہتی ہیں، بہت نخرے دکھاتی ہیں ، ہاتھ لگانے نہیں دیتیں۔‘‘ دوسرا یہ’’ انٹرنیشنل سیکس مارکیٹ میں پاکستانی لڑکیوں کی ڈیمانڈ بڑھتی جارہی ہے ۔‘‘ ان دو جملوں کا ربط جوڑنے میں میرے ذہن میں بس ایک نعرے کی گونج رہی:’’ میرا جسم میری مرضی۔‘‘

ظلم تو عورت پر پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ امریکا سے لے کر بھارت، چین سے لے کر سعودی عرب، عورت پر سانحات تو ہر طرف بیت رہے ہیں بس وہاں کہانیاں دبا دی جاتی ہیں یا ہم تک پہنچ نہیں پاتیں۔ اس کے باوجود کہیں عورتیں ایسے مطالبات لیے سڑکوں پر نہیں نکلتیں، کیوں کہ عورت کے ساتھ ہونے والے جرائم کا تعلق معاشرتی اقدار سے نہیں بلکہ بیمار ذہنیت اور مریض نفسیات سے ہے اور یہ بیمار مرد دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہیں، جن کی حمایت کوئی معاشرہ نہیں کرتا الٹا ان کے لیے سزائیں مقرر ہیں۔ میں اس بات کو اب بھی پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان میں عورت جس قدر محفوظ ہے اس کی مثال دنیا کے بہت کم معاشروں میں ملتی ہے۔

پھر بھی اگر یہاں ضرورت پڑتی ہے کہ عورت کی آزادی کے لیے تحریک چلائی جائے اور نامناسب نعروں سے سجے بینر ہاتھوں میں لیے مارچ کیے جائیں، تو یہ کس ایجنڈے پر کام کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ سچ مان لیا جائے کہ انٹرنیشنل پورن مارکیٹ میں پاکستانی لڑکیوں کی طلب کو پورا کرنے کے لیے یہ ایک دوررس اقدام ہے؟

جس کا مقصد ہے کہ عورتوں کو ان کے جسم کے معاملے میں بولڈ کرنے کے نام پر اس قدر غیرمحتاط اور بے حس بنا دیا جائے کہ اس سے آگے کچھ باقی نہ رہے۔ چھوئی موئی کا پودا نہ بنیں بلکہ اپنے کام سے’’سنسئیر‘‘ ہوں تاکہ مارکیٹ میں جلدی اپنی جگہ بنا کر دنیا کے عیاش مردوں کی تسکین کا سامان بن سکیں۔
( 8مارچ کو عورت مارچ کے لیے بینر ہاتھوں میں اٹھائے نکلنے والے مرد اور خواتین سے معذرت کے ساتھ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترمہ فرحین شیخ کا مکمل کالم پڑھنے کے بعد ان کا یہ موقف بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ ’’اس میں کسی فرد کا نام ہے اور نہ ادارے کا پھر عدالتی معاملہ کیوں کر بنتا ؟‘‘ معترض ویب سائٹ والوں کو شاید کالم کے آخری چار پیراگراف ہضم نہیں ہوسکے، کیوں ہضم نہ ہوسکے؟ کالم پڑھنے کے بعد آپ بھی بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔

روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ معروف صحافی محمد عثمان جامعی کا کہنا ہے:
’’ایڈٹ کرنا ایڈیٹر کا حق ہے، لیکن ایڈیٹنگ کا مطلب یہ نہیں کہ تحریر جس بنیاد، تجزیے، رائے پر استوار ہو اسے ہی نکال دیا جائے، اگر کسی تحریر کا بنیادی تصور یا تھیم ہماری پالیسی کے خلاف ہو تو ہم وہ تحریر سرے سے رد کردیتے ہیں‘‘۔

’’اس(مذکورہ بالا ) تحریر کا اصل موضوع عورت مارچ کے نعرے بالخصوص ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ تھا، آپ کو پورا حق تھا کہ یہ تحریر شائع نہ کرتے، لیکن جو حصہ اس تحریر کی بنیاد تھا اسے نکال کر باقی شائع کرنا تنازعے کا سبب بنا۔ یہی نہیں، پہلے کسی قطع وبرید کے بغیر پوری تحریر شائع کردی گئی، پھر جب وہ مقبول ترین تحریروں کی صف میں آ گئی تو اس میں سے من چاہا حصہ نکال دیا گیا۔‘‘


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “انٹرنیشنل پورن انڈسٹری، پاکستانی لڑکیاں اور عورت مارچ” جوابات

  1. انصر محمود بلوچ Avatar
    انصر محمود بلوچ

    میری ابھی وسی بابا سے بات ہوئی ہے، وہ کہہ رہے کہ نہ تو صاحبِ تحریر نے یہ بلاگ مجھے بھیجا اور نہ ہی میں نے اسے شائع کیا…

    1. عبیداعوان Avatar
      عبیداعوان

      خود ہی ان کے ایڈیٹر عدنان نے اعتراف کیا ہے کہ ہاں! ہم نے اس مضمون کو ایڈیٹ کیا ہے اور وجاہت مسعود کے کہنے پر ایسا کیا ہے

  2. Abdul Sattar Avatar
    Abdul Sattar

    Kaya ap mujay ko us websites batana pasand karay ga jaha sa ya sari information le ge ha