صحرا عمرکوٹ

عمرکوٹ کی کہانی جو کوئی بھی سننے کو تیار نہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمنہ عمر/ عمرکوٹ سندھ :
سندھ دھرتی کی شناخت اور انڈس ویلی سویلائزیشن کا مرکز و محور ‘عمر کوٹ’ کسی دور میں’امر کوٹ’ ہوا کرتا تھا اور خطے کا دارالحکومت بھی تھا۔ ایک بلند ٹیلے پر قائم عمر کوٹ سردیوں سخت سرد اور گرمیوں میں آتش فشاں بن جاتا ہے۔ سارے تھر کی ریت کی تپش جمع ہو کر اس ٹیلے پر چڑھ دوڑتی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے رمضان اور موسم گرما یک جان دو قالب ہوئے بیٹھے ہیں۔ایسے میں بجلی، گیس اور پانی شہر کی وہ بنیادی ضرورتیں بن گئی ہیں کہ جن کے لیے انسان، جانور، چرند، پرند سب ہلکان ہوتے ہیں۔

چند روز قبل کرونا وباء اور لاک ڈاون کی صورتحال پر وزیراعظم نے آن کمیرہ کہا تھا کہ اس مرتبہ ایسی صورتحال میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم سے کم کر دیں گے، مگر شاید ہمارے شہر ‘عمرکوٹ’ کے واپڈا اہلکاروں تک وزیراعظم کی بات پہنچ نہیں سکی، وہ اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بلکہ مزید بدنظمی پیدا کرتے ہوئے رمضان سے قبل شعبان ہی میں غیراعلانیہ، بغیر کسی شیڈول کے لوڈ شیڈنگ کو معمول بنا چکا تھا۔

رمضان المبارک شروع ہوچکا ہے، واپڈا سحر و افطار میں عوام کو تکلیف دینے کا پلان بنا چکا ہے حالانکہ گزشتہ روز وفاقی وزیر اسدعمر نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ سحر اور افطار کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی لیکن واپڈا نے عبادات یا آرام کے اوقات میں بجلی غائب کرنا اپنے لئے فرضِ عین قرار دیدیا ہے۔

آپ ذرا توجہ فرمائیں کہ لاک ڈاوؑن کے موسم میں مہنگائی کا طوفان، بجلی، پانی کا بحران اور بیچاری عوام خوار۔ پانی آیا تو آیا نہ آیا، آیا تو گندہ اور غیر معیاری، بجلی بند کرنے کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں۔ جب چاہیں ‘آن’ کر دیں اور جب چاہیں ‘آف’ ۔ بجلی کی اس آنکھ مچولی میں خواتین خانہ اور بچوں کی پریشانی کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔

پھرایک تماشہ یہ بھی ہوتا ہے کہ سنگل فیز آن کر دیا جاتاہے، ڈِم سی لائٹ، موم بتی جیسی روشنی ۔ اس دوران نہ پنکھے چلتے ہیں نہ فریج۔ یعنی نہ ٹھنڈی ہوا دستیاب نہ ٹھنڈا پانی۔ کچن میں پانی کے بغیر اَن دُھلے برتنوں کا ڈھیر لگا رہتاہے اور واشنگ ایریا میں صابن لگے کپڑے پانی کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ محکموں کے باہمی عدم تعاون کی وجہ سے عمر کوٹ کی عوام گزشتہ کئی برسوں سے گرمیوں خصوصاً ماہِ رمضان میں ایسے ہی عجیب و غریب مسائل سے دوچار رہتی ہے۔

محققین جانتے ہیں کہ گرمی کے موسم میں صحرائے تھر کی ساری ریت کی تپش عمرکوٹ شہر میں لو کی طرح داخل ہوتی ہے۔ ان حالات میں تین تین گھنٹے کی مسلسل لوڈ شیڈنگ ظلم ہی نہیں بلکہ ظلم عظیم ہے۔ لوڈشیڈنگ شیڈول کے تین گھنٹوں کے علاوہ بھی، کسی وقت بھی لائٹ بند کر دی جاتی ہے۔ وولٹیج کی کمی بیشی سے کئی مرتبہ بجلی سے چلنے والی گھریلو اشیاء فریج، استری، اوون، واشنگ مشین وغیرہ تباہ برباد ہو جاتی ہیں۔ فریج میں پڑی اشیاء مثلاً پکے ہوئے کھانے، دودھ ، دہی ، گوشت اور سبزیاں وغیرہ بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔

ایسے میں فریج سے ایک گلاس ٹھنڈا پانی بھی میسر نہیں ہو پاتا، افطار و سحر میں بجلی کی یہ بدنظمی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ بازار میں گندی برف بہت مہنگے داموں دستیاب ہوتی ہے اور لاک ڈاوؑن میں وہ بھی میسر نہیں۔ تروایح اور دوپہر کے آرام کے وقت بجلی کا جانا معمول بن چکاہے۔رمضان المبارک میں واپڈا کی یہ حرکتیں عمرکوٹ کے عوام کے صبر کا امتحان لینے کے مترادف ہیں۔

گھروں کے یو پی ایس ٹھیک سے چارج نہیں ہو پاتے، سولر بیٹری بھی جلد ختم ہوجاتی ہے جبکہ ویٹ بیٹریاں بھی ساتھ نہیں دیتیں، ستم بالائے ستم یہ بیٹریاں بھی بہت مہنگی ہو چکی ہیں۔ عام گھریلو جنریٹر کے لیے پیٹرول کی لمبی قطار میں کھڑے ہوکر مہنگا پیٹرول خریدنا عوام کے بس کی بات نہیں رہی۔

میں‌وزیراعظم پاکستان عمران خان، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، ضلعی انتظامیہ اور مقامی سیاسی و سماجی رہنماوؑں سے اپیل کرتی ہوں کہ چھوٹے گاوؑں، دیہاتوں اور اندرون شہر کے علاقوں کو درپیش ایسے مسائل کے حل پر خاص توجہ دی جائے، یہ تسلیم کرلیاجائے کہ یہاں بھی انسان رہتے ہیں۔

گیس سے محروم تھر اور تھرپارکر عمرکوٹ کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کوئلہ فراہم کر رہا ہے. بجلی کی پیدائش کے لئے بھی سندھ ہی 70 فیصد گیس دے رہا ہے مگر حالات بھی سندھ کے بالعموم اوراندورن سندھ کے بالخصوص بہت بُرے ہیں۔ آخر کیوں؟ عمر کوٹ جیسے علاقوں کے بے بس اور لاچار عوام آخر کس در پر دستک دیں؟ کہاں جا کے زنجیر عدل کھینچیں؟ اپنی فریاد لے کر کہاں جائیں؟ وہ بے چارے نہ کلفٹن، کراچی جا سکتے ہیں نہ بنی گالا، اسلام آباد۔

تھر کی یہ بیٹی پوچھنا چاہتی ہے کہ آخر تھر کی اور ہمارے عمرکوٹ کی آواز پر دھیان کیوں‌نہیں دیا جاتا؟ ایوان اقتدار میں پہنچنے والے لوگ ہمارے ووٹوں کو پاوؑں تلے کیوں روندتے ہیں؟ پیپلز پارٹی کے بلاول صاحب اور سید مراد علی شاہ صاحب، پی ٹی آئی کے ارباب غلام رحیم ، شاہ محمود قریشی اور علی زیدی صاحبان کیا اس سوال کا جواب دیں‌گے؟

شاہ محمود قریشی یا ارباب غلام رحیم ، یہ دونوں پیری مریدی کے چکر میں عوام کو کچھ دینے کی بجائے ان ہی سے لاکھوں روپے، سونا چاندی، اور جانور تک سب نذرانے کی مد میں لے جاتے ہیں مگر وہ کبھی عمرکوٹ کے مسائل پر بات نہیں کرتے۔

شاہ محمود قریشی اور ارباب غلام رحیم عرصہ دراز سے یہاں کے عوام کو بےوقوف بنا رہے ہیں، وہ کبھی ایوانوں میں یہاں کے غریب عوام کے لئے آواز نہیں اٹھاتے۔ حالانکہ یہی وہ عوام ہیں جن کے پاس اگر نذرانہ دینے کو کچھ نہ ہو تو ادھار لے کر یا گھر کی ضروری اشیاء بیچ کر ان کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں مگر افسوس یہ سیاسی پیر پانی، بجلی اور گیس کے مسائل حل کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتے۔

عمر کوٹ سے سندھ کی بیٹی یہ سوال پوچھتی ہے کہ
کیا عمر کوٹ میں انسان نہیں بستے؟
مجھے جواب چاہیئے!!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “عمرکوٹ کی کہانی جو کوئی بھی سننے کو تیار نہیں” جوابات

  1. محمد فاروق بھٹی Avatar
    محمد فاروق بھٹی

    بادبان حیران کن مسائل سامنے لاتا ہے۔ کیا واقعی عمرکوٹ میں گیس نہیں ہے؟ کیا لوڈ شیڈنگ کی وہی حالت ہے جو اس بیٹی نے بیان کی ہے۔ اگر ایسا ہے تو وفاقی و صوبائی حکومت کو فوری ایکشن لی۔ا چاہیئے۔ ضلعی انتظامیہ اور واپڈا کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہیئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو عمرکوٹ کا وزٹ کرنا چاہیئے۔ سوموٹو لینا چاہیئے۔ کرونا اور لاک ڈاوؑن کے موسم میں صورتحال بڑی تشویشناک ہے

    1. حمنہ عمر Avatar
      حمنہ عمر

      جی بالکل یہی حال ہے۔

  2. سید یداللہ اکبر حسینی Avatar
    سید یداللہ اکبر حسینی

    دراصل ہمارے ملک پر روز اوّل سے ہی نوکرشاہی، سفیران شاہی اور جاگیرداری نظام اور انکے کارندوں نے ہی حکومت کی ہے اور ابھی بھی وہی لوگ اور انکے ایجنٹ ہی حکمران ہیں۔
    انکے پاس انسانیت کا تصور صرف اپنی ذات کیلئے ہوتا ہے اور اس سے آگے کچھ نہیں انکی ذات انکے گھر کے کتوں کیلئے تو بےچین ہوتی ہے لیکن گھر کے ملازموں کیلئے نہیں۔
    اس طبقہ کی سوچ کبھی جوابدہی کیلئے ذہنی تیار ہی نہیں ہوتی اسلیئے ان میں وہ حس ہی نہیں جس سے یہ کسی کی تکلیف یا درد ہی نہیں یہ آپکی خوشیوں کو بھی نہیں محسوس کرتے ہیں، اور جب اللہ کی پکڑ میں آتے ہیں تب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔
    اللہ تعالی پاکستان کے ہر شہر اور علاقے کے لوگوں کو اس بات کی توفیق اور سمجھ عطا فرمائے کہ وہ انسان کی پہچان کرسکیں۔
    وما توفیقی الا باللہ