احسان کوہاٹی، اردوکالم نگار

” ایک بلوچ نوجوان کا شکوہ ‘‘

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

احسان کوہاٹی :

اسلام آباد میں شدید حبس کے بعد چلنے والی ہوا میں ریستوران کے باہر بیٹھنا بھلا لگ رہا تھا میں اپنے دوست کے ساتھ کھانا کھا کر اٹھنے کو تھا کہ تین موٹرسائیکلوں پر چھ نوجوانوں کو آتادیکھ کر میں چونک گیا ،میرے چونکنے کی وجہ ان کا لباس اور لباس میں وہ مخصوص بلوچی گھیر دار شلوار یں تھیں جب انہوں نے موٹرسائیکلیں کھڑی کرکے بلوچی میں بات چیت شروع کی تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں ان کے پاس چلا گیا۔

’’شماچے حال ہے ؟ ‘‘ شستہ بلوچی لہجے میں حال پوچھنے پرپہلے تو وہ حیران ہوئے اور پھر مسکراتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔

’’واجا! خیر جوڑ نِند ناں ‘‘انہوں نے سینے پر ہاتھ کر مسکراتے ہوئے جواب دیااور بیٹھنے کی پیشکش کی ان کے چہرے پر وہی خوشی تھی جو باہر کہیں اچانک کسی ہم زبان کو دیکھ کر ہوتی ہے،

مجھے بلوچی کی معمولی شد بد کراچی میں رپورٹنگ کے دوران ہوئی تھی کراچی میں بلوچوں کی سب سے بڑی آبادی لیاری ہے جہاں ہمیشہ ہی امن و امان کا مسئلہ رہا ہے ۔ بحیثیت کرائم رپورٹر مجھے تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن لیاری جانا پڑتا تھا اورپھر وہاں میرے اچھے دوست بھی تھے اس لئے میں بلوچی کے چند جملے بڑے اچھے لہجے میں بول لیتا ہوں ۔

میں نے ان لڑکوں سے پوچھا کہ کیاآپ لوگ لیاری سے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ وہ لیاری نہیں تربت سے ہیں اور یہاں پڑھنے آئے ہوئے ہیں۔ وہ وہاں چائے پینے آئے تھے۔ انہوں نے میرے لئے بھی چائے منگوالی اور مجھ سے گپ شپ کرنے لگے۔ وہ بتانے لگے کہ اسلام آباد بہت خوبصورت ہے۔ ہم جب یہاں داخلہ لینے آئے توہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہاں بجلی جاتی نہیں ہے، یہاں کچی سڑک نہیں ملتی، پینے کا پانی بہت ہے، یہاں جو سہولتیں ہیں وہ ہم تو خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے ۔

شکوے میں گندھے لفظوں میں اسلام آباد کی تعریف سے ہونے والی گفتگو خود بخود بلوچستان کی بدحالی پر چلی آئی۔ وہ نوجوان کہنے لگے:

” واجا ! یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہماری غربت اور احساس محرومی کیا ہے؟ ہم وہاں کیسے جی رہے ہیں؟ آپ کا کبھی تربت ،خاران ،آواران جانا ہو تو دیکھنا آپ کو کسی بلوچ کا پیٹ لٹکا ہوا نہیں ملے گا ، سب کے پیٹ پسلیوں سے لگے دکھائی دیں گے ۔ جب ہمیں پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی تو ہم پر چربی کہاں سے چڑھے گی ،ہمیں تو پینے کو صاف پانی نہیں ملتا ہم لوگ گدھوں ،موٹر سائیکلوں پر دس دس کلومیٹر دور سے پانی لاتے ہیں ۔

ان بچوں کی بات ٹھیک تھی، شکوہ بجا تھا۔ میں 2008ء اور 2013ء کے زلزلوں کے بعد زیارت اور آواران جاچکا ہوں اور اپنی آنکھوں سے خوددار بلوچوں اور پشتونوں کی غربت دیکھ چکا ہوں۔ زیارت میں زلزلے کے بعد حال یہ تھا کہ ملبے سے نکال کر بارہ گھنٹے بعد پہاڑ سے نیچے اتاری جانے والی زخمی عورت کو یہ کہہ کر کوئٹہ بھیجا جارہا تھا کہ زیارت ڈسٹرکٹ میں ایکسرے مشین نہیں تھی اور جب میں نے کوئٹہ پریس کلب میں امدادی سرگرمیوں کے نگراں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سے اس بابت سوال پوچھا تو انہوں نے تمام کیمروں کے سامنے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا
’’میرے بھائی! ایک صرف زیارت ڈسٹرکٹ کا نہیں پورے بلوچستان کا یہی حال ہے‘‘۔

2013ء کے زلزلے کے بعد ریلیف سرگرمیوں کی رپورٹنگ کے لئے مجھے خشک سنگلاخ پہاڑوں سے گزر کر آواران جانا ہوا اور وہاں جو غربت افلاس دیکھی، گواہی دیتا ہوں کہ ایسی بدحالی پسماندگی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ میں نے بلوچوں کو ناکارہ ٹائروں کی پرتوں سے چپلیں پہنے دیکھا جو ان کے پاؤں چھیل چھیل ڈالتی تھیں لیکن مجبوری تھی کہ وہ نرم چمڑے کی چپل خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یہ اسی افلاس کے میدانوں سے آئے ہوئے نوجوان تھے۔

میں نے جب انہیں بتایا کہ میں بلوچستان میں یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں تو ان کی آنکھوں میں چمک آگئی جیسے ان کو اپنے موقف کی تائید مل گئی ہو۔ ان میں سے ایک کہنے لگا :
بلوچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علیحدگی کی بات کرتے ہیں، فوج سے لڑتے ہیں، میرے کلاس فیلو بھی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہاں ایسی ہی خطرناک صورتحال اوربغاوت ہے؟

میں انہیں کہتا ہوں کہ وہاں ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے بھوک اور برابری کا مسئلہ،یہاں اسلام آباد کے فارم ہاؤسوں اور مری کے ہوٹلوں کے لئے بلوچستان کی سوئی سے نکلنے والی گیس ہے مگر آدھے سے زیادہ بلوچستان میں گیس نہیں ہے ہمارے علاقے سے نکلنے والی گیس ساٹھ سال کے بعد بھی 34 میں سے 14اضلاع تک پہنچ سکی ہے۔

میرے پاس ان کے سوالوں کے جواب نہ تھے ان میں سے سب سے زیادہ بولنے والا نوجوان کہنے لگا:
میں علیحدگی پسندوں کے سخت خلاف ہوں، میں تو آرمی میں کمیشن کے لئے ٹیسٹ بھی دے چکا ہوں، میرے گھٹنے آپس میں ٹکراتے ہیں، اس وجہ سے ان فٹ ہو گیا ورنہ میں اپنے علاقے سے فوج کا پہلا افسر ہوتا۔۔۔

وہ کہنے لگا:
”ہماری بدحالی تباہی میں بڑا ہاتھ ہمارے سرداری نظام کا بھی ہے۔ سارے سردار کراچی کے ڈیفنس سے اپنے اپنے علاقوں میں حکمرانی کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ انہوں نے صرف اپنا پیٹ بھرا ہے لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ اسلام آباد ہی کی مدد سے ان کی سرداری برقرار ہے ۔ وفاق ان کو گرانٹ کیوں دیتا ہے ؟ وہاں ان کو ٹھیکیدار کیوں بنارکھا ہے ؟ بلوچستان میں براہ راست پروجیکٹس کیوں نہیں کرتا ؟ مجھے زیادہ نہیں پتہ وجہ کوئی بھی ہو لیکن سچ یہی ہے کہ بلوچستان میں اب غربت 68 فیصد سے بڑھ چکی ہے یہ کیسے ختم ہوگی ہمیں نہیں پتہ بس اتنا جانتے ہیں کہ ہمارا کوئی حال نہیں،

آپ یقین کرو عام بلوچ کو ان بندوق بردار بی ایل اے والوں سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کا مسئلہ روزگار کا ہے لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ وفاق کی بات کرنے والی ،پاکستان کی بات کرنے والی سیاسی جماعتیں ہمارے ایشوز پر بات بھی تو نہیں کرتیں !

حیات بلوچ کے قتل پر ایف سی والا پکڑا گیا ،یہ بہت اچھا ہوا۔ فوج نے اسے خود پولیس کو دے دیا مگر میرا سوال سیاسی جماعتوں سے ہے انہوں نے حیات کے خون کے لئے کب اور کہاں آواز اٹھائی !ا
س نے یہ کہہ کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں جانے کیوں میں ان نظروں کی تاب نہ لاسکا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “” ایک بلوچ نوجوان کا شکوہ ‘‘”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    یہ تحریر بہت زیادہ تکلیف دہ ھے۔ایسی تحریریں بہت کثرت سے لکھی جانی چاہئیں اور زیادہ سے زیادہ جگہوں پر چھپنی چاہیں ۔