سلائی مشین کی تصویر مشتمل فیس بک کی ایک پوسٹ کا عکس

”حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سلائی مشین“

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان:

میں‌ نے سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے سلائی مشین کی ایک تصویر دیکھی، اس کا کیپشن تھا کہ یہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سلائی میشن ہے۔ کیپشن دیکھ کر سبحان اللہ کہنے والے ہزاروں، شئیر کرنے والے ہزاروں، لائک کرنے والے ہزاروں، دل کا نشان نچھاور کرنے والے ہزاروں۔ تاہم ان میں سے کسی نے یہ نہ سوچا کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے دور میں سلائی مشین ہوتی ہی نہیں تھی۔

حالانکہ اس کے لئے کسی لمبی چوڑی ریسرچ کی ضرورت نہیں تھی، تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری نہ تھا۔ اس وقت تو کپڑے ہاتھ سی سیے جاتے تھے لیکن تصویر لگانے والے نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ کا اسم مبارک استعمال کیا اور اپنے فیس بک پیج پر خوب ٹریفک حاصل کی جبکہ لائک کرنے، شئیر کرنے اور سبحان اللہ کہنے والے سب کے سب بدھو نکلے۔

اس سے ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ بخوبی کرسکتے ہیں کہ اس کا ایک بڑا حصہ آج بھی سنی سنائی بات کو شئیر کرنے کا قائل ہے۔ بات پر یقین کرنے سے پہلے سوچنے کی زحمت نہیں کرتا۔ سمجھ نہیں آتی کہ ایسے لوگ اس قدر سست کیوں ہوچکے ہیں کہ وہ ذرا سی دیر کے لئے بھی دماغ استعمال کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

مسئلہ ایک پوسٹ کا نہیں ہے، مسئلہ معاشرے کے ایک رویے کا ہے۔ اس قسم کا طرزعمل انسان کو ایک ایسے مرحلے تک پہنچادیتا ہے، جب اسے کہاجاتا ہے کہ کتا کان لے گیا، وہ اپنا کان چیک کرنے کے بجائے کتے کے پیچھے دوڑ لگادیتا ہے۔ پھر ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ ایک فرد نے دوسرے فرد کے بارے میں کہا کہ اس نے قرآن مجید کے اوراق شہید کیے ہیں، لوگ یہ بات سنتے ہی اینٹیں اٹھا کر اس فرد کو جان سے مار دیتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ کیا اس نے واقعی قرآن مجید کے اوراق شہید کئے ہیں یا محض اس پر الزام عائد کیا جارہا ہے۔ ایسا ایک واقعہ گوجرانوالہ میں ہوا تھا اور لوگوں نے ایک حافظ قرآن کو اینیٹیں مار مار کر شہید کردیا تھا۔

کسی پر چوری پر کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور اردگرد سننے والے ڈنڈے اٹھا تے ہیں، مار مار کر معصوم کو جان سے مار دیتے ہیں، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ بے چارہ معصوم تھا ، الزام عائد کرنے والے نے کسی پرانی رنجش کا بدلہ لیا ہے۔

ایسے واقعات دسیوں نہیں، بیسیوں نہیں، سینکڑوں ، شاید ہزاروں میں ہوں‌گے۔ گزارش یہ ہے کہ ہمیں‌اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے، بات سننے کے بعد، اس پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کرلینی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے:
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ کرو کہ تم کسی تم جہالت میں کسی قوم پر حملہ کر بیٹھو پھر تم بعد میں اپنے کیے پر نادم ہو جاؤ۔‘‘

جی ہاں! ہمیں اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا، کسی ایک بات پر بھی تحقیق سے پہلے یقین نہیں کرنا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج ہم کسی کی بات پربلاتحقیق یقین کرکے کسی دوسرے کو قلبی، ذہنی اور جسمانی طور پر نقصان پہنچائیں، پھر کسی روز کوئی دوسرا یہی روش اختیار کرے اور پھر نقصان اٹھانے والے ہم ہوں۔

ممکن ہے کہ آپ سوچتے ہوں کہ لکھنے والی نے رائی کا پہاڑ بنادیا ہے۔ جی نہیں، رائی کا پہاڑ نہیں بنایا، صرف اس لئے خوفزدہ ہوں کہ رائی جمع ہوتی جائے اور پھر پہاڑ نہ بن جائے۔ ویسے آپ کا کیاخیال ہے کہ مقدس ہستیوں سے منسوب غلط باتوں پر ایمان لانا ثواب کا کام ہے؟ یا مقدس ہستیوں کا نام غلط طور پر استعمال کرکے اپنے دنیاوی مفادات حاصل کرنا نیکی ہے؟

نہیں، تو پھر اپنے رویے پر نظرثانی کیجیے اور دوسروں کی ایسی حرکتوں کو برداشت نہ کیجیے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “”حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سلائی مشین“”

  1. فاروق Avatar
    فاروق

    آپ نے بھی ٹریفک لی نا 😊 اصل بات ان ہستیوں سے نسبت اور عقیدت کی ہے۔ آپ دیھیں تو اس پوسٹ کے نیچے بھی بیشمار لوگوں نے وہی کہا ہو گا جو آپ فرما رہی ہیں لیکن ٹریفک لینا ہی مقصدی حیات بن گیا، آپ نے بھی یہی کیا ہے۔ 😡😕