خوبصورت بچی

اپنے بچوں کے ساتھ والدین کے متضاد رویے کیوں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی:

” باجی! یہ پیاری سی بچی کون ہے؟ “ بریرہ نے باجی سے سیاہ آنکھوں، گندمی رنگت اور براؤن گھنگھریالے بالوں والی بچی کے بارے میں دریافت کیا۔

” اس بچی کا نام مروہ ہے اور وہ سامنے والی ہمسائیوں کی بچی ہے جو چند ماہ پہلے بھی یہاں شفٹ ہوئے ہیں۔ بچی کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو اللہ تعالی نے بے تحاشہ حسن و جمال اور مال و دولت سے نوازا ہوا ہے۔ “ باجی نے بتایا۔

بریرہ کو موسم گرما کی چھٹیوں میں اپنی بڑی بہن کے گھر اسلام آباد ایک ہفتے کے لیے جانے اور وہاں رہنے کا موقع ملا۔ پہلے دن شام کو وہ باجی سے محو گفتگو تھی تو اس نے دو اڑھائی سالہ بچی کو بے تکلفی سے گھر کے اندر آتے ہوئے دیکھا۔

تیکھے نقوش کی حامل نازک سی گڑیا کھلے دروازے سے اندر داخل ہو کر بلاجھجک کچن کی طرف چلی گئی جہاں چھوٹی میز پر ہاٹ پاٹ رکھا ہوا تھا۔ بریرہ کی نظروں نے اس کا تعاقب کیا، اس نے ہاٹ پاٹ کا ڈھکن اٹھا کر اندر سے روٹی کا ایک ٹکڑا توڑا اور کھاتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئی۔ یہ بے حد معصومانہ حرکت تھی۔ بریرہ کو اس پر بے ساختہ پیار آگیا۔

چند منٹ بعد مروہ دوبارہ اندر آئی۔ اب اس نے بریرہ کے ایک سالہ بھانجے کا فیڈر اٹھایا اور باہر چلی گئی۔

” جائیں بیٹے! مروہ سے پیار سے فیڈر واپس لے کر آئیں۔ بیشتر اس کے بلال مروہ کے ہاتھ میں اپنا فیڈر دیکھ لے اور رونا شروع کر دے۔“ باجی نے بڑے بیٹے کو مروہ کے پیچھے فیڈر لینے بھیجا۔

” میرا خیال تھا کہ جس طرح چھوٹے بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر فیڈر کو اپنا ہی سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کے پاس فیڈر برداشت نہیں کرتے۔ اسی طرح مروہ بھی بلال کے فیڈر کو اپنا سمجھ کر لے گئی ہو گی۔“ بریرہ نے باجی کے سامنے اظہار خیال کیا۔ باجی نے تکلم کے بجائے تبسم کیا۔

” دیکھتی رہیں۔ خود ہی معلوم ہو جائے گا۔“ باجی نے کہا۔
اب کچھ دیر بعد جب مروہ دوبارہ اندر آئی تو اس دفعہ اس نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑی بسکٹ کی پلیٹ میں سے تین چار بسکٹ اٹھائے اور چلی گئی۔

بریرہ کو حیرت تب ہوئی جب اس نے مروہ کو یہ حرکتیں بار بار کرتے دیکھا۔
مروہ بار بار باجی کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ جب باجی نے مروہ کو پیار کرکے گود میں اٹھایا تو بلال نے فوراً رونا پیٹنا اور شور مچانا شروع کر دیا۔

باجی نے ایک دو منٹ بعد مروہ کو گود سے اتار دیا اور جلدی سے کچن سے فیڈر بنا کر لے آئیں۔ ننھے بلال کو اپنی گود میں لٹایا اور بسم اللہ پڑھ کر فیڈر اس کے منہ میں ڈال دیا۔ بچہ ماں کی گود میں سکون سے دودھ پینے لگا۔ ننھی مروہ غور سے باجی اور بلال کو دیکھ رہی تھی۔

اس کی آنکھوں میں جیسے حسرت تھی۔ معصوم بچی ماں بیٹے کی محبت دیکھ کر دلی جذبات چھپا نہیں پا رہی تھی۔

” مروہ! میرے پاس آؤ۔ “ بریرہ نے مروہ کو پیار سے اپنے پاس بلایا تو وہ فوراً اس کے پاس آ گئی اور اس کی گود میں بے تکلفی سے چڑھ گئی۔ مروہ باجی کی مجبوری سمجھتی تھی۔

” باجی! مروہ کا آپ کے گھر ہر وقت آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن میں نے اس کے کسی بہن بھائی یا ماں باپ کو اس کے پیچھے آتے، اسے کسی بات سے روکتے ٹوکتے یا پیار سے سمجھاتے یا خیال کرتے نہیں دیکھا؟ “ ایک دو دن بعد بریرہ نے باجی سے استفسار کیا۔

” مروہ کے ماں باپ اور باقی گھروالے جن میں اس کے دادا دادی، بہن بھائی، پھوپھیاں، اور چچا بھی شامل ہیں، اس کی اچھی دیکھ بھال نہیں کرتے، اس کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتے۔ اس سے پیار بھی نہیں کرتے۔ اس کے بوڑھے اور ضعیف دادا دادی کے علاوہ ان کی گھریلو جزوقتی ملازمہ اس کا خیال رکھتی ہے۔ وہ جب کام کرنے کے لیے آتی ہے تو وہی مروہ کو نہلاتی دھلاتی، کپڑے تبدیل کرواتی اور باتھ روم لے کر جاتی ہے۔

” اسی نے اسے اچھی طرح ٹائلٹ ٹریننگ دی ہوئی ہے۔ ماں کی مار کے ڈر لیکن ملازمہ کے پیار سے سکھانے کی وجہ سے وہ باتھ روم کا مسئلہ نہیں بناتی بلکہ باتھ روم جانے کا بتا دیتی ہے۔ کھانا وہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر خود ہی کچھ کھاتی، کچھ گراتی اور باقی مار کھاتی ہے۔ “

” اور بعض دفعہ تو اس کے اہل خاندان دیگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ننھی منی پچی کو مارتے بھی ہیں۔“ باجی نے تاسف کے انداز میں بتایا۔

” کیوں؟ اتنی چھوٹی سی بچی کو گھر والوں سے کیوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مار پڑتی ہے؟ “ اس نے حیرانگی سے سوال کیا۔

” دراصل وہ اسے نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مروہ ان کے گھر کے دیگر افراد کی طرح خوبصورت نہیں ہے۔“ باجی نے بتایا۔

اس بات پر بریرہ کو بے حد حیرانی ہوئی۔ ساتھ ہی افسوس نے بھی آگھیرا۔ کیونکہ مروہ ماشاءاللہ بہت پیاری بچی تھی اور اسے گڑیا جیسی لگتی تھی۔
کچھ دیر بعد ایک خاتون کسی کام سے باجی کے پاس آئیں اور ان کے پاس بیٹھ کر حال احوال پوچھنے کے بعد گفتگو کرنے لگیں۔

” یہ مروہ کی والدہ ہیں۔ “ باجی نے بریرہ کو ان سے متعارف کروایا۔
” جی باجی! انہیں دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ مروہ کی والدہ ہیں کیونکہ مروہ بالکل اپنی ماں کی کاپی ہے۔“ بریرہ بولی۔

”نہیں مروہ میرے جیسی تو نہیں ہے بلکہ وہ تو اپنے کسی بہن بھائی سے بھی نہیں ملتی۔“ ماں نے جیسے تڑپ کر کہا۔
باجی نےاسے چپکے سے اشارہ کیا اور وہ خاموش ہوگئی۔

” ماں بیٹی کا صرف رنگ کا فرق ہے۔ ماں کا رنگ بے حد سرخ و سفید ہے جبکہ مروہ کا رنگ کھلتا ہوا گندمی ہے۔“ مروہ کی والدہ کے جانے کے بعد بریرہ نے باجی سے کہا ۔
” اسی گندمی رنگ نے اس کی ماں کے دل میں یہ یقین پختہ کر رکھا ہے کہ وہ ان کے باقی بچوں کی طرح سرخ و سفید اور خوبصورت نہیں ہے۔“باجی نے جواب دیا۔

"باجی! مروہ کا آپ کے گھر بہت آنا جاناہے۔ دن میں کتنی بار اپنے گھر کے گیٹ سے نکل کر وہ بھاگتی ہوئی آپ کے گھر بغیر کسی خوف اور ڈر کے داخل ہو جاتی ہے۔“ بریرہ نے باجی سے کہا

” کیونکہ یہاں اس سے محبت کرنے والے اور اس کا خیال رکھنے والے موجود ہیں اور بچہ غصہ اور پیار دونوں کو بہت اچھے طریقے سے پہچانتا ہے۔“ باجی نے جواب دیا۔

” محبت کی متلاشی مروہ مجھ سے بھی اتنی جلدی مانوس ہو گئی ہے کہ جہاں مجھے دیکھتی ہے، لپک کر میری گود میں آ جاتی ہے۔ حتیٰ کہ میرے پاس سو بھی جاتی ہے۔ مجھے تو یہ بلال کی طرح پیاری لگتی ہے۔ اسے محبت کی کتنی ضرورت ہے!“ بریرہ نے کہا۔

” جی ہاں! دراصل میں چھوٹے بچے بلال کی وجہ سے مروہ کو ہر وقت اٹھا نہیں سکتی کیونکہ پھر بلال رونے لگ جاتا ہے اور مجھے مروہ کو گود سے اتار کر بلال کو گود میں اٹھانا پڑتا ہے۔ آپ کا یہ مسئلہ نہیں ہے. اس لیے وہ آپ کی گود میں زیادہ دیر تک بیٹھی، آپ سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی اور خوش رہتی ہے۔“ باجی نے جواب میں کہا۔

” مروہ کی عادات و حرکات کتنی پیاری، معصومانہ اور دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے والی ہیں۔ بالکل بلال کی طرح۔“ بریرہ نے کہا۔

” خصوصاً اس کی یہ حرکت تو میرا دل کھینچ لیتی ہے کہ جب بھی وہ گھر سے آتی ہے، سیدھی کچن میں جاکر ہاٹ پاٹ میں سے روٹی کا ٹکڑا نکال کر کھانے لگتی ہے۔ چھوٹی سی بچی کو ابھی پوری طرح باتیں بھی کرنا نہیں آتی لیکن وہ پیار و محبت کے رویوں کو بخوبی محسوس کرتی ہے۔“ بریرہ نے کہا۔

” مروہ کے اہل خانہ میں سے صرف اس کے دادا دادی اس کا خیال رکھتے ہیں لیکن بڑھاپے اور ضعیفی کی وجہ سے وہ اس بھاگنے دوڑنے والی عمر کی بچی کے پیچھے ہر وقت بھاگ نہیں سکتے۔ تاہم وہ مروہ کے والدین خصوصاً والدہ کو حسبِ موقع وقتاً فوقتاً سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن بہو صاحبہ ساس سسر کی اس بات کو بھی دیگر باتوں کی طرح نظر انداز کر دیتی تھیں۔“باجی نے مزید بتایا۔

” مروہ گھر سے نکل کر جہاں اور جس وقت مرضی نکل جائے، دادا دادی کے سوا کسی اور کو اس کی پروا اور دلچسپی نہیں ہوتی۔ “ بریرہ نے باجی سے کہا۔ انہیں اس بات پر حیرت کے ساتھ بےحد پریشانی اور افسوس ہوتا تھا۔

” مروہ چھوٹی سی بچی اور لڑکی ذات ہے۔ اس کے ماں باپ کو اس کی بھی نگرانی اور احتیاط کرنی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بردہ فروش اور دیگر جرائم پیشہ لوگ موجود ہوتے ہیں جو بچوں کو اغوا کرنے کی تاک میں رہتے ہیں اور خدا نخواستہ اگر کوئی اتفاقی حادثہ ہو جائے تو حادثہ تو پھر ایک دفعہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کا رونا اور افسوس ساری زندگی رہتا ہے۔“ بریرہ نے باجی سے نہایت افسوس سے کہا۔

” بعض اوقات رات کو سوتے وقت میرا بڑا بیٹا سوئی ہوئی مروہ کو اس کے گھر چھوڑ کر آتا ہے۔“ باجی نے بتایا۔
اس کے والدین اور باقی افراد خانہ کی اس کی طرف سے اتنی لا پرواہی اور بے حسی والا رویہ دیکھ کر بریرہ اور باجی دونوں کو حیرانگی اور تاسف ہوتا تھا۔

” میں نے جب بھی اس کی والدہ یا پھوپھیوں کو اس کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے ناگواری محسوس کی۔ مگر اپنا رویہ پھر بھی درست نہ کیا۔“ باجی نے بتایا۔
” اگر کوئی ہمسائی خاتون انہیں مروہ کے ساتھ ان کے اس رویے کی طرف توجہ دلائیں تو آگے سے وہ لڑ پڑتی ہیں اور کہتی ہیں کہ
مروہ ہماری بچی ہے۔ ہم اس کا خیال رکھتے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیوں بات کر رہی ہیں؟ آپ کو پرائے معاملات میں دخل اندازی کی کیا ضرورت ہے؟“ باجی نے بتایا۔

ایک ہفتے کے بعد بریرہ اسلام آباد سے لاہور واپس آ گئی مگر یہ واقعہ اس کے ذہن سے محو نہیں ہوا۔ اسے بہت حیرانی اور افسوس ہوتا ہے کہ والدین اپنی سگی اولاد کے ساتھ ایسا رویہ کیوں کر روا رکھ سکتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” یہ پیاری سی بچی کون ہے؟“ بریرہ نے فروا آپی سے استفسار کیا
وہ آنٹی کے گھر آئی ہوئی تھی جہاں چند بچیاں آنٹی کی بڑی بیٹی آپی فروا کے پاس ٹیوشن پڑھنے بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہاں اس نے ایک نمایاں، خوبصورت اور نک سک سے تیار بچی کو آپی کے پاس ٹیوشن پڑھتے دیکھا تو آپی سے پوچھا۔

” اس بچی کا نام ساریہ ہے اور یہ سامنے والی ہمسائی آنٹی عابدہ کی بیٹی ہے۔ اس کی ایک سالہ بڑی بہن فاریہ بھی میرے پاس ٹیوشن پڑھتی ہے۔“ فروا آپی نے ایک اور بچی کی طرف اشارہ کر کے بتایا۔

بریرہ نے دونوں بہنوں ساریہ اور فاریہ کو بغور دیکھا جو شکل و صورت میں تو ایک دوسرے سے ملتی تھیں لیکن دونوں کی رنگت میں بہت نمایاں فرق تھا۔ دونوں بہنوں میں عمر کے لحاظ سے تھوڑا فرق دکھائی دے رہا تھا۔

” ساریہ کا رنگ نہایت سرخ و سفید ہے اور وہ اچھے قد کاٹھ اور اچھی شخصیت کی مالک دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ فاریہ کا رنگ سانولا ہے اور وہ دبلی پتلی سی ہے۔ لیکن وہ پڑھائی میں بہت ذہین اور بہت تیز ہے۔ عموماً کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کرتی ہے۔ جبکہ ساریہ پڑھائی میں نہایت نکمی ثابت ہو رہی ہے۔ مشکل سے پاسنگ نمبر حاصل کرتی ہے“ فروا آپی نے ساریہ اور فاریہ دونوں کی طرف باری باری اشارہ کرکے ان کا تعارف کروایا۔

” یہ پیاری سی بچی تو باتیں کرنے، اپنے ہوم ورک کی طرف توجہ نہ کرنے اور دوسرے کاموں کی طرف دھیان لگانے کی وجہ سے بار بار ڈانٹ کھا رہی ہے۔“ بریرہ نے آپی فروا سے پوچھا۔

” جی ہاں! اس کا سارا زور ابھی سے اپنے کپڑوں، اپنے پرسنیلٹی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ پر ہوتا ہے اور پڑھائی کی طرف وہ کوئی دھیان اور توجہ نہیں دیتی۔ اس کے گھر والے بھی اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے پریشان اور تنگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہوا ہے۔ اسے پڑھائی کی کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔“ فروا آپی نے ساریہ کے گھر والوں کے اس کے بارے میں خیالات بریرہ کے گوش گزار کیے۔

” اچھا!!! “ بریرہ نے لمبی سی اچھا کی۔

” فاریہ ذمہ داری سے ہوم ورک مکمل کر کے اپنا سبق زبانی یاد کرکے مجھے سنا بھی چکی ہے۔ اب یہ اپنی مرضی سے ڈرائنگ اور کلرنگ کر رہی ہے۔ جبکہ ساریہ کا ابھی پہلا ہوم ورک بھی مکمل نہیں ہوا۔ ساریہ نے ابھی تک جتنا کام کیا ہے، اس میں بھی غلطیوں کی بھرمار ہے۔ کیونکہ وہ لاپروائی اور بے توجہی سے کام کرتی ہے۔“ فروا آپی نے بتایا۔

” ماشاءاللہ۔ بہت خوب!!! “ بریرہ نے دل سے فاریہ کی حوصلہ افزائی کی۔
” فاریہ کو اس کی ذہانت کی وجہ سے گھر والے بہت اہمیت دیتے ہیں بلکہ انہوں نے اسے بہت سر چڑھا رکھا ہے۔ گھر میں ماں کے ساتھ بھی وہ حسب توفیق گھریلو امور میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گھر والوں کی غیر ضروری ستائش کی وجہ سے وہ اپنی مرضی کی مالک بن چکی ہے اور جو اس کے جی میں آئے، وہی کرتی ہے۔“ آپی فروا نے بتایا۔

” ساریہ کے ساتھ اس کے گھر والے کیسا رویہ رکھتے ہیں؟“ بریرہ نے پوچھا۔
” گھر والے ساریہ کو اہمیت نہیں دیتے، اسے پیار نہیں کرتے بلکہ اسے صرف ڈانٹ پڑتی رہتی ہے کہ وہ اپنے کپڑوں اور فیشن کی طرف توجہ کرتی ہے اور پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کرتی۔“ آپی فروا نے بتایا۔

” عام طور پر والدین خوبصورت بچوں کو زیادہ پیار کرتے ہیں اور نسبتاً کم خوب صورت بچوں کی طرف ان کی توجہ کم ہوتی ہے۔“ بریرہ نے حیرت سے پوچھا۔
” لیکن یہ معاملہ یہاں پر الٹ ثابت ہو رہا ہے۔
فاریہ کے والدین کو فاریہ سے تو بہت امیدیں ہیں کہ وہ ان کا نام روشن کرے گی۔ جبکہ ساریہ سے انہیں کوئی توقع نہیں۔ اور وہ اس بات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔“ فروا آپی نے تاسف سے مزید بتایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” جو ماں باپ اپنے بچوں کو ابتدا سے ہی کم صورت، کند ذہن سمجھ کر یا کسی اور وجہ سے نظر انداز کرتے ہیں جس میں ان معصوموں کا کوئی قصور نہیں ہوتا یا پھر والدین چوتھے ،پانچویں بچےکو غیر مطلوب (un wanted) بچہ قرار دے کر اس کی طرف سے مجرمانہ کوتاہی برتتے ہیں اور پھر یہ کوتاہی ساری عمر چلتی ہی جاتی ہے تو ان کے بچے اگر نفسیاتی کیس بن جائیں تو اس میں قصور کس کا ہوگا ؟“ بریرہ کی والدہ نے سارا واقعہ سن کر اہم ترین نکتہ اٹھایا۔

” یقیناً بچے کے ماں باپ ذمہ دار ہوں گے۔“ بریرہ نے بے ساختہ جواب دیا۔
” بچے کی عمر کے ابتدائی چار پانچ سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ میڈیکل سائنس کے مطابق ساڑھے تین سال کی عمر تک بچے کی 70 فی صد سے 75 فیصد تک ذہنی نشوونما ہوچکی ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچے کو جو سکھا دیا جاتا ہے، اس کے صاف سلیٹ جیسے ذہن پر وہ انمٹ نقوش چھوڑ دیتا ہے۔“ اس کی والدہ نے مزید بتایا۔

” جی ہاں۔ بچپن میں سیکھا گیا علم پتھر پر لکیر ہوتا ہے۔“ بریرہ نے عربی زبان کے مقولہ کا مفہوم بیان کیا۔
” یعنی والدین کی ابتدائی تعلیم و تربیت یا تو بچّے کا مستقبل سنوار دیتی ہے یا برباد کر دیتی ہے۔ جنت کے پھولوں کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے سب سے پہلا ذریعہ والدین ہوتے ہیں۔“ بڑی باجی نے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا۔

” اگر والدین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اپنے فرائض سے بطریق احسن سبکدوش ہوں تو کل کو بچے کی شخصیت کھجور کے درخت کی مانند پروقار اور مضبوط ہوگی۔ جو سدا بہار ہوتا ہے، جس کا تنا اور شاخیں مظبوط اور ہر موسم کی نرمی اور گرمی سہنے کی برداشت رکھتی ہیں ۔جس کی جڑیں زمین کے اندر اتنی پھیلی ہوتی ہیں جتنا کہ وہ درخت زمین کے اوپر فضا میں لہرا رہا ہوتا ہے۔ جو سدا ثمر آور رہتا ہے اور جس کا تذکرہ اللہ تعالی نے حدیث میں کرکے ایک بندۂ مومن کے لیے اسے مثال بنا دیا ہے۔ تاکہ وہ معاشرے میں کھجور کے درخت کی مانند اپنا کردار ادا کرسکے اورعوام الناس کے لئے نافع ہو۔“امی جان نے سمجھ داری اور بڑی مہارت سے والدین کی ذمہ داریوں اور فرائض کو اجاگر کیا۔

” امی جان! آپ نے کھجور کے درخت کی مثال سے مسلمان بچے کی تعلیم و تربیت کی اہمیت خوب واضح کر دی ہے۔“ بریرہ نے بے ساختہ کہا جسے یہ مثال نہایت پسند آئی تھی۔
” گویا والدین ابتداء سے بچے کی صحیح تربیت کریں گے۔ اس کے ساتھ محبت بھرا، مشفقانہ اور مثبت رویہ رکھیں گے، اس پر بھر پور توجہ دیں گے۔ جہاں نرمی و گرمی کی ضرورت ہوگی، وہ بھی کریں گے۔ تو ایسا بچہ ہی آنے والے کل کا ایک کامیاب انسان ہوگا۔ ورنہ اس کی ناکامی اور بربادی کے بنیاد بھی اس کے والدین کے ہاتھوں ہی رکھی جائے گی۔“امی جان نے مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہا۔

” اللہ تعالیٰ تمام مسلمان والدین کو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنادے۔“امی جان نے کہا۔
”آمین ثم آمین “ سب نے صدق دل سے کہا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “اپنے بچوں کے ساتھ والدین کے متضاد رویے کیوں؟” جوابات

  1. مہوش زاہد Avatar
    مہوش زاہد

    بہت عمدہ پیرائے میں ہمارے معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی نشاندہی کی گئی ہے۔بچوں میں رنگ کی بنیاد پہ فرق۔لڑکے اور لڑکی کا فرق اور اسی حساب سے رویوں میں لاپرواہی بڑھتی جا رہی ہے اور ایسے بچے ہی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔

  2. SA Avatar
    SA

    بالکل صحیح بات ہے۔کئی والدین اپنے بچوں کو پیار دے ہی نہیں پاتے کیونکہ ان کے ذہنوں میں جو توقعات ان بچوں سے وابستہ ہیں، وہ بچے ان پر پورا نہیں اترتے۔