سابق آئی جی شعیب دستگیر، نئے آئی جی انعام غنی

پنجاب : دو برس میں پانچ آئی جی تبدیل، ایڈیشنل آئی جی کا کام کرنے سے انکار

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے دو برسوں کے دوران پانچ آئی جی بدل گئے، ایک ایڈیشنل آئی جی نے نئے آئی جی انعام غنی کو اپنا جونیئر قرار دے کر اس کے ماتحت کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایڈیشنل آئی جی طارق مسعود یاسین نے ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز کو مراسلہ بھجوادیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ انعام غنی جونیئرہیں ان کے ماتحت کام نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ انعام غنی کو شعیب دستگیر کی جگہ آئی جی بنایا گیا ہے۔ شعیب دستگیر کو لاہور کے سی سی پی او سے اختلافات کی وجہ سے تبدیل کیا گیا۔ بعدازاں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے عہدے سے ہٹائے جانے والے شعیب دستگیر کو سیکریٹری نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن تعینات کردیا ۔

ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں یہ ایک حیرت انگیز صورت حال ہے۔ ممکن ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے لئے اسے معمول کا معاملہ سمجھ کر یہی کہہ دیں کہ کوئی بات نہیں، میں اسے ٹھیک کرلوں گا لیکن عمران خان اسے جتنا آسان معاملہ سمجھیں گے ، یہ اسی قدر زیادہ سنگین ہے۔ اس سے ایک بات بہت اچھی طرح سے سمجھ آتی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے قابو میں ابھی تک نہیں آسکے ہیں۔ حقیقت میں ایسے واقعات پنجاب میں ایک برے انداز حکمرانی کا ثبوت ہیں۔

تاہم اس کا دوسرا پہلو زیادہ سنگین ہے، ان واقعات میں ملوث افسران بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کریں گے، اس کا انجام کیا ہوگا، اس کے باوجود وہ ایسا کررہے ہیں تو انھیں ضرور کسی کی پشتی بانی حاصل ہوگی۔ کس کی؟ کوئی ایک نہیں بلکہ ایسے گروہ ہیں جن کی سیاسی چالوں کا عمران خان کی ٹیم کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ وہ چال چلتے ہیں، اور مسکراتے رہتے ہیں، ہنستے رہتے ہیں، قہقہے لگاتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کی حکومت سوچتی رہ جاتی ہے کہ اس کے کیا ہو رہاہے ؟

پنجاب میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر معروف تجزیہ نگار سلیم صافی نے ایک دلچسپ تبصرہ کیا:
” قصور ان کا نہیں ، ان لوگوں کا ہے جو ان کی تبدیلی کا اصل مطلب نہیں سمجھے تھے۔ ان کی تبدیلی سے مراد یہی تھی کہ ہر روز افسر تبدیل ہوں گے ، ہر ہفتے وزیر تبدیل ہوں گے اور ہر مہینے دوست اور دشمن تبدیل ہوں گے ۔ تبدیل نہیں ہوں گے تو خود نہیں ہوں گے ۔ “

اس صورت حال پر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ صوبہ ایک ضابطے اور قانون کے تحت چلتا ہے۔ دنیا کا نظام چلتا رہتا ہے، کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے، نئے آئی جی کی اولین ترجیح صوبے میں امن و امان کا قیام ہونا چاہیے۔

وزیر اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم کسی آفیسر کو کسی عہدے پر لگائیں اور کوئی آکر کہہ دے کہ اس کو نہ لگائیں، اس سے پہلے جن آئی جیز کے ساتھ کام کیا ان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے۔

واضح رہے کہ یہ رپورٹس آئی تھیں کہ شعیب دستگیر نے ان کی مشاورت کے بغیر عمر بن شیخ کو حال ہی میں لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) کے تقرر پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تحت کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ساتھ ہی انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ان کے کسی ‘مناسب جگہ’ پر تبادلہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا، آئی جی پی کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی گئی تھی کہ سی سی پی او نے مبینہ طور پر اپنے عہدے پر آنے کے بعد چند پولیس اہلکاروں سے گفتگو کے دوران چند تبصرے کیے تھے۔

اس پیش رفت سے متعلق معلومات رکھنے والے ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ شعیب دستگیر نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی اور ان سے ‘کسی اور مناسب جگہ پر تبادلہ’ کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ وہ سی سی پی او کی برطرفی تک صوبائی پولیس چیف کے عہدے پر نہیں رہیں گے۔

یہ بھی کہا جارہا تھا کہ وہ پیر کے روز دفتر سے غیر حاضر رہے تھے اور وزیر اعلیٰ سے وردی کے بجائے سادہ کپڑوں میں ملاقات کی تھی جس سے پنجاب حکومت کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ عمر بن شیخ کو کسی قیمت پر سی سی پی او کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ سی سی پی او کے تبصرے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے آئی جی پی مشتعل ہوئے، وہ اپنے دفتر میں چند پولیس افسران سے گفتگو کے دوران ان کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں تھے۔

جیسے ہی یہ بات شعیب دستگیر تک پہنچی تو انہوں نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور وزیر اعظم عمران خان سے شکایت کی اور سی سی پی او کے تبادلے کا مطالبہ کیا تھا جسے انہوں نے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں لاہور واپسی پر آئی جی پی نے سی سی پی او کے تبادلے تک کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا ہے کہ ” پانچ نہیں، اگر 500 آئی جی بھی تبدیل کرنا پڑے تو کریں گے۔ موجودہ حکومت میں جو کام نہیں کرتا، اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ “

ان کا کہنا تھا کہ ” پچھلی حکومتوں میں لوگ ذاتی کام کرتے تھے، اسی لیے پانچ سال پورے کر لیتے تھے۔ تاہم ہماری حکومت میں کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے۔ جو پرفارم نہیں کرتا، اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ “


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں