سید ابوالاعلیٰ مودودی ، بانی جماعت اسلامی

وہ سحرجس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے یوم وفات 22 ستمبر پر جانیے سید مودودی کون تھے؟

حمادیہ صفدر :

اس کائنات کےاندرآج تک جوبھی پیغامِ حق لےکرلوگوں کےسامنےپیش ہوا،اس کےنتیجےمیں کم ہی لوگ ایسےہوئے جنھوں نےاس کی دعوت کوقبول کیا اورسچ مانا۔ لوگوں کی کثیرتعداد اس کی مخالفت پراُترآئی۔
یہاں تک کہ جب اللہ کےآخری پیغمبرجنابِ محمدﷺبھی حق لےکرلوگوں کےسامنےآئے تو ان ﷺ کی بھی مخالفت ہی کی گئی اورآپ ﷺ کوظلم وستم سےدوچارکیاگیا۔

اسی طرح جس نے بھی دینِ اسلام کی سربلندی کیلیےقدم اُٹھایا، اس کو دکھوں اورتکلیفوں سےدوچارکیا گیا۔
انھی قائدین ومجتھدین میں سیدابوالاعلٰی مودودی کانام بھی قندیلِ روشن کی مانندچمک رہاہے کہ انھوں نےاسلام کی سربلندی کیلیےجس بھی پلیٹ فارم پر لوگوں کومدعوکیا توان کوبھی ایسےہی مصائب وتکالیف میں مبتلاکیاگیا۔

سیدابوالاعلٰی مودودیؒ (1979۔1903) مشہورعالمِ دین ، مفسرقرآن اورجماعتِ اسلامی کےبانی تھے۔ بیسویں صدی کےمؤثرترین اسلامی مفسرین میں سےایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور تصانیف نے پوری دنیاکی اسلامی تحریکات کےارتقاء میں گہرا اثر ڈالا۔ وہ یسویں صدی کے مجددِ اسلام ثابت ہوئے۔ سید مودودیؒ وہ دوسری شخصیت ہیں جن کی غائبانہ نمازِ جنازہ کعبہ میں اداکی گئی تھی۔

اسلام کی دنیا بھرمیں موجودہ پذیرائی سیدمودودیؒ اورشیخ حسن البنّا کی فکرہی کانتیجہ ہے جنھوں نےعثمانی خلافت کےبعد نہ صرف اسے یاد رکھا بلکہ اسےخانقاہوں سےنکال کرعوامی پذیرائی بخشی۔

سیدمودودی ؒ کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردارتھا۔ پاکستانی حکومت نےانھیں قادیانی گروہ کوغیرمسلم قراردینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پرعالمی دباؤ کے باعث عمل درآمد نہیں ہوا۔

سیدصاحب کوان کی دینی خدمات کےپیشِ نظر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن کی تفسیر ” تفہیم القرآن “ کےنام سے مشہور ہے اور جدید دور میں سب سے زیادہ عام فہم سمجھی جانے والی تفاسیر میں شمارہوتی ہے۔

سیدمودودیؒ 1903ء میں بمطابق 1321 میں اورنگ آباد دکن میں پیداہوئے۔ آپ کےآباؤاجداد ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے شاگرد رہے۔ سید مودودیؒ کا خاندان انھی خواجہ مودود چشتی کے نام سےمشہور ہوکر” مودود“ کہلایا۔

سیدمودودی ؒ کا گھرانہ مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ سید مودودی ؒ نے بچپن کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں گھرپرہی تعلیم حاصل کرنے میں گزارے۔ بعدازاں انھیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں داخل کیاگیا۔

1914ءمیں مولوی کا امتحان پاس کیا اورکامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین حیدرآباد منتقل ہوچکےتھے جہاں سیدمودودی ؒ کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایاگیا۔

چونکہ سیدمودودی ؒ کے پاس خداداد صلاحیتیں تھیں جن میں ’ کتابت ‘ بھی بہت اہمیت کی حامل تھی اس لیے انھوں نے جماعتی نظام کوسنبھالنے کے ساتھ ساتھ قلم کے ذریعے اپنے خیالات لوگوں تک پہنچائے۔ اس سلسلےمیں سید مودودیؒ نے متعدد اخبارات میں مدیرکی حیثیت سےکام کیا جن میں باالنجور۔اترپردیش۔تاج جبل پوراورجمیعت علمائے ہند کا روزنامہ ” الجمیعت “ دہلی خصوصی طورپرشامل ہیں ۔

1925ء میں جب جمیعت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا توسیدمودودیؒ نےاخبار’ الجمیعہ ‘ کی ادارت چھوڑدی۔

مولانامودودیؒ نےسب سے پہلے تصنیف کیلیےاس زمانہ میں قلم اٹھایا جب وہ ’ الجمیعہ ‘ کے مدیرتھے۔ ایک شخص سوامی شردھا نےایک تحریک شروع کی جس کامقصد تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اورتعصب پرتھی اوراس نےاپنی ایک کتاب میں آنحضرت ﷺ کی توہین کی جس پرنوجوان ’علم الدین ‘ نےغیرتِ ایمانی میں آکراس شخص کوقتل کردیا۔

اس پرپورے ہندوستان میں ایک شوربرپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام کے مجتھدین پر حملے کرنے لگے اور اعلانیہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلواراور تشدد کا مذہب ہے۔ انھی دنوں میں مولانا محمدعلی جوہرنے ’جامع مسجد دہلی ‘ میں تقریرکی جس میں انھوں نےبڑی دردمندانہ اپیل کی کوئی شخص مسئلہ جہادِ کی پوری وضاحت کردے تاکہ غلط فہمیوں کا کام تمام ہوتب مولانا مودودیؒ نےایک کتاب الجہادفی الاسلام ‘ کےنام سے لکھی۔ اس وقت سید صاحب کی عمر24برس تھی۔

علامہ اقبالؒ نے بذاتِ خود اس کتاب کامطالعہ کیا اوراس کےمتعلق فرمایا:
” اسلام کےنظریہءِ جہاد اوراس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہرذی علم شخص کومشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کامطالعہ کرے۔

جب مولانا نےادارت ’ الجمیعہ ‘ کوخیرباد کہا تو آپ ؒ حیدرآباد دکن چلے گۓ۔ اپنے قیام کےزمانہ میں مختلف کتابیں لکھیں اور1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ جاری کیا۔

1935ء میں آپؒ نے ’ پردہ ‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کامقصد یورپ سے مرعوب ہوکراسلامی پردے پر کیے جانے والےاعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کےعلاوہ تنقیحات اورتفہیمات کےمضامین لکھےجن کےذریعےانھوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔

علامہ اقبالؒ بذاتِ خود مولانا مودودی ؒ کی تحاریر و تصانیف کوپسند کرتے تھے ، خود بھی مطالعہ کرتےاورعوام الناس کونصیحت کرتے کہ ان کتب کامطالعہ کیاجائے تو جو لوگ پڑھنے لکھنے کی صلاحیت سےمحروم تھے، وہ اقبال کی سفارش کواتنا اہم سمجھتے ہیں کہ اوقات مقررکرکے پڑھے لکھے لوگوں سے وہ کتب پڑھوا کر سنتے تھے۔

علامہ اقبالؒ سید مودودیؒ کی جدوجہد کو بہت پسند کرتے تھے اور اقبالؒ نے مولانا کے متعلق اپنی شاعری میں یوں فرمایا :

وہ سحرجس سےلرزتا ہےشبستانِ وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا

سیدمودودیؒ نے ’ ترجمان القرآن ‘ کےذریعے ایک پابندِ اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اورترجمان القرآن میں مضامین بھی شائع کیے ۔ جولوگ اس تجویزسے اتفاق رکھتےتھے، وہ 26اگست1941ء کولاہورمیں جمع ہوئے اور جماعتِ اسلامی کے قیام کےمتعلق گفتگوکی گئی ۔

جماعتِ اسلامی کے قیام کے وقت اس میں 75 آدمی شامل ہوئے۔ اس اجتماع میں سیدمودودی ؒ کوجماعت کا سربراہ منتخب کیا گیا۔

جولوگ دین سےالفت اورلگن کاتعلق قائم کرتے وہ اس دین کی سرفرازی بھی چاہتے ہیں مگرافسوس کی بات ہےکہ جس قدرلوگ اپنےمشن سےمحبت کرتےہیں اسی قدرلوگ ان کی کششوں اورکاوشوں کوپسندکرنےکےساتھ ساتھ لوگوں کی اکثریت ان کی مخالف بھی ہوتی ہے۔

تقسیمِ ہندکےبعد جب سید مودودیؒ پاکستان آئے توقائداعظم جہانِ فانی کوالوداعی سلام کرگۓتھےتواگلےہی ماہ یعنی اکتوبرمیں سیدمودودیؒ نےاسلامی نظام کےنفاذ کا مطالبہ کیا، آپ کےاس مطالبہ پرآپ ؒ کوگرفتارکرلیا گیا۔معاذاللہ۔

آپؒ کوقادیانیوں کاپاکستان میں رہناپسندنہ تھا توآپ نےایک کتاب ’ قادیانی مسئلہ‘ کےنام سےلکھی اس میں آپؒ نے قادیانیوں کی سازشوں سے پردہ اٹھایا اوران کوغیرمسلم قراردیا۔

اس خدمت کوایک عظیم جرم قراردے کرآپؒ کودوبارہ گرفتارکیا گیا۔ اورسزائے موت سنائی گئی۔ پھرسزائے موت کو14ماہ قیدمیں بدل دیاگیا۔تاہم آپؒ 2سال اور11ماہ تک زندان میں رہےاور بالآخرعدالتِ عالیہ کےایک حکم کےتحت رہا ہوئے۔

قابلِ رشک بات یہ ہے کہ مولاناؒ نےزندان کی سلاخوں میں بھی وقت کوقیمتی قراردیا اور ’ تفہیم القرآن ‘ کی خدمت حالتِ قید میں انجام دی ۔

ایوب خان کےدور میں جماعتِ اسلامی پر پابندی عائد ہوئی ۔1972ءمیں آپ ؒ کی مشہورتفسیر ” تفہیم القرآن “ مکمل ہوئی ۔

اسی برس میں آپ شدیدضعیفی اورعلالت کی وجہ سےجماعت کی امارت سےدستبردارہوگئے اور27 مئی 1979ء کوآپ اپنےعلاج کیلیےامریکہ روانہ ہوئے جہاں 22ستمبر1979ء کوآپ ؒ کاانتقال ہوا۔ 25ستمبر1979ء کو آپ ذیلدارپارک اچھرہ لاہور میں سپردِ خاک ہوئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “وہ سحرجس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود”

  1. حمادیہ صفدر Avatar
    حمادیہ صفدر

    بہت اچھا