حج بیت اللہ، مکہ مکرمہ ، سعودی عرب

محروم تمنّا کو پھر دیدہ بینا دے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شازیہ عبدالقادر:

بس دعا کریں ہماری حج درخواست منظور ہوجائے، ابھی کسی کو بتانا نہیں، کتنی بار درخواست جمع کرائی ہے مگر بلاوا تو وہاں سے آتا ہے نا !
کسی نے کہنا: ہماری درخواست منظور ہوگئی ہے۔

ذوالحجہ سے کئی کئی ماہ پہلے ہی ایک ہلچل شروع ہوجاتی تھی۔
کوئی بتاتا کہ آفس کی طرف سے نام نکلا ہے، حج پر جارہے ہیں۔
کسی کا معلوم ہوتا کہ فیملی کا گروپ تیار ہورہا ہے۔

کوئی بتاتا کہ برسوں کی جمع پونچی کے بعد اب ممکن ہوا ہے کہ اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔
معلوم ہوتا کہ فلاں ملک سے غریب الوطن رشتہ دار پاکستان سے ہوتے ہوئے حج پر جائیں گے۔
اخباروں اور چینلز ،نیوز سائٹس پر حج کی درخواستیں موصول ہونے کی آخری تاریخوں کا اعلان ہوتا۔
شہر کو نکلیں تو حاجی کیمپ آتے جاتے لوگ، حاجی کیمپ کی سرگرمیوں کی اطلاعات،

الغرض حج سے قبل تین چار ماہ کہیں نا کہیں یہ سب کچھ سننے کو ملتا رہتا۔
دل کی تڑپ، آنکھوں کا نم ہونا، اپنے سیاہ نامہ اعمال،کوئی جمع پونچی نہیں۔ وسائل کو دیکھیں تو خالی ہاتھ ، مگر کیا کریں اپنے اللہ اور اپنے حبیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور در کا دیدار کرنے کی خواہش بھی نہ کریں۔

کیا اتنا بھی حق نہیں کہ ہاتھ اٹھائیں کہ مالک ! ایک بار ہمیں بھی اس گھر کی دیواروں سے لپٹ کر اپنے سیاہ نامہ اعمال پر معافی مانگنے کی توفیق دے دے!! کیا ہم تہی داماں اس لائق بھی نہیں کہ تجھ سے زندگی میں ایک بار وہاں، جہاں جاکر دل بےقرار کو قرار آئے، بلانے کی خواہش کرسکیں!!! وہاں سجدوں میں گر کر، رو کر اپنی سیاہیوں کی معافی مانگ لیں!!! زندگی میں سب کچھ ملا لیکن تیرے گھر کا دیدار نہ ہوا تو کیا جیا!!!

ہم جیسے محروم تمنا، پاس کچھ بھی نہ ہوتے ہوئے ہرسال حسرت سے تیرے گھر کو جاتے ہوئے خوش نصیبوں کو دیکھ دیکھ کر ہی خوش ہوجاتے تھے کہ ایک دن آئے گا، تیری رحمت جوش مارے گی، دل کی یہ تڑپ کام آجائے گی اور ہم بھی کسی طرح وہاں پہنچ کر دل کا سکون پائیں گے۔

حج کو جاتے لوگوں کو پرچیوں پر نام لکھواتے، وہاں پہنچ جانے والوں کو میسج کرکر کے یاد دلاتے
کہ کسی کی تو دعا قبول ہو گی، ہمارا نام بھی کبھی خوش نصیبوں میں آئے گا، ہم بھی اپنے گناہوں کی معافی تیرے در سے لپٹ کر مانگیں گے، اپنی کوتاہیوں پر ندامت کا اظہار کریں گے، دنیا والوں کے رویوں ، ان کے لگائے کچوکوں کی شکایت تیرے سامنے کریں‌گے، ہم بھی ایک نئی زندگی پائیں گے،

کیا نہیں ہے تیرے اختیار میں؟ سب کچھ تیرے اختیار میں ہے!! مالک تیری کُن کے منتظر، پھر تو سب کچھ خود ہی سیٹ ہوجائے گا، تو خود ہی انتظام کردے گا۔

تو خوابوں میں اپنے کالے غلاف میں لپٹے دنیا کے حسین ترین گھر، اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلّم کے روضہ اطہر کا کبھی ادھورا، کبھی پورا منظر دکھا دکھا کر تڑپاتا ہے۔
مالک! اصل میں بھی دکھا دینے پر تو ہی قادر ہے بےشک !

جب حج فلائٹس کا آغاز ہوتا تو پھر ہر دوسرے دن کسی نہ کسی کے جانے کی اطلاع ملتی۔ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے شعبہ حرم فورم خواتین کی ماسٹر ٹرینرز کی جگہ جگہ ورکشاپس ہونے کی اطلاعات ملتیں، اور اسٹورز میں احرام، اسکارف، لوازمات سفر مبارک کے کارنرز۔

حج تو مرکز دنیا خانہ کعبہ اورمرکز محبت مدینہ منورہ کے شہروں سے وابستہ سفر مبارک کی داستان ہے مگر پاکستان، امریکا، کینیڈا دنیا کے ہر، ہر حصے سے وہاں جانے والوں کا تانتا بندھ جاتا تھا۔

جانے والے تو نشہ سرمستی میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ میرے جیسے محروم تمنا بس انھیں جاتے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ وہ وہاں جا کر ہمارے لئے بھی دعا کریں گے اور پھر ہمیں بھی بلاوا آئے گا۔

آہ کیسا سال آیا زندگی میں کہ کبھی نہ سنا تھا کہ اللہ کے گھر اور در نبی صلی اللہ علیہ وسلم بند ہوجائیں گے
جب یہ خبر سنی تو کیسے کیسے دل شاق ہوئے،
یہ کیسے ہوسکتا ہے، یہ تو ممکن نہیں،

ہائے ہمارا رب ہم سے اتنا خفا ہوگیا ہے کہ دنیا کے مبارک ترین شہروں کے دروازے خلقت پر بند ہوگئے.
پھر سنا عمرہ بیرونی شہریوں کے لئے منع ہے لیکن مقامی لوگ تو کرسکتے ہیں۔ نماز پانچ وقت حرم مبارک میں موجود خوش نصیبوں کی ادا ہورہی ہے۔
بس باہر سے کوئی نہیں جاسکتا، فلائیٹس بند ہیں، سعودیہ کے شہروں کی سڑکیں بند ہیں۔

لوگ کہتے تھے کہ فلائیٹس اور ہائی ویز بند ہیں
حالانکہ سب جانتے تھے کہ اللہ کی رحمت روٹھ گئی ہے ۔

حج کیسے بند ہوسکتا ہے، یہ تو سالہا سال سے، دور ابراہیم علیہ السلام سے جاری ایک ایسی روایت ہے کہ جیسے سورج کا نکلنا، جیسے چاند کا آنا۔ حج کائنات کی زندگی کا ایک لازمہ ہے، یہ تو مسلسل ہورہا تھا۔

ہرسال رمضان المبارک میں لاکھوں عاشقان دیدارِ حرمین شریفین سے صحن کعبہ اور روضہ اطہر بھرا رہتا تھا ، لیکن اب عالم اسلام نے اسے خالی دیکھا تو دل لرز گیا ۔ یا اللہ ! اپنے در کھول دے، ہمیں معاف کردے، ہم پر رحم فرما۔

ایک وبا نے انسان کو، سائنس کو ، ٹیکنالوجی کو اس کے غرور سمیت زمین پر دے مارا تھا، تب اندازہ نہیں تھا کہ ہمارا مرکز محبت بھی ہمارے لئے بانہیں کھول کر منتظر نہیں رہے گا ۔

پھر خادم حرمین شریفین نے اعلان کیا کہ صرف دس ہزار مسلمان حج ادا کرسکیں گے جو سعودیہ کے شہری ہوں گے یا پھر وہ دوسرے ممالک کے وہ شہری جو بوجوہ سعودیہ میں قیام کررہے ہوں گے۔

آہ۔ ! تو گویا اب وہ رونقیں جو حج سے کئی ماہ پہلے جاری ہوتی تھیں، ایمان تازہ ہوتا تھا، ایک احساس محرومی تڑپ میں بدل جاتا تھا، جو مجھ جیسے تہی داماں ، عاصی کے شوق سفر حج کو مہمیز دیتا تھا،
وہاں سے بلاوے کے حکم کو پکارنے کے لئے اپنے اعمال کی درستگی کی طرف متوجہ کرتا تھا،
وہ جذبہ، وہ تڑپ جانے والوں کو دیکھ کر، ان کی تیاری دیکھ کر جِلا پاتی تھی
ہم تو اس سے بھی محروم ہوگئے۔

ذوالجہ کا آغاز ہوتے ہی یہ سب بہت تیز ہوجاتا تھا،
پیچھے رہ جانے والے اپنی تڑپ کو ڈیجیٹل دنیا سے وابستہ کرلیتے تھے،

بچپن میں ایام حج پی ٹی وی پر سارا دن لائیو چلتے تو تلبیہہ اور تکبیرات سے پورا گھر گونجتا رہتا،
جب سے میڈیا نے ترقی کی ہے تو مکہ و مدینہ کے ” مباشر “ ٹی وی چینل کی لائیو نشریات پیچھے رہ جانے اور تڑپنے والوں کے دل کو سہارا دیتی ہیں۔

بھرا بھرا خانہ خدا و روضہ اطہر،
اب وہاں بس چند ہزار خوش نصیب ہی پہنچ سکیں گے
پہلے جو جانے والے بےشمار خوش نصیب دوست، احباب، رشتہ داروں کو مجھ جیسے محروم تمنا اپنے نام اپنی دعائیں لکھ لکھ کر دیتے تھے، اب تک تو کوئی ڈھونڈے سے ایک نام نہیں ملا

یارب! کیسی محرومی سی محرومی ہے!
مگر مالک المختار! اے کن فیکون والے رب!
تو ہر دل کی آہ اور تڑپ سے واقف ہے
تو ہر گرنے والے آنسو کی قدر کرنے والا ہے
تو میرے رحیم رب ہمارے گناہ معاف فرمانے والا ہے

تو جانتا ہے کہ تیرے لاکھوں بندے تیرے گھر اور حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا دیدار کرنے کو بےچین تھے، سب اسباب ان کے پاس تھے لیکن وہ نہیں جاسکے۔

یا الٰہ ! لاکھوں ایسے تھے جو محروم تمنا تھے لیکن حج کی رونقوں کو ڈیجیٹل دنیا کی لائیو ٹرانسمیشن حج کے ذریعے تیرے در اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کا دیدار کرلیا کرتے تھے۔

خطبہ حج سننا اور لاکھوں حجاج کرام کے ساتھ کروڑوں مسلمانوں کا وہاں ہونے والی دعا میں شامل ہونا، یہ سوچنا کہ کوئی تو مستجاب الدعا ہوگا جس کی دعا تو سن لے گا، کوئی تو ایسے اٹھے ہوئے ہاتھ ہوں گے جن کی دعا تو رد نہیں کرے گا۔

ہمیں معاف کردے یا الہ العالمین! ہمیں معاف فرما دے،
ہم کوتاہ ، ہم سیاہ کار، تیرے در کا آسرا ہے، ہم تو اسے دیکھ کر جیتے ہیں۔
ہمارے لئے اپنے گھر کے دروازے اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی رحمت کھول دے۔
ہمیں اس سے محروم نہ کر، ہم تیری جانب لبیک ، لبیک کہتے دیوانہ وار آنا چاہتے ہیں

جو دور بیٹھے
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ
اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد
تکبیرات کی گونج میں شامل ہونے کو بیتاب ہیں
ہمیں معاف کردے اے اللہ !!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “محروم تمنّا کو پھر دیدہ بینا دے”

  1. محمد فاروق بھٹی Avatar
    محمد فاروق بھٹی

    شازیہ عبدالقادر جب بھی لکھتی ہیں، سب غم زدوں کی ترجمانی کر دیتی ہیں۔ حج عمرہ سے محرومی کے معاملے میؑں بھی امت کی ترجمانی ہو گئی ہے۔ ایک مشورہ ہے کہ حج عمرہ کے "کاروبار” سے وابستہ لوگ یوم توبہ منائیں اور جھوٹ، فریب، خیانت، چوری، ڈھٹائی، دھوکہ دہی سے پکی توبہ کریں ۔۔۔ پچھلے فراڈز کی معافی بھی مانگیں اور تلافی بھی کریں۔ دوسرا مشورہ سعودی حکومت کو ہے کہ
    سہولیات کے نام پر پنج تارہ، ست تارہ، نو تارہ حتیٰ کہ گیارہ تارہ ہوٹلز بنانا ۔۔۔ کلاک ٹاور جیسی بیہودہ بلڈنگ کھڑی کرنا اور بیت اللہ کے گرداگرد بلند ترین عمارات کھڑی کرنا توہین کعبہ سے کم نہیں۔ سعودی حکومت کو ان بلند و بالا عمارات کو فوراً دور لیجانا چاہیئے ۔۔۔ اللہ کے گھر کو کنویں میں پھینکنے جیسے تاثر کو ختم کرے اور عاجز بندوں کی حج عمرہ اور حرم کی تقدیس و سپرٹ بحال کی جانی چاہیئے۔ حرمین شریفین کے تمام معاملات سعودی حکومت سے واپس لیکر تمام مسلم ممالک کے سرکردہ دانشوروں اور علماء کے حوالے کیا جائے اور ویٹیکن سٹی کی طرز پر دونوں مقدس شہر مکہ و مدینہ آزاد شہر قرار دیا جائے ۔ سعودی حکومت امت کے امین کے طور پر کام کرے اور حج عمرہ کی خدمات سرانجام دینے والے کنسوریشیم کی مالی مدد بھی کرے اور کسی خدمت کی فراہمی پر معاوضہ طلب نہ کرے۔
    اللہ کرے حرمین شریفین کے دروازے جلد عوام پر کھال جائیں۔