میڈ ان یو ایس اے

نجات کی راہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

منزہ شاھین :

” کسی شاپنگ سنٹر میں چلے جائیں
دکاندار آپ سے کہےگا:” باجی ! یہ امپورٹڈ سوٹ ہے ، امپورٹڈ کراکری ہے “

” سکول سارے انگلش تعلیم دے رہے ہیں بچوں کو میوزک کی کلاسز اٹینڈ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے “

” یہ کیا ہو رہا ہے آخر اس ملک میں ! کدھر لےجایا جا رہا ہے اس ملک کو ۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ ہی حافظ ہے اس ملک کا ۔۔۔ “

ایک ٹاک شو میں ایک دانشور صاحب زور وشور سے بیان کر رہے تھے ۔ تقریباً ہر چینل پر اکثر اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں، مسائل کا انبار ہے جو بیان کیا جاتا ہے مگر مسائل کی وجہ کوئی نہیں بتاتا، حل کوئی نہیں بتاتا۔کیایہ حقیقت نہیں ہے کہ عوام الناس کی جو ڈیمانڈ ہوتی ہے تاجر وہی پیش کرتے ہیں۔ جب تاجر کو پتہ ہے کہ میرے گاہک نے امپورٹڈ چیزیں ہی مانگنی ہیں تو وہ یہی کہےگا نا ’باجی ! یہ امپورٹڈ ہے‘۔

والدین سکولوں میں انگریزی تعلیم کے ساتھ تھوڑی سی اسلامیات وہ بھی انگلش میں اور تھوڑی سی اردو چاہتے ہیں تو تاجر انہیں میوزک کلاس کا پیکج دے دیتے ہیں، والدین کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کے لئے وہ ایک سے ایک نئی چیز متعارف کرواتے ہیں جسے سٹیٹس کےچکرمیں والدین بھاگ کر لیتے ہیں۔

ایک دفعہ پی ٹی وی پر مشہور رائٹر سید نورکا انٹرویو آرہا تھا میزبان نے ان سے پوچھا:
آپ فلموں ، ڈراموں کے زریعے عوام کو ایجوکیٹ کیوں نہیں کرتے تو وہ بولے کہ ہم عوام کو اینٹرٹین تو کر سکتے ہیں ایجوکیٹ نہیں کیوںکہ جو ڈیمانڈ ہے ہم وہی کر سکتے ہیں۔ اگر تاریخی واسلامی فلمیں بنانے لگے تو ہمارا تو بزنس تباہ ہو جائے گا،
اسی طرح ہر شعبہ میں عوام جو چاہتے ہیں وہی ان کو پیش کیا جاتا ہے۔

اگرچہ عوام کی سوچ کو اور پسند کو اس نہج پر لانے کا ذمّہ دار میڈیا ہے مگر کیا انسانوں کی اپنی کوئی سوچ نہیں؟ خود کو مسلمان کہنے والی عوام کو نہیں پتہ کہ مسلمان کی حدود کیا ہیں ؟ ماں باپ اپنے بچوں کو نمازکی طرف نہیں لگاتے، آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ حقوق اللہ معاف ہو جائیں گے مگر حقوق العباد نہیں اور نہیں سوچتے کہ اللہ کی اطاعت نہ کرنے والے بندوں کے حقوق کیا ادا کریں گے؟

کیا بےتحاشہ نمازیں پڑھنے اور تسبیح کرنے والے ماں باپ کو نظر نہیں آتا کہ ان کی اولاد کیا کررہی ہے؟ ان کے جوان بچے اپنی اولاد کو کیا دے رہے ہیں؟ بچوں کے کھانے پینے اور صحت پڑھائی کا خیال رکھنے والے ماں باپ کو اپنے بچوں کے ایمان کی بالکل فکر نہیں ۔ ارے ! اتنا دین تو سکھا دو اپنے ننھے معصوم فرشتوں کو جتنا ہندو ، سکھ عیسائی اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں ۔

اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے شہزادوں حسن ، حسین کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھنے والے والدين بچوں کو ان کی سیرت ہی بتا دیں ۔ انہیں خود معلوم ہو گا تو وہ بچوں کو بتائیں گے۔ کیا صرف مسلمانوں والے نام رکھ لینے سے بچے مسلمان ہو جائیں گے؟ نہیں اس کے لئے ان کی تربیت کرنی پڑے گی لیکن تربیت کرنے سے پہلے خود انہیں دین کا علم حاصل کرنا پڑے گا۔

والدین سے میری استدعا ہے کہ اپنے ایمان اور اپنی نسلوں کو شیطانی طاقتوں سے بچانے کے لیے اسلام کا دامن تھام لیں، راہ نجات بس ایک ہی ہے اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

7 پر “نجات کی راہ” جوابات

  1. ارم ظہیر Avatar
    ارم ظہیر

    راہ نجات تو کوئی سوچتا ہی نہیں بلکہ صرف دنیا ہی کا سوچا جاتا ہے اس لیے ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے لئے تو دن رات ایک کر دیتے ہیں اور دین کے نام پر صرف قرآن پڑھا کر فرض پورا کرتے ہیں. اللہ ہم پر رحم فرمائے

  2. ارم ظہیر Avatar
    ارم ظہیر

    مختصر اور جامع مضمون ہے. بہت اچھا لکھا ہے

    1. روبینہ شاہین Avatar
      روبینہ شاہین

      بالکل ٹھیک کہا۔۔ ایک دوڑ ہے جو لگی ہوئی

  3. قانتہ رابعہ Avatar
    قانتہ رابعہ

    درد دل بیان کیا ہے اللہ سے اس کے حل کی دعا کرنا۔ چاہییے منزہ نے اچھی نشاندھی کی ہے

  4. عائشہ رفعت Avatar
    عائشہ رفعت

    بہت اچھے انداز سے بیان کیا۔۔۔اللہ ہمارے ایمان اور نسلوں کی حفاظت کریں۔۔آمین

  5. ناھید کوثر Avatar
    ناھید کوثر

    بہت اچھا مضمون ھے اس میں مشترکہ ایسے دکھ کا اظہار ھے کہ جس کا حل سواۓ علم دین کے اور کوٸی نہں ھے لیکن ہماری کوششیں بھی ناکام نظر آرہی ھیں میں تو بہت پریشان ھوں کہ ہمارا کیا بنے گااللہ ہم پر رحم فرماۓ آمین

  6. راشدہ قمر Avatar
    راشدہ قمر

    بہت اچھا مضمون ہے