اہانت رسول کے خلاف لندن ، برطانیہ میں احتجاج

شان رسالت میں گستاخی کی سزا کا مسئلہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمیرا غزل :

وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کی تعریف دو جہان میں کی گئی ،وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنھوں نے حلیمہ سعدیہ کو سیراب کیا، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو بچپن میں بھی شرم و حیا کا پیکر تھے،وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو صادق اور امین تھے، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے پاس ان لوگوں کی بھی امانتیں تھیں جو ایمان نہیں لائے تھے، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے لعاب دہن سے سانپ کے کاٹے کا اثر جاتا رہا،وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو حرا کے مکین تھے، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن پر آسمان والے بھی درود و سلام بھیجتے ہیں، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کی گواہی کوہ فاران کی چوٹیوں نے دی۔

وہ اس وقت آئے جب عرب میں جہل کا راج تھا
جب بت پرستی کا راج تھا
جب پانی پینے پلانے پر جھگڑا تھا
جب گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا تھا
جب ذرا سی بات پر تکرار ہوجاتی اور تلواریں نکل آتیں
جب بیٹیاں زندہ درگور کردی جاتی تھیں
جب لڑائیاں قبیلہ در قبیلہ جاری رہتی تھیں

وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیوں آئے؟
انھیں کاشانہ نبوت سے سرفراز کیوں کیا گیا؟
اس لیے کہ اللہ رب العالمین کو رحم آگیا تھا
رب نے چاہا کہ انسان کو انسان کی غلامی سے نکالا جائے
خدائے واحد کی بندگی کی طرف بلایا جائے

سو کاشانہ نبوت کے فیضان سے اس جہل کو جس کی تاریکیاں عرب کے پار پہنچ رہی تھیں روشنی کا منبع بنا دیا گیا۔
اب دریائے صافی سے سیراب ہوں گے
پہلے وہ جن کے دل پہلے ہی مصفی ہیں،جن کے لیے حق تعالی سچائی کو جاننا آسان کر چکے ہیں۔

خدیجہ رضی اللہ عنہ تسلیم کرتی ہیں
ابو بکر رضی اللہ عنہ آداب بجا لاتے ہیں
علی رضی اللہ عنہ تو مانے ہوئے ہیں
زید تو پلے بڑھے اسی آغوش محبت میں ہیں کہ جن کے دامن میں صدق کے پھول ہیں۔
جن کی آنکھوں میں امین ہونے کی چمک واضح نظر آتی ہے۔
جن کے لبوں پر فکر کی وہ پیاس ہے جس نے حرا کو ان کا مسکن بنایا۔
آج حرا بھی نازاں ہے۔

لوگ ایمان لا تے جا رہے ہیں کہ ایسے میں ایمان کی افزونی کا باعث بدر کے معجزات بنتے ہیں۔
اور اسی راہ رو سے ہوتے ہوئے وہ دن بھی آتا ہے کہ جب اسلام کوہ فاران کی چوٹیوں سے نکلتا ہے اور دنیا کی عظیم ترین تہذیب بنتا ہے۔

مگر آج کا منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ!

اکتوبر 2001 سے مسلسل شان رسالت میں گستاخی کا فعل قبیح جاری ہے ہیں ، ڈنمارک کے یہودی اخبار ” جیلنڈر پوسٹن “ نے جس کا آغاز کیا۔

ڈنمارک، ہالینڈ، فرانس ، اٹلی ، جرمنی اور دیگر کافر ممالک کی یکجہتی نے تو جو کیا سو کیا ساتھ ہی انڈیا کے شہر بنگلور میں بھی اس فتنے نے سر اٹھایا۔

پاکستان میں بھی شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف حکومت کوئی ڈھنگ کا فیصلہ نہ کر سکی سو ممتاز قادر اور غازی خالد جیسے لوگ کام آئے۔

اب ایک بار پھر چارلی ایبڈو نے شیطانی وار کیا ہے ، جس کے مدیر نے سن 2012 میں امریکی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ فرانس کے قوانین کے تحت رہتے ہیں نہ کہ قرآن کے قوانین کے تحت‘ایسا اس نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر آزادی کے حق کو استعمال کرنے کے لیے کہا ۔ نعوذ باللہ ا

ب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آزادی رائے کا حق استعمال کرنے کے لیے ساری دنیا کے کافروں کو ہم مسلمان اور ہمارے مقدسات ہی کیوں ملتے ہیں؟
انسانی حقوق کے نام پر مذہب اور عقائد کے خلاف بولنے کی آزادی مانگنے والی تنظیمیں درحقیقت صرف اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بولنے کی آزادی مانگ رہی ہیں۔

دراصل آج پوری اسلامی امہ ایمان کے مقیاس الحرارت پر ہے جس پر اس طرح کی خسیس حرکتوں کو پیش کر کے ہمیں آزمایا جاتا ہے کہ اب ہم کتنا بولتے ہیں، کتنا چپ رہتے ہیں ،کتنا درد ہمارے سینے میں جاگتا ہے؟

مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں نے ہر بار یہ دکھایا ہے کہ ہم وہ فاکہ کش ہیں جو موت کے خوف سے نہیں ڈرتے اور شان رسالت پر اپنا تن من دھن سب لٹا سکتے ہیں۔ کافر یہ دیکھ کر پریشان ہیں کہ!
کہیں کہیں تعصب ہے، کہیں تنگ نظری ہے، کہیں لسانیت ہے مگر ان کے بچھائے ہوئے جال اور تہذیبی یلغار کے باوجود بھی شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کٹ مرنے کے لیے وہ بھی تیار ہیں

جو اپنے بشرے کے اعتبار سے مغربی لگتے ہیں،وہ بھی تیار ہیں جن کے سروں پر ٹوپی ہے،وہ بھی تیار ہیں جن کی جینز گھٹنے کی طرف سے پھٹی ہوئی ہے ، ان بچیوں کو بھی بہت شدید غصہ آیا ہے جو با حجاب ہیں مگر وہ آنکھیں بھی انگار ہیں جو جینز پر کرتا پہن کر نکلتی ہیں،

دل ان کے بھی فگار ہیں جو باب کٹ بال لیے ہیں، حلیے مشرقی یا مغربی ہیں، زبان نستعلیق یا ایں اوں آں ہے مگر سب کے دل ایک ہی مرکز محبت پر جمع ہیں، ایلیٹ بھی ، متوسط بھی، نچلے درجے کے غریب بھی، اہل تشیع بھی، اہل حدیث بھی، دیو بندی بھی، بریلوی بھی ۔ سوائے ان کے جن کے دلوں میں ایمان نہیں ہے۔

اور اسی بات سے یہ آج تک حیران پریشان ہیں کہ اتنی تفریق کے باوجود یہاں آکر سب متحد کیسے ہوجاتے ہیں اسی کو جانچنے کے لیے یہ ہر کچھ عرصے بعد گستاخیاں کر کے ہمیں ایمان کے مقیاس الحرارت پر پرکھتے ہیں اور ہر بار جان لیتے ہیں کہ ہماری جان ہتھیلی پر ہے،ہم آخری اسٹیج پر ہیں، اپنی ناکامی پر تلملا کر رہ جاتے ہیں۔

آج جب کہ دنیا عظیم تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے اورسابق امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کیسنجر کا کہنا ہےکہ دنیا کے حکمرانوں کو کورونا وائرس کے بعد کے نئے ورلڈ آرڈر کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ دوسری طرف 2020ء اسرائیل اور یہودیوں کی طرف سے نیوورلڈ آرڈر کا سال بتایا گیا ہے۔

جس نیو ورلڈ آرڈر کے لیے ہم مسلمان آج تک نشانہ بھی بناتے جارہے ہیں اور آزمائے بھی جاتے رہے ہیں، ایسے میں ایک بار پھر بہت ساری موجودہ تبدیلیوں کے ساتھ مستقبل کی تبدیلیوں کی پیشن گوئیوں اور عالمی و علاقائی سازشوں کے پیچ میں ہمیں ایک بار پھر آزمایا گیا ہے جو ہمارے لیے فکر کا مقام ہے سونے اور غفلت میں پڑے رہنے کا مقام نہیں ہے بلکہ شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخوں کو دی جانے والی سزائوں کو اپنے دل و دماغ میں زندہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے جن میں سے چند مثالیں یہاں میں دیتی چلوں کہ !

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ابو داؤد اور نسائی کی حدیث ہے !
جب ایک صحابی نے اپنے دو لعل و جواہر جیسے خوبصورت بچوں کی ماں (کنیز؍ اُمِّ ولد) کو اس کے نبیﷺ کو گالیاں دینے کی وجہ سے قتل کردیا تھا ، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا:
” خبردار ہوجائو اور گواہ بن جاؤ کہ اس کا خون ضائع و رائیگاں گیا ہے۔ “

اسی طرح بخاری و مسلم میں کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا مشہور واقعہ ہے !
یہ مدینہ منورہ میں رہتا تھا اور ذمّی و معاہد تھا۔ نبیﷺ کی ہجو اور مسلمان عورتوں کے بارے میں بدتمیزیاں کرکے نبیﷺاور مسلمانوں کو اذیت پہنچایا کرتا تھا۔ اس کے اس جرم کی بنا پر نبیﷺ نے اس کے قتل کا باقاعدہ حکم فرمایا تھا۔

سیرت نگار اور سوانح نگار مشہور واقعہ بیان کرتے ہیں !

نبی اکرم ﷺ نے عبد اللہ بن خطل کی دو گویّا کنیزوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایاتھا جو کہ نبیﷺ کی ہجو میں لکھے ہوئے ابن خطل کے شعر گایا کرتی تھیں ، ان میں سے ایک کا نام فرتنیٰ اور دوسری کا نام قرینہ یا ارنب تھا۔ اور ان میں سے ایک کو قتل کردیا گیا جبکہ فرتنیٰ ایمان لے آئی اور اسے امان دے دی گئی اور وہ عہدِ حضرت عثمان رضہ تک زندہ رہی۔

میرے آقا، ملجا و ماویٰ، غریبوں کے والی ، یتیموں کے مولی سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی سزائیں غور سے اور تفصیل سے پڑھیے اور ہر طرح کی رو رعایت ان شیطانوں کے لیے دل سے نکال کر یہ جان لیجیے کہ
ان سب کی سزا صرف موت ہے، صرف موت۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں