مصنف:عبد الجواد الحمزاوی
اردوترجمہ:ڈاکٹر میمونہ حمزہ:
خدیجہ سکول سے گھر لوٹی تو اس کے چہرے پر تھکاوٹ تھی، امّی جان نے کنافہ (سویوں اور پنیر سے بنا ہوامیٹھا کھانا) کی پلیٹ اس کے سامنے رکھی، اور دلار سے بولیں:
” پیاری بیٹی! کنافہ کھا لو، تمہیں بھوک لگی ہو گی، اور ابھی تو تم چھوٹی ہو، بڑی ہو گی تو روزہ رکھ لینا۔“
خدیجہ کو غصّہ آگیا، وہ ذرا زور سے بولی:
”میں بالکل نہیں کھاؤں گی کچھ بھی۔ چچا جان کا بیٹا احمد بھی تو مجھ سے زیادہ بڑا نہیں ہے، اس نے بھی کل روزہ رکھا تھا، اور آج میں نے روزہ رکھا ہے، سکول میں بھی کچھ نہیں کھایا۔“
امّی جان خاموش ہو گئیں، تھوڑی دیر میں خدیجہ کا غصّہ اتر گیا، وہ ہولے سے مسکرائی اور بولی:
” امّی جان! کنافہ یہیں پڑا رہنے دیں، بلکہ اس کے ساتھ لیموں کے شربت کا گلاس بھی رکھ دیں، ٹھنڈا ٹھار شربت! ہو سکتا ہے میں بھول کر کنافہ کھا لوں اور شربت پی لوں، اس طرح میرا روزہ بھی نہیں ٹوٹے گا، اور میری بھوک پیاس بھی دور ہو جائے گی، پھر میں شام تک روزہ پورا کر لوں گی۔“
خدیجہ کی بات سن کر امّی نے زور کا قہقہہ لگایا، انہوں نے کنافہ کے پلیٹ خدیجہ کے قریب شیلف پر رکھ دی اور خود لیموں کا شربت بنانے باورچی خانے میں چلی گئیں۔
خدیجہ کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی اور اللہ تعالی سے دعا مانگ رہی تھی،
اللہ جی! آپ مجھے بھی بھلا دیں کہ میرا روزہ ہے، جیسے کل آپ نے میری سہیلی رشا کو بھلا دیا تھا، اور اس نے بھی کنافہ کھا لیا تھا، اور جوس پی لیا تھا ، پھر بھی اس کا روزہ نہیں ٹوٹا تھا۔
خدیجہ نے بہت دعا مانگی، لیکن اسے مسلسل یاد رہا کہ اس کا روزہ ہے۔
کچھ دیر بعد مسجد سے عصر کی اذان سنائی دی، اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر
خدیجہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی، اس نے وضو کیا اور عصر کی نماز ادا کی، اس نے سجدے میں اللہ سے دعا کی:
اے اللہ مجھے بھی اسی طرح بھلا دے جس طرح ایک صحابی رسولؓ کو آپ نے بھلا دیا تھا کہ وہ روزے سے ہیں اور انہوں نے کھانا کھا لیا اور پانی بھی پی لیا۔اور پھر جب انہوں نے رسولِ کریم ﷺ کو بتایا، تو آپؐ نے فرمایا:
تجھے اللہ تعالی نے کھلایا اور پلایا ہے۔ خدیجہ نے نماز مکمل کی، وہ کچھ دیر جائے نماز پر بیٹھی رہی، پھر اسی شیلف کے پاس آگئی جہاں کنافہ رکھا تھا، اور اس کے قریب ہی لیموں کے شربت کا گلاس تھا، اس نے اس کے ارد گرد کئی چکر لگائے، اور بولی:
”اللہ جی، رشا کو بھی تو آپ نے بھلا دیا تھا، اور اس نے جوس پی لیا تھا، لیکن مجھے تو بھول ہی نہیں رہا۔“
وہ کچھ دیر جوس کو دیکھتی رہی، پھر اپنے بستر پر بیٹھ کر کچھ سوچنے لگی، اور انتظار کرتی رہی کہ شاید وہ بھی بھول جائے، اس پر سستی چھا گئی، اور وہ اونگھنے لگی۔ اس کی امّی جان کمرے میں آئیں تو وہ گہری نیند سو رہی تھی، وہ اسے کمرے میں چھوڑ کر باورچی خانے میں چلی گئیں تاکہ افطاری کی تیاری کریں۔ وقت بہت تیزی سے گزر گیا اور مؤذن نے مغرب کی اذان دی تو انہوں نے خدیجہ کو بیدار کیا:
” اٹھو خدیجہ، روزہ کھل گیا ہے۔“
سب گھر والوں نے روزہ کھولا، اور خدیجہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا، وہ مسکرا کر بولی:
”میں نے آج پہلا روزہ رکھا ہے، مکمل روزہ۔۔ اور ان شاء اللہ اور روزے بھی رکھوں گی۔۔ آپ کو معلوم ہے کہ ٹیچر نے بتایا ہے کہ روزے دار کو سونے کا بھی اجر ملتا ہے، ’’روزے دار کی نیند بھی ثواب ہے‘‘۔ مجھے بھی بہت ثواب ملا ہو گا۔
ابو اور امی نے خدیجہ کو پیار کیا ، اور سب ہنس دیے۔
ایک تبصرہ برائے “خدیجہ نے روزہ رکھا”
بہت پیاری کہانی ھے ۔ بچپن کی معصومانہ خواہشوں کاحقیقی عکس ۔