میاں محمد بخش

تفہیم کلام میاں محمد بخش

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرشائستہ جبیں :

پنجابی زبان دنیا کی قدیم ترین اور زرخیز زبانوں میں سے ایک ہے، جس کے بولنے اور سمجھنے والے ایک سو دو ملین کی تعداد میں دنیا بھر میں موجود ہیں. یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے اور اس کے بارہ مختلف لہجے ہیں.

پنجابی زبان ہندوستانی اور ایرانی زبان کا امتزاج ہے اور اسے جنوبی ایشیا کی زبانوں میں کافی مؤثر حیثیت حاصل ہے. اس وقت پنجابی بولنے کی تعداد پاکستانی علاقے میں آٹھ کروڑ ہے جوکہ کل آبادی کا پچپن فیصد ہے. تیس ملین کے قریب پنجابی بولنے والے ہندوستان میں بستے ہیں جو وہاں کی کل آبادی کا تین فیصد ہیں. دس ملین کے قریب پنجابی جن میں ایک بڑی تعداد سکھوں کی ہے، ہندوستان سے باہر برطانیہ، شمالی امریکا، مشرق بعید اور وسط ایشیائی ریاستوں میں آباد ہیں.

ان پنجابیوں میں چون فیصد مسلمان، انتیس فیصد ہندو، چودہ فیصد سکھ اور تین فیصد عیسائی شامل ہیں. افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قدیم اور زرخیز زبان کے بولنے، پڑھنے اور سمجھنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں.

نئی نسل کو اس زبان سے نہ تو آگاہی ہے اور نہ ہی دلچسپی. جدید طرزِ زندگی کے دلدادہ والدین ارادتاً اپنے بچوں کو مادری زبان سے بے بہرہ رکھ کر اردو، انگریزی سکھانے پر ساری توجہ مرکوز کر رہے ہیں. وجہ احساس کمتری اور پنجابی زبان کے شاندار ادبی پس منظر سے لاعلمی اور اس کی زرخیز تاریخ سے نا واقفیت ہونا ہے.

پنجاب میں ایک طبقہ مادری زبان کی اہمیت پر زور دیتا ہے، پنجابی کے ادبی ورثے پر فخر کرتا ہے، لیکن اپنے بچوں سے اردو یا انگریزی میں بات کرنا پسند کرتا ہے، ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے بچوں کے نام پنجابی ورثے سے لیے گئے ہیں، لیکن بچے اس سے ناواقف ہیں کیونکہ وہ پنجابی بولنا ہی نہیں جانتے.

ایک دوسرا طبقہ بچوں کو سرے سے پنجابی زبان میں بات کرنے سے ہی روکتا ہے، بلکہ کئی لوگ تو اس معاملے میں خاصی سختی برتتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں سارے دانشور خود تو اپنے بچوں کو اردو اور انگریزی سکھاتے ہیں اور دوسروں کے بچوں کے لیے چاہتے ہیں کہ وہ پیچھے رہ جائیں، یعنی مادری زبان پر عبور رکھنا آپ کو ترقی نہیں کرنے دیتا.

پاکستانی اشرافیہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پنجابی صرف بات چیت کی زبان ہے اور اس کا پڑھائی لکھائی سے کوئی تعلق نہیں ہے. میری ایک ساتھی خاتون نے ایک بار کسی کے بات کرتے ہوئے بہت طنزیہ انداز میں کہا کہ فلاں نے ڈگری کی سطح پر پنجابی ادب پڑھا ہوا ہے، انگریزی ادب پڑھنا ہمارے احساسِ کمتری کے شکار معاشرے میں باعث فخر اور پنجابی ادب پڑھنا باعث طنز و تضحیک ہے.

کسی بھی معاشرے کی اقدار، روایات، شاعری، ادب، اس کی زبان میں محفوظ ہوتی ہیں اور جب لوگ زبان کو ہی باعثِ عار بنا لیتے ہیں تو ان اقدار اور روایات سے بھی دور ہو جاتے ہیں،جو ایک تاریخی عمل سے وجود پاتی ہیں. ہمارے معاشرے کے انتشار اور شکست و ریخت کی بھی شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو اپنی مادری زبان میں محفوظ عظیم ذخیرہ ادب سے روشناس کرانے میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں.

پنجابی زبان کے صوفی شعراء کا کلام اپنی مثال آپ ہے، پنجابی زبان و ادب کو زندہ رکھنے کی کوشش کے طور پر اس مضمون میں مشہور صوفی شاعر میاں محمد بخش کے مشہور اشعار اور ان کے مطالب مختصر بیان کیے جاتے ہیں تا کہ ہم اپنی مادری زبان سے محبت کا رشتہ قائم و دائم رکھ سکیں.

میاں محمد بخش ء1830 میں کھڑی شریف آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے. آپ کے والد محترم میاں شمس الدین، مشہور مقامی صوفی بزرگ ولی سرکار کے خلیفہ تھے اور ایک مذہبی و علمی گھرانے کے سربراہ تھے. آپ کی پرورش ایک علمی اور مذہبی ماحول میں ہوئی. ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی اور بعد میں اپنے بڑے بھائی میاں بہاول کے ہمراہ قریبی قصبے میں واقع مدرسہ میں حافظ محمد علی سے مذہب کی اعلیٰ تعلیم خصوصاً علم الحدیث میں مہارت حاصل کی.

بچپن سے ہی میاں محمد بخش کو شاعری پڑھنے کا شوق تھا اور اپنے اساتذہ کی فرمائش پر مولانا جامی کا تحریر کردہ قصہ یوسف زلیخا ترنم سے سنایا کرتے تھے. رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعد انہوں نے روحانی منازل طے کرنے اور مشائخ کی تلاش میں دورونزدیک کے اسفار کئے،جنگلوں اور صحراؤں میں چلہ کشی کی. اس کے ساتھ ساتھ وہ شاعری بھی کرنا شروع ہو گئے.

انہوں نے اپنے روحانی رہنما کی شان میں ایک قصیدہ لکھا. سہ حرفیاں اور دوہڑے بھی لکھے. ان کی شاعری کی زبان پنجابی ہے، جس میں پوٹھوہاری اور ہندکو لہجے کا تڑکا ہے. ان کا مشہور کلام ” سفر العشق“ ہے جو کہ سیف الملوک کے نام سے مشہور ہے. انہوں نے 1907 میں وفات پائی اور کھڑی شریف میں ہی مدفون ہوئے. آئیے ان کے خوبصورت کلام سے کچھ اشعار پڑھیے، سمجھیے اور سر دھنیے:

مان نہ کریو روپ گھنے دا تے وارث کون حسن دا
سدا نہ رہسن شاخاں ہریاں تے سدا ناں پُھل چمن دا

(اچھی شکل و صورت پر غرور، فخر انسان کو زیبا نہیں کیوں کہ یہ فانی ہے اور ایک دن ختم ہونے والا ہے. دنیا کا دستور ہے کہ ہر چیز ایک مقررہ وقت پر ختم ہو جائے گی. حسن، خوبصورتی ویسے ہی ختم ہو جائے گی، جیسے پودے خزاں آنے پر مُرجھا جاتے ہیں اور شاخوں کا مان بڑھاتے پُھول سوکھ کر پودے کو ٹنڈ منڈ کر جاتے ہیں.)

دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانڑا
ڈیگر تے ڈیہہ گیا محمد اوڑک انہے ڈُب جانا

(کسی کے دکھ تکلیف پر خوشی محسوس کرنا ایک اچھے انسان کا شیوہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ تکالیف زندگی کا حصہ ہیں اور ہر ایک کی زندگی میں آتی ہیں اور آسکتی ہیں، اس لیے کسی دوسرے کی مصیبت پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے خیر کا طلب گار ہونا چاہیے.)

اُچی جائی نیونہہ لگایا تے بنی مصیبت بھاری
یاراں باہجھ محمد بخشا کون کرے غم خواری

(اپنے سے بلند حیثیت والے لوگوں کے ساتھ تعلق نبھانا مشکل ہوتا ہے. تعلق وہیں بہتر ہے جہاں برابری ہو. دُکھ، درد میں ساتھ وہی دے سکتا ہے جس سے خلوص کا باہمی رشتہ ہو. اس لیے دوستی اور محبت کے تعلقات استوار کرنے میں محتاط رہنا چاہیے.)

ہجر تیرا جے پانی منگے تے میں کھوہ نیناں دے گیڑاں
دل کردا اے تینوں کول بٹھا کے میں درد پرانے پھولاں

(تمہاری جدائی مجھ پر اتنی گراں ہے کہ میں اسے وصل میں بدلنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں. تمہاری جدائی نے میرا یہ حال کر دیا ہے کہ جی چاہتا ہے تم ملو، تو تم سے وہ سارے دکھ سکھ کہوں جو تمہاری جدائی میں مجھ پر بیتے ہیں).

رحمت دا مینہ پا خدایا تے باغ سُکا کر ہریا
بُوٹا آس امید میری دا کر دے میوے بھریا

(اللہ تعالیٰ کا کرم اور مہربانی ہو جائے تو وہ خشک، اجاڑ پودوں کو بھی ہرا بھرا کر سکتا ہے کیونکہ بارش کا اثر بھی مختلف جگہوں پر مختلف ہوتا ہے. ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ اپنی رحمت خاص سے ہماری حاجتیں پوری کر دے، کیونکہ اس کے سوا کوئی خواہشات پوری کرنے پر قادر نہیں ہے. اپنی خواہشات کو اس شعر میں پھل دار پودے سے تشبیہ دے کر اس کے بارآور ہونے کی خواہش کی ہے.)

دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے
اُس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے

(دنیا میں انسان ہی دوسرے انسان کے مددگار اور معاون ہوتے ہیں. ایسا شخص جسے آپ کی دوسری اور محبت کا دعویٰ ہو اور کوئی مشکل پڑنے پر وہ آپ کے ساتھ نہ کھڑا ہو، آزمائش میں آپ کی ہمت بننے اور طاقت بڑھانے کو موجود نہ ہو، ایسے دوست اور ساتھی کی بجائے تنہا ہونا زیادہ بہتر ہے، تاکہ آپ اپنے زورِ بازو پر یقین کریں اور کسی سے کوئی امید باندھ کر مایوس نہ ہوں.)

درد منداں دے سُخن محمد دین گواہی حالوں
جس پلے پُھل بدھے ہوون آئے باس رُمالوں

(جو شخص ہمدرد اور مہربان دل والا ہو، دوسروں کے درد کا درماں وہی کر سکتا ہے اور ایسے شخص کو ہر ہم درد دل پہچان لیتا ہے، کیونکہ اچھائی اور نیکی بھرا دل اپنی پہچان آپ ہوتا ہے. جس طرح کسی کپڑے کے پلو سے پھول باندھ دیئے جائیں تو وہ کپڑا بعد میں بھی خوشبو سے معطر رہتا ہے. اسی طرح نیک اور دردمند دل والے شخص سے بھی لوگ فیض یاب ہوتے رہتے ہیں.)

چنگی مندی سجناں کولوں ہو جاندی سو واری
یار یاراں دا گلہ نئیں کردے اصل پریت جنہاں دی

(تعلقات میں اتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہیں. کبھی نا چاہتے ہوئے بھی قریبی دوست یا عزیز سے آپ کے ساتھ زیادتی ہو جاتی ہے، لیکن اعلیٰ ظرف اور مخلص لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا دوسروں کے سامنے ڈھنڈورا نہیں پیٹتے بلکہ اسے حوصلے کے ساتھ نظر انداز کرتے ہیں تاکہ تعلق اور رشتے بچائے جا سکیں، اور دلوں میں کدورت اور کینہ جگہ نہ بنانے پائیں.)

لوئے لوئے بھر لے کُڑیے جے تُدھ بھانڈا بھرنا
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا

(چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو حقیر سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہر معمولی سے نیک عمل کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیئے تا کہ حساب کتاب کے دن پلڑا بھاری ہو. اس دن نیک اعمال کا وزن ہی کام آئے گا اور جس کے پاس نیکیاں کم ہوں گی، اس کے لیے وہ خوف کا دن ہو گا اور وہ اپنے پلڑے کے ہلکے ہونے کے خوف میں مبتلا ہو کر گھبراہٹ کا شکار ہوگا.)
[email protected]


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “تفہیم کلام میاں محمد بخش” جوابات

  1. Neelam sial Avatar
    Neelam sial

    Buhhttt hii umdaaa tareky sy bayan Kia ap ny..punjabii zuban myn jitnii mithas hai I think kisi or Zuban myn nae..

  2. Ramsha Raza Avatar
    Ramsha Raza

    Boht informative tehreer hy punjabi zaban ky havaly sy.. Or miyan Mohammad Bakhsh ky kalam ko khhubsoorti sy explain kia gya hy..

  3. حفظہ علی.. Avatar
    حفظہ علی..

    Punjabi poetry….👍👍👍

    1. شیبا ء عر فا ن Avatar
      شیبا ء عر فا ن

      السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و بر کا تہ۔بہت عمدہ ۔انسا نی معا شرے کی پستی کا ایک سبب اپنی ماں جا ئی زبا ن سے دوری ہے۔پنجا بی زبا ن کو سمجھنے کے لیے میا ں محمد بخش ،سلطا ن با ہو ،وارث شا ہ جیسے صو فیا ء کو پڑھنا اور سننا بہت مفید ثا بت ہو تا ہے۔۔بہت شکریہ ۔۔

  4. Kalsoom Avatar
    Kalsoom

    Superb writing mashAllah….weldone dr shaista..keep it up…