رضوان رانا، اردوکالم نگار

زندگی کی شام

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رضوان رانا :

صبح کی ہر سانس کے ساتھ ایک دن کی زندگی ایک نیا جنم لیتی ہے اور دن کا ہر غروب ہونے والا سورج اس گزرے دن کی موت بن کر روز کی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح ڈوبتا سورج ہر رات کو پیدا کرتا ہے اور اگلے دن کی پہلی کرن روز رات کا وجود ختم کردیتی ہے۔

ذات باری تعالیٰ ہی بہتر علم رکھتی ہے کہ اس کائنات میں یہ زندگی اور موت کا سفر کب شروع ہوا اور نہ جانے کب ہمیشہ کے لیے اس کائنات کے وجود کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔ دنیا میں آنکھ کھولنے والا ہر ذی روح بھی پیدا ہوتا ہی مرنے کے لیے ہے چاہےاس کی وہ زندگی چند لمحے کے لیے ہو یا سوسال کے لیے مگر یہ طے ہے کہ اس نے مرنا ضرور ہے۔

میری نظروں سے گزرنے والی یہ تحریر مشہور فیشن ڈیزائنر اور مصنف ” کرسڈا روڈریگز “ نے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے انتقال سے پہلے لکھی تھی ، اس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کردیا تا کہ ہم سب یاد رکھیں اور سمجھ لیں جو شائد اپنی روزمرہ زندگی میں مصروف ہیں، ہم سب اپنے روز گزرتے دن اور رات کی موت سے بے خبر اپنی زندگی کے معاملات میں ڈوبے ہوئے ہیں، اپنی سانسوں اور اپنی دھڑکن کی شام کو بھولے ہوئے ہیں، اپنے انجام کی طرف تیزی سے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔

ہسپتال کے بستر پر پڑھی کرسڈا لکھتی ہیں کہ
لوگو !
میرے پاس اپنے گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگے برانڈ کی کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔

میرا گھر ہر طرح کے ڈیزائنڈ کپڑے ، جوتے اور قیمتی سامان سے بھرا ہوا ہے لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی گاؤن میں لپیٹا ہوا ہے۔

اور بینک میں کافی رقم ہے لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے جبکہ میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر میں پڑی ہوں۔

یہ بھی سمجھ لو کہ میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جاسکتی ہوں لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔

ہائے ! وہ وقت جو گزر گیا ، جب میں نے سینکڑوں لوگوں کو آٹوگراف دیئے تھے، آج ڈاکٹر کا نوٹ میرا آٹوگراف ہے۔

میرے بالوں کو سجانے کے لئے میرے پاس سات بیوٹیشین تھیں، آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے جبکہ میں اپنے نجی جیٹ پر ، جہاں چاہتی ہوں اڑ سکتی ہوں لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لئے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔

گھر اور میرے پاس اگرچہ بہت ساری کھانوں کی مقدار موجود ہے ، لیکن میری خوراک دن میں دو گولیاں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہے۔

یہ گھر ، یہ کار ، یہ جیٹ ، یہ فرنیچر ، بہت سارے بینک اکاؤنٹس ، اتنی ساکھ اور شہرت ، ان میں سے کوئی بھی میرے کام نہیں ہے۔ اس میں سے کوئی بھی مجھے کوئی راحت نہیں دے سکتی۔

اور ان لائنز کو لکھنے کے بعد کرسڈا نے وہ بات لکھ دی جو اس کالم کے ذریعے میں آپ سب تک پہچانا چاہتا ہوں اور یہ وہ بات ہے جو کامیابیوں اور خوشیوں بھری زندگی گزارتے ہوئے ہم سب بھول جاتے ہیں کہ
دوسرے لوگوں کو راحت پہنچانا ، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا اور ان کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنا ہی اصل زندگی ہے ۔

جبکہ۔۔۔۔
ہماری اس عارضی اور انتہائی مختصر زندگی میں
موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے۔
تو پھر غرور اور تکبر کس بات کا ؟
تو پھر انا اور اکڑ کس کام کی؟
تو پھر غصہ اور نفرت کیوں ؟
تو پھر تیزیاں اور چالاکیاں کس کے لیے ؟

اپنے لیے تو سب جیتے ہیں مگر کوشش کریں اپنی زندگی اور اپنوں کی خوشیوں کے علاوہ کبھی کسی دوسرے کے لیے بھی جی کر دیکھیں ۔

بہت سارے لوگ نہیں تو جتنا ہوسکے دوسروں کی مدد کرتے رہیں ۔
چاہے وہ مال سے ہو یا علم سے
چاہے وہ وقت سے ہو محبت سے
اور چاہے وہ ساتھ سے ہو یا سہارے سے
نہ جانے کب ہماری زندگی کی شام ہو جائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں