رمضان المبارک

رمضان المبارک کی برکات، ہم کیسے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرشائستہ جبیں:
ارشاد خداوندی ہے:یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون.
ترجمہ:اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم پرہیزگار بن جاؤ. (البقرۃ 2:183)

عربی زبان میں روزے کے لیے’صوم‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی’رُک جانا‘ کے ہیں یعنی انسانی خواہشات اور کھانے پینے سے محض اللہ کی رضا کی خاطر صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک رُک جانا اور اپنے جسم کے تمام اعضاء کو برائیوں سے روکے رکھنا ۔ رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے رحمتوں کی بارش کا مہینہ ہے جس کے برسنے سے مومنوں کے گناہ دُھل جاتے ہیں.

رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا فرمان حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :اذادخل رمضان فتحت ابواب الجنۃ وغلقت ابواب جھنم وسلسلت الشیاطین.
ترجمہ :جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے. (صحیح بخاری)

اس مقدس مہینے کے روزوں کو جو امتیاز، شرف اور فضیلت حاصل ہے، وہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی ہی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :من صام رمضان ایمانا واحستابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ.
ترجمہ :جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے. (بخاری)

رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی ہم سری و برابری نہیں کر سکتے. آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :
”جنت کے (آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام’ریان‘ ہے جس سے قیامت کے دن صرف روزہ دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہو گا، کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو گا. جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی اس سے داخل نہیں ہو گا. (مسلم)

اس ماہ مبارک میں ہر نیکی کا اجر عام دنوں میں کی جانے والی نیکیوں سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے. ان الحسنت یذھبن السیات.
ترجمہ :نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں. (ہود:114)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس مہینے میں ایک مسلمان کو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال جیسے نماز، روزہ، صدقہ و خیرات اور دیگر نیکیوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، تا کہ یہ نیکیاں اس کے سال بھر کے گناہوں اور کوتاہیوں کا کفارہ بنتی رہیں. نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :
” روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں. ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسری خوشی) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے سے خوش ہو گا. (بخاری و مسلم)

حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:الصیام لی وانا اجزی بہ.
ترجمہ :روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا. (بخاری و مسلم)

یعنی دیگر نیکیوں کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بیان فرمایا کہ نیکی پر کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گنا تک اجر ملے گا لیکن روزے کو اللہ تعالیٰ نے اس ضابطے اور کلیے سے مستثنیٰ فرما دیا اور فرمایا کہ قیامت والے دن وہ اس کی ایسی خصوصی جزا عطا فرمائے گا، جس کا علم صرف اسی کو ہے اور وہ عام ضابطوں سے ہٹ کر خصوصی نوعیت کی ہو گی.

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ہم کو ایک خطبہ دیا. اس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :
” اے لوگو تم پر ایک برکت اور عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے. اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے. اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت ثواب ہے)۔

جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نوافل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا. اور اس زمانے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔

یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے. یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے. جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا.بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے.

آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے عرض کیا گیا کہ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے). آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے.

اس کے بعد فرمایا کہ اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی ہے. اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا. (شعب الایمان للبیہقی)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :
”روزہ اور قرآن مجید دونوں بندے کی سفارش کریں گے (اس بندے کی جو دن میں روزہ رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کا کلام پڑھے یا سُنے گا) روزہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پوری کرنے سے روکے رکھا تھا. آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما(اور اس کے ساتھ مغفرت و رحمت کا معاملہ فرما).

اور قرآن مجید کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا. خداوند! آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما (اور اس کے ساتھ بخشش اور عنایت کا معاملہ فرما). چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائے گی (اور اس کے لیے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا) اور اسے خاص مراحم سے نوازا جائے گا. (شعب الایمان)

روزہ دور کے لیے اس سے بڑھ کر فرحت اور مسرت کا وقت کیا ہو گا کہ اس کے حق میں روزوں اور نوافل میں اس کے پڑھے یا سُنے ہوئے قرآن پاک کی اللہ رب العزت سفارش قبول کر کے اس کے حق میں کرم کا معاملہ فرمائیں گے. اس مقدس مہینے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا یہ فرمان خصوصیت سے یاد رہنا چاہیے کہ :
” جو آدمی سفروغیرہ کی شرعی رخصت کےبغیر اور بیماری (جیسے کسی عذر کے بغیر) رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے وہ اگر اس کے بعد عمر بھر روزے رکھے تو جو چیز فوت ہو گئی وہ پوری ادا نہیں ہو سکتی“۔ (سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)

حدیث مبارکہ کا مدعا اور مطلب یہ ہے کہ شرعی جواز اور رخصت کے بغیر رمضان المبارک کا ایک روزہ بھی دانستہ چھوڑنے سے رمضان المبارک کی خاص برکتوں اور اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمتوں سے جو نقصان اور محرومی ہوتی ہے. رمضان کے علاوہ کے تمام روزوں سے بھی وہ رحمتیں اور برکتیں حاصل نہیں جا سکتیں. (لیکن اگر کسی شخص کو بیماری کے عذر کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے چھوڑنے پڑے تو اگلے رمضان المبارک سے قبل اپنی سہولت کے مطابق ان کی قضا کر لے).
اللہ رب العزت ہم سب کو اس ماہ مقدس سے زیادہ سے زیادہ فیض اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین. ،


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “رمضان المبارک کی برکات، ہم کیسے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟” جوابات

  1. Neelam sial Avatar
    Neelam sial

    Ameenn… Ma’sha’Allah beautiful information..stay blessed

  2. حفظہ علی Avatar
    حفظہ علی

    اللہ پاک آپکو اسکا اجر دیں.. اور اس بابرکات مہینے میں اللہ تعالیٰ ہم سب سے راضی ہو جائیں..آمین..

    1. Zakia Suleman Avatar
      Zakia Suleman

      Ma shall ALLAH This is simply amazing and insightful information ALLAH taala ap ko Jaza e khair ata farmayen….Stay blessed and keep writing….immense pleasure reading you….

  3. رمشا رضا Avatar
    رمشا رضا

    ماشااللہ !ڈاکٹر بہت پیاری تحریر ہے قرآن اور احادیث کی روشنی میں.اللہ ہم سب کی توفیقات میں اضافہ کرے. آمین ❤