فلورنس نائٹ انگیل لیمپ لے کر مریض کا جائزہ لے رہی ہے

12 مئی ہی کو انٹرنیشنل نرسز ڈے کیوں منایا جاتا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان:
کیا آپ جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں آج نرسوں کا بین الاقوامی دن منایا گیا؟ اور کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ دن کس کے جنم دن پر منانے کا فیصلہ کیاگیا؟

جی ہاں! آج فلورنس نائٹ انگیل کا یوم پیدائش ہے، وہ پورے دو سو سال پہلے آج کے دن یعنی 12 مئی 1820ء کو اٹلی کے شہر فلورنس میں پیدا ہوئی تھی۔بنیادی طور پر وہ برطانیہ کی تھی اور ایک اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے والد ولیم نائٹ انگیل اور والدہ فینی نائٹ انگیل بہت دلچسپ لوگ تھے۔ انھوں نے اپنی ہر بیٹی کے نام میں اُس شہر کا نام شامل کیا جہاں وہ پیدا ہوئی تھی۔

فلورنس ایک سال کی تھی جب اس کے والدین اٹلی سے واپس برطانیہ آگئے۔ یہاں ان کے دو گھر تھے۔ خزاں کے دنوں میں ہیمپشائر میں رہتے تھے اور گرمیوں کے دن ڈربی شائر میں گزارتے تھے۔ دولت مند لوگ تھے، اس لئے گھر کے سارے کام خادمائیں ہی کرتی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ فلورنس نائٹ انگیل کس قدر عیش وعشرت والی زندگی بسر کررہی تھی۔

فلورنس کے والدین جس قدر زیادہ دولت مند تھے، اسی قدر زیادہ رحم دل اور خدا ترس بھی تھے، وہ سماجی خدمات میں آگے آگے رہتے تھے۔ فلورنس نائٹ انگیل نے اپنے بچپن ہی سے والدین کو لوگوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا، یہی جذبہ اس کی رگوں میں اترگیا۔

فلورنس کی ابتدائی تعلیم گھر ہی میں ہوئی۔ اس دور میں لڑکیوں کے لئے سکول وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ دولت مند گھرانے ہی اپنے بچیوں کی تعلیم کے لئے ٹیوٹرز رکھتے تھے۔ فلورنس کے ابا اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت زیادہ پرجوش تھے۔ انھوں نے بھی مختلف مضامین کی تعلیم کے لئے ٹیوٹرز رکھے۔ ان میں سائنس، ریاضی اور تاریخ کے مضامین بھی شامل تھے۔

وکٹورین عہد میں، فلورنس جیسی خواتین گھر سے باہر جا کر کام نہیں کرتی تھیں، ان کی شادی ہوتی تھی اور انھیں گھر سنبھالنا ہوتا تھا۔ ان کی گھریلو زندگی نوکروں، خادماؤں سے کام کروانے، مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے، پڑھنے لکھنے، سلائی کڑھائی یا پھر سماجی تقریبات میں شرکت کرنے ہی میں گزر جاتی تھی۔ لیکن فلورنس مختلف انداز میں زندگی بسر کرنا چاہتی تھی۔

جب وہ سولہ برس کی تھی تو اس نے اپنے اندر سے ایک آواز سنی کہ ’جاؤ! اور مجبوروں کی مدد کرو‘۔ چنانچہ اس نے نرس بننے کا فیصلہ کرلیا۔ حالانکہ اس وقت نرسنگ کے شعبے کی حالت بہت بری ہوتی تھی، لڑکیوں اور خواتین میں خدمت انسانی کا جذبہ نہ ہوتا تو اس شعبے میں کوئی کشش ہی نہیں تھی۔ نرسوں کی کسی بھی قسم کی کوئی تربیت نہیں ہوتی تھی۔ انھیں خدمات کا اچھا معاوضہ بھی نہیں دیاجاتاتھا۔ اس ساری صورت حال کو ایک نرس نے چیلنج کیا، اور وہ تھی فلورنس نائٹ انگیل۔

جب فلورنس نے اپنے والدین کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ سخت ناراض ہوئے۔ انھوں نے فلورنس کو سمجھایا کہ نرس بننے والی خواتین کی کوئی عزت نہیں ہوتی، انھیں گندے ہسپتالوں میں کام کرنا پڑتا ہے، جو بہت خوفناک جگہیں ہوتی ہیں، وہاں بیمار لوگ پڑے ہوتے ہیں، انھیں کوئی سنبھالنے والا نہیں ہوتا، چنانچہ وہ ادھر ہی مرجاتے ہیں۔

والدین نے فلورنس کو سمجھایا کہ ایسے گندے ہسپتالوں میں جانا آپ جیسی دولت مند لڑکی کے لئے اچھا نہیں ہے۔ باپ نے سرتوڑ کوشش کی کہ فلورنس فیصلہ تبدیل کرلے لیکن بیٹی اپنے فیصلے پر قائم و دائم رہی۔

چنانچہ 1851ء میں، جب فلورنس کی عمر 31 سال تھی، والدین نے اسے جرمنی کے ایک کرسچین نرسنگ ہسپتال میں داخلہ لینے کی اجازت دیدی۔ وہاں اس نے مریضوں کی دیکھ بھال کی نئی مہارتیں سیکھیں اور یہ بھی سیکھا کہ ہسپتالوں کو صاف ستھرا رکھنا کس قدر ضروری ہے۔ دوسال بعد فلورنس واپس آئی اور لندن میں ایک ہسپتال چلانے لگی۔اس نے جرمنی کے نرسنگ سکول سے جو سیکھا تھا، اس کے عین مطابق یہاں ہسپتال کو چلایا، مکمل صاف ستھرا ماحول اور مریضوں کی بہترین انداز میں دیکھ بھال۔

اٹھارہ سو چوّن(1854) میں جنگ کریمین(crimean war) شروع ہوگئی، اس میں برطانیہ، فرانس اور ترکی ایک طرف تھے جبکہ دوسری طرف روس تھا۔ برطانوی فوج جنوبی روس کے علاقے کریمیا میں لڑنے گئیں، آج کل اس علاقے کو یوکرائن کہاجاتا ہے۔ جلد ہی وہاں سے خبریں آنے لگیں کہ زخمی برطانوی فوجی سخت سردی، بھوک اور بیماریوں میں مبتلا ہوکر ہلاک ہورہے ہیں۔ ان کی طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی ان کی دیکھ بھال کے لئے نرسیں موجود ہیں۔ برطانیہ کے وزیردفاع سِڈنی ہَربَرٹ نے فلورنس سے کہا کہ وہ اپنی ٹیم لے کر کریمیا پہنچ جائے۔

چنانچہ فلورنس اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں جا پہنچی، اس نے دیکھا کہ وہاں کا فوجی ہسپتال انتہائی گندی حالت میں ہے، زخمی اور بیمار فوجیوں سے بھرا ہوا ہے،انھیں گندے فرش پر سونا پڑتا ہے،پینے کا صاف پانی نہیں ہے، کھانے کو تازہ خوراک نہیں ہے، زخمی اور بیمار فوجیوں کے پاس اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لئے کمبل نہیں ہیں، نالیاں غلاظت سے بھری ہوئیہیں، ٹوائلٹ ٹوٹے ہوئے ہیں، ہرطرف چوہے دوڑتے پھرتے ہیں۔

اس سے اندازہ لگائیں کہ اس جگہ سے اٹھنے والی بُو کا کیا عالم ہوگا۔ ایسے میں بیماریوں نے تیزی سے پھیلنا ہی تھا، نتیجتاً زیادہ تر فوجی انفیکشنز سے ہلاک ہورہے تھے۔ دوسری طرف مسئلہ یہ بھی تھا کہ دوائیوں اور میڈیکل کے دوسرے سامان کی بھی شدید کمی تھی۔

فلورنس جانتی تھی کہ فوجی صرف اسی صورت میں صحت یاب ہوسکتے ہیں، اگر ہسپتال کی حالت بہتر ہوجائے۔ چنانچہ اس نے برطانیہ سے آنے والے فنڈ سے ہسپتال میں میڈیکل کا سامان پورا کیا، زخمی اور بیمارفوجیوں کے لئے اچھی خوراک خریدی، مزدوروں کو کچھ رقم دے کر نالیاں کھلوائیں۔ اپنی ٹیم کو ساتھ لے کر فلورنس نے وارڈوں کی صفائی کی، ہسپتال کے اندر ایک کچن بنایا، اور زخمی فوجیوں کی بہترین دیکھ بھال شروع کردی۔ انھیں نہانے میں مدد دینا، ان کے زخموں کی مرہم پٹی کرنا اور انھیں اچھی خوراک دینا شروع کردی۔

فلورنس نائٹ انگیل نے اس جنگ میں صرف 38 نرسوں کی مدد سے 1500 زخمی اور بیمار فوجیوں کی دن رات تیمار داری کی اور صرف 4 ماہ کی مدت میں شرح اموات 42 فی صد سے کم کر کے 2 فی صد تک کر دی۔

فلورنس نائٹ انگیل کو Lady with the Lamp بھی کہا جاتا تھا۔ وہ مریضوں کی حقیقی معنوں میں دیکھ بھال کرتی تھی۔ رات کو جب ہر کوئی سو رہا ہوتا تھا، 34سالہ فلورنس ایک ایک فوجی کے پاس جاتی، جائزہ لیتی کہ وہ آرام دہ حالت میں ہے یا نہیں۔ وہ ان فوجیوں کو خط لکھ کے دیتی تھی جو لکھنا نہیں جانتے تھے۔ اس طرح فوجی اپنے گھر والوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ چونکہ وہ راتوں کو مریضوں کی حالت کا جائزہ لینے کے لئے لالٹین لے کر گھومتے پھرتی تھی، اس لئے اسے Lady with the Lamp کہاجاتا تھا۔ یہ نام اسے وہاں کے فوجیوں ہی نے دیا تھا۔

فلورنس دو سال بعداٹھارہ سو چھپن(1856) میں لندن واپس پلٹی۔ یہاں کے اخبارات نے کریمیا میں اس کی خدمات پر خوب لکھا، چنانچہ لوگوں نے اسے ایک ہیروئن سمجھنا شروع کردیا۔ ملکہ برطانیہ نے اس کے نام ایک خط لکھا اور اس کا شکریہ ادا کیا لیکن فلورنس کو شہرت سے کوئی غرض نہیں تھی۔

جنگ ختم ہوگئی لیکن وہ سمجھتی تھی کہ ابھی بہت سے کام کرنے والا ہے۔ اس نے ملک کی اہم شخصیات کو خط لکھے اور انھیں بتایا کہ فوجی ہسپتالوں کی کس قدر گندی حالت ہوتی ہے۔ وہ ملکہ برطانیہ سے بھی ملی اور انھیں تجاویز دیں کہ کس طرح فوجی ہسپتالوں کا نظام بہتر بنایاجاسکتا ہے۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر اصلاحات ہوئیں، فوج نے ڈاکٹروں کی تربیت شروع کردی، ہسپتالوں کو صاف کرنا شروع کردیا، فوجیوں کو اچھی خوراک ملنے لگی، اچھا لباس ملنے لگا اوران کی بہتر دیکھ بھال ہونے لگی۔

1860ء میں لندن میں نائٹ انگیل ٹریننگ سکول فار نرسنگ کھلا جہاں نہ صرف جدید انداز میں نرسوں کی تعلیم اور تربیت کا اہتمام ہونے لگا، بلکہ نرسنگ کے شعبے کو معاشرے میں ایک قابل احترام پروفیشن بنادیا گیا تاکہ جو خاتون گھر سے باہر آکر بطور نرس خدمات سرانجام دے، اسے عزت اور احترام حاصل ہو۔

فلورنس نے نرسنگ کے شعبے میں اس قدر زیادہ کام کیا کہ اس نے اپنی زندگی آخری40 سال اکثر اوقات بیمار ہوکر بستر پر ہی گزارے۔ انیس سو سات(1907) میں فلورنس کی بہترین خدمات سے متاثر ہوکر ملکہ نے اسے برطانیہ کے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’آرڈرآف میرٹ‘سے نوازا۔ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی خاتون فلورنس نائٹ انگیل تھی۔ اس کا انتقال90سال کی عمر میں 13اگست 1910 کو انتقال ہوا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “12 مئی ہی کو انٹرنیشنل نرسز ڈے کیوں منایا جاتا ہے؟”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    بچپن میں فلورنس کے بارے میں کچھ پڑھا تھا دوبارہ سے یاد کروانے کا شکریہ۔ معاشرے کو اس وقت ایسے بے لوث ان تھک لوگوں کی اشد ضرورت ہے ۔