جنگل، لالٹین، غار

خواب سرائے کا مکین

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں :
[email protected]

انہوں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جس کے سربراہ صحابہ کرام کی عزت و ناموس کو اپنی زندگی کا محور و مقصد سمجھتے ہوئے آبائی وطن سے ہزاروں میل دور ہجرت کر کے ایک دور افتادہ، پسماندہ لیکن ناموس صحابہ کی جدوجہد کے حوالے سے مشہور شہر میں آن آباد ہوئے.

والدین، بہن بھائی، رشتے دار سب کچھ ان کے مقصد اور جذبہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن پائے. مقصد بھی کون سا آسان تھا، سچ اور حق کا ساتھ دینے والوں کے نہ تو رستے سہل ہوتے ہیں اور نہ ہی بظاہر ان کی منزلیں آسان ہوا کرتی ہیں لیکن اللہ نے ایمان اور اخلاص کا جو جذبہ ایسی سعید روحوں کو عطا فرمایا ہوتا ہے، وہ کسی دنیاوی رکاوٹ اور کٹھنائی کو خاطر میں نہیں لایا کرتا.

ان کے والد نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بدترین جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد برداشت کیا، لیکن کوئی ستم انہیں ان کے مقصد سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکا. وہ محترم والد جنہوں نے کبھی دنیاوی جاہ و حشمت یا مال و دولت کے حصول کو زندگی کا مقصد نہیں بنایا، جنہوں نے تمام عمر اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے دفاع کو اپنا سرمایہ حیات بنائے رکھا اور بنائے ہوئے ہیں. اپنے مقصد کی راہ میں سہنے والی جسمانی و روحانی صعوبتوں نے انہیں جسمانی طور پر معذور کر دیا ہے، لیکن وہ اپنے مقصد حیات سے پیچھے نہیں ہٹے، اور نہ ہی اپنے وطن واپس جانے کا کبھی ارادہ کیا.

ایسی نابغہ روزگار ہستی کے ہاں آپ نے جنم لیا اور والد صاحب کی اچانک گمشدگی، کئی کئی ماہ گھر سے غیر حاضری دیکھتے آپ کا بچپن اور لڑکپن گزرا. والد محترم اور والدہ صاحبہ دونوں قرآن مجید کی درس و تدریس کے فریضے کو بھی حرزجاں بنائے ہوئے تھے، اس لیے قرآن مجید چھوٹی عمر سے ہی آپ کی دلچسپی کا مرکز رہا، اللہ تعالیٰ نے اس کے حفظ کی سعادت بھی عطا کی۔

عظیم گھرانہ چوں کہ دینی و دنیاوی دونوں طرح کے علوم کا مرکز تھا. اس لیے آپ نے بھی علوم دینیہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم کی بھی تعلیم حاصل کی. اسلام اور قرآن کی تعلیم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور اصحاب کی محبت آپ کی گھٹی میں شامل تھی. برداشت، عاجزی، صبر، دوسروں کی اعانت کے جذبات آپ کی تربیت میں گندھے ہوئے ہیں.

عملی زندگی کا آغاز ملک کی ایک مشہور جامعہ کے انتظامی دفتر میں ملازمت سے کیا. آپ کا کردار، اخلاق، ذہانت اور محنت و لیاقت جیسے اوصاف آپ کو دیگر ساتھیوں سے ممتاز کرتے تھے. اپنے انہی اعلیٰ اوصاف کے بدولت وہ اسی جامعہ کے تعلیمی عملے میں شامل ہوئے. یہ سفر آسان کہاں تھا،انتظامی دفتر سے تعلیمی عملے تک پہنچنے تک کے سفر میں انہوں نے لوگوں کے ایسے ایسے روپ سروپ دیکھے، جنہوں نے انہیں مذہبی ٹھیکیداروں سے بے زار کر دیا،جو اُسی ادارے کے انتظامی شعبہ میں کام کرنے والے ایک قابل فرد کو اپنے برابر تعلیمی حیثیت میں قبول کرنے کو آمادہ نہ تھے.

ان کے راستے میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، انہیں اعلیٰ تعلیم کے حق سے محروم رکھا گیا، یہ جانے بغیر کہ وہ جن محترم ہستی کی اولاد ہیں، اس طرح کی آزمائشیں ان کے ایمان کو مزید مضبوط تو کر سکتی ہیں، انہیں محنت، اخلاص سے اپنا مقام بنانے سے روک نہیں سکتیں. نیکی، اخلاص اور قابلیت کو روکنے والے حفاظتی دروازے ابھی تک ایجاد نہیں ہوئے ہیں. ان کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کرنے والوں نے دیکھا کہ انہوں نے سرکاری خرچ پر بیرون ملک سے اعزاز کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی.

ان کامیابیوں نے ان کی عاجزی اور انسان دوستی میں مزید اضافہ کیا ہے. وہ کبھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں یا نا انصافیوں کا تذکرہ کرنا پسند نہیں کرتے. وہ سب لوگ جنہوں نے ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا، ہمیشہ سب بُھلا کر ان کی عمر اور مقام و مرتبہ کا لحاظ کرتے اور دلجوئی کرتے دکھائی دیتے ہیں.

وہ کہتے ہیں کہ رکاوٹوں اور مشکلات نے ان کا اللہ پر ایمان مضبوط کیا. انہوں نے سیکھا کہ انسان جتنی مرضی کوشش کرے، جتنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کر لے، جس کام کا اللہ کی طرف سے حکم نہیں ہوتا، وہ نہیں ہو سکتا. انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اتنے سال کوشش اور محنت کی، لیکن جب اس کا ہونا طے تھا تو بغیر کسی غیر معمولی کوشش کے انہیں وظیفہ پر اعلیٰ تعلیم کا موقع مل گیا.

مشکلات، مصائب، آزمائشیں ان کی زندگی عبارت ہی ان سے ہے، لیکن اللہ پر ایمان، توکل، بھروسہ اور پرُامید رہنا بہت متاثر کن ہے. وہ ایسے درویش ہیں جو ہر آزمائش کو تحفہ خداوندی سمجھ کر، شکر ادا کر کے وصول کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مومن آزمائش کی بھٹی میں تپ کر ہی کندن ہوتا ہے.

وہ ادارے کے واحد فرد ہیں جو دفتری اوقات سے بھی زیادہ وقت دستیاب ہوتے ہیں اور ہر طالب علم کی رہنمائی کا فریضہ مکمل خوش دلی اور توجہ سے سر انجام دیتے ہیں. انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ طالب علم ان کی جامعہ کا ہے یا کہیں باہر سے آیا ہے، ان کے ادارہ سے ہے یا کسی اور شعبہ سے، جس استاد کے ساتھ اسے کام کرنا تفویض ہوا ہے، وہ ان سے رہنمائی لینے کی بجائے ان کے پاس کیوں آ رہا ہے، ان کے دروازے ہر خاص و عام، جان پہچان والے اور انجان تشنگان علم سب کے لیے کھلے ہیں،

پی ایچ ڈی سطح کے اکثر طلبہ جو کہ ملازمت یا دیگر مصروفیات کی وجہ سے براہ راست کم حاضر ہو سکتے ہیں، انہیں ٹیلی فون پر معاونت فراہم کرنے سے کبھی انکار نہیں کرتے، جب اور جس وقت کال یا پیغام بھیجا جائے، اپنی طرف سے سے بروقت جواب دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں. ایسے ماحول میں جہاں اساتذہ اپنی زیرِ نگرانی کام کرنے والے طلبہ کو وقت دینے پر آمادہ نہ ہوں، وہاں ان کا بلاتخصیص سب کے دستیاب ہونا ہی اچھے اور نیک ماں باپ کی تربیت کا فرق دکھاتا ہے.

وہ سرراہ جاری وہ قدرتی چشمہ ہیں، جہاں سے کوئی بھی مسافر پیاس بُجھا سکتا ہے. وہ دیا ہیں جو سرعام جل رہا ہے کہ جس کا جی چاہے، اس سے روشنی پا لے. اکثر بیرون شہر سے بھی طلبہ ان سے رہنمائی لینے کو حاضر ہوتے ہیں، ادارے میں تحقیقی مقالہ لکھنے والا شاید ہی کوئی طالب علم ایسا ہو، جس نے آپ سے مدد نہ لی ہو.

کوئی بھی حاضر ہو جائے، آپ بنا کسی تاثر کے دھیمی مہربان مسکراہٹ کے ساتھ مخلوق خدا کو فیض یاب کرنے کو تیار رہتے ہیں. علوم اسلامیہ کی کسی بھی شاخ کے حوالے سے، کوئی بھی عنوان تحقیق ہو، آپ اتنی روانی اور برجستگی کے ساتھ اس کے مختلف پہلو واضح کرتے ہیں کہ محقق طلبہ کو اپنا عنوان تحقیق سمجھ ہی اس وقت آتا ہے.

سارا دن کلاسز پڑھانا، دفتری و شعبہ جاتی اضافی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مفت کے محققین، جو آپ کی مدد کے بغیر مقالہ کا آغاز کرنا اپنے لیے ناممکن پاتے ہیں، کی رہنمائی وہ خوش دلی سے اس آیت مبارکہ کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں.
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض. (الرعد13:17).

کوئی بھی پریشانی کا معاملہ ہو، ایسے دل نشین انداز میں قرآن مجید یا سیرت طیبہ سے حوالہ دیتے ہیں کہ تکلیف اور پریشانی زائل ہوتی محسوس ہوتی ہے.

والد محترم کی طرح نظریہ اور عقیدہ کے بارے میں واضح اور دوٹوک علمی موقف رکھتے ہیں اور واحد اس معاملے میں کسی لچک کا مظاہرہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے. اس دور میں جب لوگ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سارے پلیٹ فارمز پر اپنا علم اور شخصیت دونوں کی ترویج و اشاعت کرنے میں اپنی صلاحیت صرف کرتے ہیں. اپنے اپنے عقیدے کی مذہبی جماعتوں سے وابستہ ہو کر ہر طرح کے دنیاوی مفادات حاصل کرتے ہیں، آپ ایسی شہرت، نام و نمود کی تمنا سے بے نیاز خاموشی سے قصر ابیض سے متصل ” خواب سرائے“ میں کتابیں لکھتے، دوسروں کی مدد کرتے، اپنے غنا و درویشی کے مخصوص پردوں کے پیچھے گوشہ نشین ہو کر تحقیقی کاموں میں مشغول رہتے ہیں.

اللہ رب العزت نے زبان و بیان اور الفاظ کے درست استعمال میں وہ مہارت عطا کی ہے کہ ہر عنوان اور ہر موضوع پر لفظ ہاتھ باندھے ان کے حضور حاضر ہو جاتے ہیں. تین علمی و تحقیقی کتب (مباحث علوم القرآن، علم اصول سیرت، بیاضِ مناظر) شائع ہو چکی ہیں، جب کہ اور کتب پر کام جاری ہے. چونکہ ایک حساس اور ہمدرد دل کے مالک درد مند انسان ہیں، تو اس درد کا اظہار شاعری کے ذریعے کرتے ہیں، شعری مجموعہ کلام کے ساتھ ساتھ، ایک بہت گہرائی لیے اور دل کو چھوتے احساسات والا کتابچہ ” اللہ میاں کے نام اداس خطوط “ بھی منظر عام پر آ چکا ہے، جس میں لکھا ہر ہر خط اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے مضبوط تعلق کی گواہی دیتا ہے.

علم، عمل، انسانیت، اخلاق و کردار اور حمیت کا ایسا پیکر فی زمانہ نایاب ہے،جو نام و نمود اور شہرت کے تمام ذرائع دستیاب ہونے کے باوجود گوشہ نشین ہو کر تحقیقاتی کاموں کو اپنا ترجیح دے رہے ہیں، کہ جن سے آنے والی نسلیں فیضان پائیں گی.

جب دنیا دار بیرون شہر زبانی امتحانات لینے، مختلف جامعات کے مشاورتی اداروں کی رکنیت حاصل کرنے اور اعلیٰ درجہ کے طلبہ کی تحقیق کی نگرانی کا ذمہ لینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں، یہ سکون سے بیٹھے اپنے ” گوشہء فیض “ سے ضرورت مندوں کو فیضیاب کر رہے ہوتے ہیں.

نہ بیرون شہر امتحانات کے لیے جانے کی خواہش کہ سفر اور رہائش کی مد میں جامعہ سے کچھ اضافی رقم مل جائے اور نہ زیادہ طلبہ کی تحقیق کی نگرانی کی خواہش کہ ہر ایک طالب علم کی نگرانی کے ذیل میں جامعہ اور اعلیٰ تعلیم والے ادارے کی جانب سے اچھی خاصی رقم حاصل ہو. وہ رزق کے پیچھے بھاگنے کے قائل نہیں ہیں اور ضرورت سے زیادہ جمع کرنے کی حرص سے محفوظ ہیں.

ان کی قناعت، شکر گزاری کی عادت اور دنیاوی جاہ و حشمت کی خواہش نہ ہونے نے ان کی شریک حیات اور بچوں کو دورجدید کے فتنوں سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے. اس خواب سرائے کے تمام مکین سربراہ خانہ کی پیروی میں خوابوں کی ایسی حسین راہ گزر کے مسافر ہیں، جہاں دکھاوا، نمود و نمائش اور احساس برتری کی سراب خواہشات کے جھونکے بھی نہیں گزر پاتے.

یہ وہ سچا اور درست راستہ ہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا بتایا ہوا ہے اور خود کو اور اپنے اہلِ خانہ کو آگ سے بچانے کیلئے اس راستے کا انتخاب ہر صاحب ایمان پر کرنا لازم ہے.

وہ ایسے ہی صاحب ایمان ہیں کہ جن کے وقت میں اللہ نے برکت عطا فرمائی ہے، تدریس، تحقیق، رہنمائی، مشاورت جیسے امور کے ساتھ ساتھ رشتوں میں بھی وقت اور توجہ کے فن سے آشنا ہیں. خلوص، نیک نیتی، احساس، خیر خواہی جیسے اوصاف جو ہمارے معاشرے سےغائب ہوتے جا رہے ہیں، وہ ان سب کا پیکر ہیں.

کبھی وہ زمانہء قدیم کا ایسا درویش محسوس ہوتے ہیں جو جنگل میں دیا جلائے مسافروں کو راستہ بھٹکنے سے بچانے کی خدمت پر مامور ہے. وہ درویش جو مخلوق کو خدا کا کنبہ سمجھ کر اس کی رہنمائی اور مدد اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرتے ہیں. ایسی بے غرض اور انعام یافتہ ارواح یقیناً اللہ کی رحمت خاص کے سائے میں ہوتی ہیں اور مخلوق کے لیے ان کاہونا باعثِ رحمت و برکت ہوتا ہے. خواب سرائے سلامت رہے، اس کے مکین ایسے ہی خواب دیکھتے اور بھٹکے ہوؤں کو منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری نبھاتے رہیں.

نوٹ :یہ تحریر چوں کہ ترغیب اور تحریک کے ارادے سے لکھی گئی ہے، پاکستانی معاشرے کے ایک کامیاب فرد کی ہمت، محنت، عزم کی مثال پیش کرنا مقصود تھا، تمام تر مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود جو دوسروں کو خود کو پیش آنے والی مشکلات سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں، اس لیے شناخت ظاہر نہیں کی گئی، کیونکہ ایسے مثالی لوگ اپنی شناخت آپ ہوا کرتے ہیں.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “خواب سرائے کا مکین” جوابات

  1. شیبا ء عر فا ن Avatar
    شیبا ء عر فا ن

    اللہ پاک اس خواب سراۓکو قا ئم و دائم رکھے ۔اور سب کو اپنا فرمانبردار ،حکم بردار بنا لیں۔۔

    1. حفظہ علی.. Avatar
      حفظہ علی..

      Ma sha Allah… Bht umda.. Allah pak is khawb sraye ko slamat rakhy. Ameeeen..

  2. رمشا رضا Avatar
    رمشا رضا

    خوبصورت تحریر ..ایسےاور افراد اگر ہمارے معاشرے کو مل جا ءیں تو اس میں اور نکھار پیدا ہو جا ءے.. اللہ اُن کو بھی اور آپ کو بھی جزاءے خیر عطا کرے.. آمین

  3. روبینہ جنت Avatar
    روبینہ جنت

    اگر ہر انسان اس طرح کامل ایمان رکھے تو معاشرے سے براءی جڑسے ختم ھو جاءے.
    بھت اچھی تحریر ھے.