نجی تعلیمی ادارے کا کلاس روم

نجی تعلیمی اداروں میں استحصال کی راہ ، اساتذہ کیسے روک سکتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کیا پرائیویٹ سکول میں آپ کا بھی استحصال ہورہا ہے؟ سیکھئے ایک خاتون ٹیچر سے جس نے سکول پرنسپل کو قاعدے ضابطے میں رہنا سکھا دیا

سائرہ فاروق :

نجی اسکول اینڈ کالج کے پرنسپل صاحب کی عادت تھی کہ جب دل چاہا خوامخواہ کلاس روم میں داخل ہوجاتے، بنا دستک دیئے۔
ایک دن اسی طرح آنے پر میں نے کہا کہ آپ دستک دے کر کلاس میں آیا کریں۔

میری بات سن کر پرنسپل صاحب نے انتہائی نخوت بھرے لہجے میں مجھے مخاطب کیا :
” مس ! آپ خود کو کیا سمجھتی ہیں؟
کیا آپ جانتی ہیں کہ یہ بلڈنگ جس میں، آپ کھڑی ہیں آپ کا بیڈروم نہیں…..
مجھے مت سکھائیں کہ مجھےکیسے آنا ہے
ہم مزید آپ کے ساتھ نہیں چل سکتے آپ کا استعفیٰ ہماری ٹیبل پر ابھی آ جائے۔ “

میں نے ایگریمنٹ نکالا اور کہا کہ
” ان میں لکھی ہوئی کسی بھی شق کے تحت آپ مجھے نکال نہیں سکتے، جب تک ٹھوس وجہ نہ ہو اور جس وجہ سے آپ مجھ سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں یہ بات اگر کسی جرگے کے سامنے رکھ دی جائے تو یقین جانیں آپ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ “

” رہ گئی بات بلڈنگ کی تو یہ رینٹ پر ہے، اگر میں اس کے مالک کو یہ بات بتا دوں تو بلڈنگ بآسانی خالی کروالیں گے…. “

پرنسپل جا چکے تھے لیکن کالج میں کچھ تنائو تھا مجھ سے دوبارہ استعفیٰ تو نہیں مانگا گیا لیکن معافی نامہ لکھنے کے لئے دباؤ بڑھ رہا تھا ۔

آپ سب کے سامنے بھلے بولڈ ہوں لیکن زندگی میں کوئی ایک ہوتا ہے کہ جس کے سامنے اپنے تمام بیرئر ہٹا کر رونا چاہتے ہیں جہاں آپ یہ نہیں سوچتے کہ یہ کیا سوچے گا؟
میری زندگی میں بادشاہوں جیسا رعب وجلال رکھنے والا جانے کیوں اتنا بے نیاز تھا؟ سو… ضبط ٹوٹ گیا اور میں نے ابا جی کے سامنے ساری بات رکھ دی

وہ پوری خاموشی کے ساتھ سنتے چلے گے…. جوں ہی میں نےکہا
” میں جاب چھوڑ رہی ہوں“ تو وہ انتہائی تیز نظروں سے سے مجھے گھورنے لگے…
” جاب کیوں چھوڑ رہی ہو؟ تم غلط نہیں.. ڈٹ جاؤ! “
یہ وہی انرجی ہے جس کی بدولت میں اب بھی وہیں جاب کر رہی ہوں۔

جاب میری مجبوری نہیں… لیکن یہاں کام کرنے والی ہر لڑکی میری طرح نہیں ہے۔

یہاں کام کرنے والی انتہائی پڑھی لکھی لڑکیاں نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے پر مجبور ہیں کیونکہ سرکاری نوکری نہیں ملتی اور معاشی مجبوری اتنی سخت، کریہہ اور تکلیف دہ ہے جو لڑکیوں کو بولنے نہیں دیتی۔
سات بجے سے لے کر تین بجے تک یہ سروسز مستقل کھڑے ہو کر دی جاتی ہیں آپ کو کلاس روم کے اندر کرسی مہیا نہیں کی جاتی،

شادی شدہ ٹیچرز کو ترجیح نہیں دی جاتی،
رکھ بھی لی جائیں تو وہ بچے نہیں لا سکتیں۔
میڈیکل الاؤنس نہیں دیا جاتا، چھٹی صرف ایک… دو ہوجائیں تو تنخواہ کٹتی ہے۔
بریک میں بچوں پر نگران ڈیوٹی الگ سے لی جاتی ہے گویا آپ ٹیچر کے ساتھ ساتھ ” آیا “ بھی ہیں،
لیکن الگ سے ڈیوٹی کی تنخواہ نہیں۔
چھٹی ٹائم آپ ”چوکیدار“ ہیں جب تک پورا سکول خالی نہیں ہوجاتا، آپ گھر نہیں جا سکتیں۔

جب پرنسپل صاحب فرماتے ہیں کہ کلاس کا رزلٹ اچھا نہیں آیا تو شامت ٹیچرز کی آتی ہے… جب کہ آپ کسی بھی بچے کو فیل کرنے کا اختیار نہیں دیتے
اور پھر آپ بات کرتے ہیں کہ ہم جاب دیتے ہیں آپ بے روزگاروں کو،
تعلیم دیتے ہیں اس قوم کو،

اور ایک ” تم لوگ ہو جو ہمارے خلاف تعصب لکھتے ہو “ ذرا کمنٹس لکھتے ہوئے احتیاط کیجیے نا صاحب۔

یقین کیجیے یہ ہماری انتہائی قیمتی سروسز کے بدلے جو چند ٹکے دے کر آپ ہم پر جو احسان کرتے ہیں اس میں گھر کا راشن بھی پورا نہیں ہوتا،

میل… فی میل کی تعلیم یکساں ہے مگر تنخواہ میل کی زیادہ ہے… کیوں… ؟
یہاں بتانا پسند نہیں کریں گے آپ ….کہنے کو بہت کچھ ہے مگر…..! سماج بہرا ہے! … معذرت کے ساتھ!
بات تو صرف احساس کی ہے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “نجی تعلیمی اداروں میں استحصال کی راہ ، اساتذہ کیسے روک سکتے ہیں؟”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    بہت تکلیف دہ حقائق ہیں۔ استاد اگر مسلسل سٹریس میں ھوں تو بچوں پر اس کا منفی اثر پڑتا ھے، اللہ ھمارے ملک کے نظام تعلیم کو بہتر کرے۔