جنگل میں گرا ہوا درخت

میرے بیٹے! میرے مرنے کے بعد آپ میرے لیے کیا کریں گے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

” امی جان ! میں ابو جان کے ساتھ جنازے میں شرکت کے لیے جارہا ہوں۔ مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد قریبی جنازگاہ میں جنازہ پڑھایا جائے گا۔ واپسی میں دیر ہو جائے گی۔آپ پریشان نہ ہوں۔ “ طہورا کے بڑے بیٹے عبداللہ نے نماز کے لیے جاتے ہوئے بتایا۔

کچھ دیر بعد وہ جنازے میں شرکت کرکے گھر واپس آیا اور اس نے اپنی والدہ کو جنازہ کے حال احوال بتائے۔
” ایک بات بتائیں بیٹا! جب میں فوت ہو جاؤں گی تو آپ تب میرے لیے کیا کریں گے؟ “ طہورا نے اس سے سوال پوچھا۔
وہ اس غیر متوقع سوال پر پہلے تو بڑا پریشان ہوا اور کچھ نہ بول سکا۔ پھر جب طہورا نے اس سے دوبارہ پوچھا تو اس نے کچھ حوصلہ کیا۔

” میں آپ کے لیے بہت زیادہ دعائیں کروں گا۔ پھر میں نمازِ جنازہ کے بعد آپ کو قبرستان میں سپردِ خاک کردوں گا۔ پھر میں آپ کی قبر پر دعائیں مانگوں گا کہ
” یااللہ! میری امی جان کو بخش دیں۔ ان کے گناہ معاف فرما دیں۔ ‘ پھر میں گھر واپس آ کر بھی دعائیں کرتا رہوں گا۔“ عبداللہ ہمت جمع کرکے بولا

” میں بھی آپ کے لیے بہت زیادہ دعائیں کروں گی اور صدقہ بھی کروں گی۔“ اس کی چھوٹی بیٹی انفال بھی گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہنے لگی جو ساری باتیں سن رہی تھی۔ وہ دراصل اپنی طرف سے عبداللہ کی مشکل آسان کر رہی تھی۔

” آپ میرے لیے کون کون سی دعائیں مانگیں گے؟ “ طہورا نے عبداللہ سے پوچھا
” میں آپ کی مغفرت کے لیے اس موقع پر پڑھی جانے والی تمام قرآنی اور مسنون دعائیں مانگا کروں گا جو ابھی بھی مجھے زبانی یاد ہیں۔“ وہ کہنے لگا۔
” مجھے نمازِ جنازہ میں پڑھنے والی دعائیں سنائیں۔“ طہورا نے اسے کہا۔
” شاباش بیٹے! آپ نے دعائیں بہت اچھی طرح یاد کی ہوئی ہیں۔ ماشاء اللہ۔“ عبداللہ نے کئی دعائیں فر فر سنادیں تو طہورا کو خوشی ہوئی۔

” ان دعاؤں کے علاوہ یہ مزید مسنون دعائیں بھی میت کی مغفرت کے لیے پڑھی جاتی ہیں۔“ طھورا نے اسے مزید چند دعائیں بتاتے ہوئے کہا۔
” بیٹا! آپ مجھے نماز جنازہ کی ادائیگی کا مسنون طریقہ بتائیں۔“ طہورا نے اگلا سوال پوچھا۔ عبداللہ نے جلدی سے اشارے کرتے ہوئےصحیح طریقہ بتادیا۔

” شاباش بیٹے! آپ کے ابو جان اور قاری صاحب نے آپ کو نماز جنازہ کی ادائیگی کا مسنون طریقہ سکھا دیا ہے۔ اور اس میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی چھوٹی عمر میں یاد کروا دی ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے؟“
” نہیں امی جان! آپ بتا دیں۔“ عبداللہ نے فرمانبرداری سے کہا۔

” تاکہ اگر آپ کو کل کسی کا جنازہ پڑھانا پڑے تو آپ کو مسنون طریقہ سے جنازہ پڑھانا بھی آتا ہو اور اس میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی یاد ہوں۔ ایک مسلمان لڑکے کو چھوٹی عمر سے ہی نماز جنازہ کی ادائیگی کا طریقہ آنا چاہیے اور اس میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی یاد ہونی چاہییں۔“ طہورا نے وجہ بتائی۔

” میرے بیٹے! میری وصیت ہے کہ میں جب فوت ہوجاؤں تو میری نماز جنازہ آپ کے ابو جان پڑھائیں اور اگر وہ کسی بھی وجہ سے میرا جنازہ نہ پڑھا سکیں تو پھر آپ نے میرا جنازہ پڑھانا ہے۔“ طہورا نے عبداللہ کو زور دےکر کہا۔

” ٹھیک ہے۔ میں آپ کی وفات پر ابو جان کی عدم موجودگی کی صورت میں خود آپ کی نمازِ جنازہ پڑھاؤں گا۔“ معصوم بچے نے اس بھاری ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے اقرار کرلیا۔

طہورا کے دوسرے بچے اور پھر کچھ دیر بعد اس کے شوہر بھی آکر اس مجلس میں شریک ہوگئے۔ بچے بھی مختلف سوالات پوچھنے لگے اور ان کی گفتگو نے مکالمہ سے بڑھ کر گروپ ڈسکشن اور پھر باقاعدہ محفل کی شکل اختیار کرلی جس سے فوتگی کے موقع پر معاشرتی رسوم و رواج کے حوالے سے بچوں کے ذہنوں میں موجود تصورات کافی حد تک واضح ہوگئے۔

” امی جان! میں آپ کے لیے صدقہ بھی کروں گا۔“ عبداللہ مزید کہنے لگا
” بہت اچھی بات ہے لیکن آپ میرے لیے کس طرح صدقہ کریں گے؟“ طہورا نے سوال کیا
” میں بریانی کی دیگیں پکواؤں گا اور مٹن قورمہ کی دیگ بھی پکواؤں گا، ساتھ بازار سے روغنی نان یا خمیری روٹیاں منگواؤں گا۔اور گھر میں اس موقع پر موجود لوگوں کو کھلاؤں گا۔“ عبداللہ نے جواب دیا۔

” کیا آپ لوگوں کو دعوت کھلائیں گے؟“ طہورا نے حیرت سے پوچھا
” سب لوگ بھی تو فوتگی کے موقع پر اسی طرح گھر میں موجود لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ کبھی چکن بریانی کھلاتے ہیں اور کبھی نان قورمہ۔ تو میں اپنی پیاری والدہ کی وفات کے موقع پر دونوں چیزیں پکوا کر کھلاؤں گا۔“ عبداللہ بڑے پیار سے کہنے لگا۔ گویا وہ اپنی طرف سے فوتگی کے موقع پر خصوصی اہتمام کرنا چاہتا تھا۔

” آپ اتنا اہتمام کس لیے کریں گے؟“ طہورا نے پوچھا
” تاکہ سب کو پتہ چل جائے کہ مجھے اپنی امی جان سے کتنی محبت ہے۔“ عبداللہ جواباً کہنے لگا
” اللہ تعالیٰ کو پوشیدہ صدقہ اعلانیہ صدقہ سے زیادہ پسند ہے۔ نیز کھانا پکا کر کھلانا بھی اگرچہ صدقہ کی ایک صورت ہے تاہم کسی غریب یا مسکین کی ضروریات کے مطابق پیسے دے کر یا راشن وغیرہ خرید کر اسے دینا اور اس کی ضروریات کو پورا کرنا زیادہ بہتر ہے۔“ طہورا نے اسے بتایا۔

” اور وفات کے موقع پر سب کو یہ دعوت کھلانا تو صدقہ کا مناسب استعمال نہیں ہے۔ کیونکہ اس موقع پر امیر و غریب مقامی اور مسافر لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ اور سب لوگ صدقہ کے حقدار نہیں ہوتے۔“ ابو جان نے بھی بتایا۔

” اس کے علاوہ فوتگی والے گھر سے اہل خانہ کے علاوہ صرف دور سے آئے ہوئے لوگوں کے لیے کھانا کھانا جائز ہے۔ اسی شہر اور محلے کے لوگوں کے لیے فوتگی والے گھر سے کھانا کھانا جائز نہیں۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ
” فوتگی والے گھر سے کھانا کھانا بدترین کھانا ہے۔“

نہ صرف شہر اور محلے والے غیر مستحق لوگوں کے لیے یہ کھانا کھانا ناجائز ہے بلکہ کھلانے والوں کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ سب کے لیے کھانے کا بندوست کریں اور انہیں خود کھلائیں۔

اسی طرح اہل خانہ کے لیے بھی یہ بڑا تکلیف دہ معاملہ ہوتا ہے کہ وہ کھانے کا انتظام کرنے والوں کے ساتھ شامل ہو کر مہمانوں کو کھانا کھلائیں۔“ طہورا نے تفصیل سے بچوں کو سمجھایا جو غور سے گفتگو سن رہے تھے۔

” یہ بڑی ظالمانہ رسم ہوتی ہےکہ اہل خانہ جو میت کی وفات کے غم سے دوچار ہوتے ہیں، ان کی غم گساری کرنے اور میت کے تجہیز و تکفین میں ان کی مدد کرنے کی بجائے اسی روز انہیں مہمانوں کو کھانا کھلانے کے بندوبست جیسی آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے۔“ ابو جان نے بھی مزید سمجھایا۔

” کسی عزیز کی موت ایک بڑا سانحہ ہوتی ہے۔ یہ اہل میت کے لیے بڑا مشکل اور تکلیف دہ موقع ہوتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس موقع پر مروجہ غیر مسنون رسم و رواج اسے مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔“ طہورا نے بتایا۔

” لوگ میت کے گھر والوں اور مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام کیوں کرتے ہیں؟ وہ لوگ اپنے لیے خود کیوں نہیں پکاتے جس طرح وہ عام دنوں میں پکاتے ہیں؟“ چھوٹے بیٹے عبد الرحمٰن نے سوال پوچھا۔

” فوتگی کی صورت میں اہلِ میت کے دل غمزدہ اور پریشان ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کا اخلاقی فریضہ ہے کہ ان کی دل جوئی کرتے ہوئے ان کے لیے کھانے کا اہتمام کریں۔ ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی ہے اور ان کی سنت مبارکہ بھی۔ میں آپ کو چند احادیث سناتا ہوں۔“ اس کے والد نے کہا۔

سنن ترمذی میں بیان ہوا ہے کہ
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر لوگوں کو ہدایت دی تھی کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے لیے کھانا بنایا جائے۔“(سنن ترمذی: 998)

صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت میں آتا ہے کہ
” جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے غم جھلک رہا تھا ۔ اس موقع پر آپ ؐ نے فرمایا کہ
” جعفر کے اہل خانہ کے گھر کھانا بھیجو کیونکہ سارا گھر صدمے سے نڈھال ہے۔“ (صحیح بخاری و صحیح مسلم:)
عبداللہ کے والد نے احادیث کے ذریعے واضح کیا۔

” موت انسان کو غم ناک کر دیتی ہے خواہ وہ طویل عرصے کی بیماری کے بعد کی موت ہو یا اچانک اور حادثاتی موت ہو۔ اور عموماً گھر والے موت کی خبر سن کر غم سے نڈھال ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے۔ اس لیے ان کی غم گساری اور دل جوئی کے لیے ان کے اور دور سے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنے کا حکم ہے۔“ طہورا نے بتایا۔

” کیا فوتگی والے گھر میں اہل خانہ کے لیے خود کھانا پکانا گناہ ہے؟ بلکہ فوتگی والے گھر میں لوگ تو آگ بھی نہیں جلاتے کہ تین دن تک اہل میت کے لیے گھر میں آگ جلا کر کھانا پکانا جائز نہیں ہے۔ “ عبداللہ مزید پوچھنے لگا۔

” میرے ایک دوست کے دادا ابو کی وفات پر اس کی دادی اماں کے لیے کھانے کے علاوہ تین چار اوقات میں چائے ہمسایے کے گھر سے بن کر آتی تھی۔
” آپ لوگ چائے گھر میں کیوں نہیں بناتے؟“ تب میں نے اس سے پوچھا تھا۔

” سب لوگ کہتے ہیں کہ فوتگی والے گھر میں تین دن کے لیے چولہا جلانا جائز نہیں ہوتا۔ میری دادی اماں نے دوائی لینی ہوتی ہے۔ اس لیے ہمسایے چائے بنا کر بھیج دیتے ہیں۔“ میرے دوست نے تب یہ جواب دیا تھا۔

” کیا یہ بات درست ہے؟“ عبداللہ نے ابو جان سے پوچھا۔

” فوتگی کی صورت میں اہلِ میت کے ہمسایوں اور قریبی رشتہ داروں کا اخلاقی فریضہ ہے کہ ان کے لیے کھانے کا بندوست کریں، لیکن خود اہلِ میت کے لیے بوقت ضرورت گھر میں چولہا جلانے، کھانا پکانے یا چائے وغیرہ بنانے کی ممانعت نہیں ہے۔ چھوٹے بچوں والے گھروں میں بچوں کے فیڈر بنانا یا دودھ گرم کرنا، بزرگوں کے لیے کسی پرہیزی کھانے کا اہتمام کرنا، یا کھانا گرم کرنا اہم مسائل ہوتے ہیں جن کے لیے بھی چولہا جلانا پڑتا ہے۔

غرض ایسی کوئی مسنون روایت نہیں بیان ہوئی جس میں اہلِ میت کو کھانا بنانے یا فوتگی والے گھر میں تین دن تک چولہا نہ جلانے کا حکم دیا گیا ہو۔ اگر اہلِ میت کے پڑوسی یا رشتہ دار ان کے لیے کھانا نہیں بناتے تو میت والے گھر میں حسبِ ضرورت چولہا جلایا بھی جاسکتا ہے اور کھانا اور چائے وغیرہ بھی بنائی جاسکتی ہے۔“ ابو جان نے اسے تفصیل سے جواب دیا۔

” غم کے اس موقع پر خوشی کے موقع کی طرح باضابطہ کھانے کا دستر خوان سجانا منع ہے۔ کیونکہ خوشی اور غمی کے مواقع میں فرق ہوتا ہے اور ان کے اظہار میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح ان مواقع پر کھانے میں بھی فرق ہونا چاہیے۔“ طہورا نے بتایا۔

طھورا اور اس کے شوہر بچوں کے سامنے اس مائنڈ سیٹ کو بھی بیان کرنا چاہتے تھے جو آج کل ان دنیا داروں میں عموماً پایا جاتا ہے جو غیر شرعی رسوم و رواج اور معاملات کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ اور شریعت کے احکامات کی پیروی میں افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔

” پھر ہمارے معاشرے میں فوتگی والے گھر میں کھانے کے وقت اتنے زیادہ لوگ کیوں موجود ہوتے ہیں؟“ عبد الرحمٰن پوچھنے لگا ۔
” ان میں سے معاشرے کے اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں فوتگی کے موقع کے مذہبی احکامات کا صحیح طور پر پتہ نہیں ہوتا۔ وہ معاشرے کے رسم و رواج کی پیروی کرتے ہیں۔اور انہی کو مذہبی احکامات سمجھتے ہیں۔ “ طہورا نے بتایا۔

” بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس موقع پر اہل میت کو کھانا دیا ہے تو ہم اور ہماری برادری ہی کھانا کھا رہی ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔“ ابو جان نے ایک اور وجہ بتائی۔

” کیا اہل میت اور ان کے دور کے مہمانوں کو کھانا کھلانا صرف سسرالی رشتہ داروں کی ذمہ داری ہوتی ہے؟“ عبد الرحمٰن نے ایک اور بڑا نازک سوال کیا۔

” عموماً اہل میت کے کھانے کو میت کے سسرالی عزیزوں کی ایک لازمی ذمہ داری بنادیا جاتا ہے۔ یہ غلط رویہ ہے اور صحیح رویہ یہ ہے کہ جو بھی رشتہ دار یا ہمسائے صاحبِ حیثیت ہوں، انھیں چاہیے کہ وہ اس کھانے کو اپنی ایک اخلاقی ذمہ داری سمجھ کر قبول کریں۔ سسرال والوں پر بوجھ ڈالتے ہوئے اسے ان کے لیے لازم کر دینا صرف غیر مناسب ہی نہیں بلکہ انتہائی غیر اخلاقی حرکت بھی ہے۔“ ابو جان نے اس نامناسب رسم کو واضح کیا۔

” ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر خاندان یا برادری والوں نے انتقال کے متوقع و غیر متوقع مواقع کے لیے پہلے سے کوئی ” برادری فنڈنگ“ وغیرہ کی ہوئی ہو تو اسے بھی کھانے کے لیے اجتماعی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔“ طہورا نے ایک طریقہ بتایا جو بعض برادریوں میں رائج ہوتا ہے۔

” امی جان! اس موقع پر لوگ مزید کون کون سے رسم و رواج کرتے ہیں؟“ انفال نے پوچھا۔
” وفات کے بعد لوگوں کا تیجاں، ساتواں، دسواں، چالیسواں وغیرہ کرنا اور ہر سال بعد برسی منانا اور ان دنوں میں مختلف رسوم و رواج کرنا بشمول مختلف پڑھائیوں کے جن میں قل، آیت کریمہ، قرآن خوانی، سورہ یاسین وغیرہ غیر مسنون کام ہیں۔ اس کے علاوہ چالیس روز تک ہر جمعرات کو قرآن خوانی کروانا، پھر اس موقع پر کھانا کھلانا اور پھر چہلم کے موقع پر تمام مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا وغیرہ ایسے غیر مسنون رسوم و رواج ہیں جو اکثر امیر و غریب کو نبھانے پڑتے ہیں اور انہیں مذہبی و معاشرتی فریضہ سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے۔“ طہورا نے بتایا۔

” بعض اوقات تو وفات کے موقع پر ٹینٹ لگے ہوتے ہیں تو کھانے کے وقت پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ غمی کا کھانا ہے یا شادی کا کھانا۔اور کھانے کے وقت اتنے زیادہ لوگ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔اور دیگوں میں پکنے والا یہ کھانا بھی بہت اچھا، خوشبو دار اور مزیدار ہوتا ہے۔“ عبدالرحمان بولا۔

” ہمارا مذہب فضول خرچی کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ ہر معاملے میں میانہ روی اور کفایت شعاری کی تلقین کرتا ہے۔ مگر غمی کی ان رسومات کی ادائیگی کے لیے انتہائی اسراف کیا جاتا ہے، جو کبھی بخوشی اور کبھی مجبوراً کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دین حنیف کے احکامات سے دوری، جہالت، پسماندگی اور اپنی دولت کی نمائش بھی ان رسومات کے محرکات ہوتے ہیں۔“ ابو جان نے واضح کیا۔

” ابو جان! ان تمام مسائل کا حل کیا ہے؟“عبداللہ نے سوال کیا۔
” اگرچہ ان رسومات کا ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ رواج بن گیا ہوا ہے لیکن ان کو ضرور بالضرور ختم کرنا چاہیے۔ اور صرف اہل خانہ اور دور کے مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ نیز اہل میت کے کھانے سے متعلقہ دوسرے غیر مسنون رسوم و رواج کے تدارک کے لیے علمائے کرام کو منبر ومحراب سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ پڑھے لکھے اور دین دار لوگوں کو بھی اس معاملے میں حسب ضرورت اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور انفرادی اور اجتماعی طور پر، جیسے ممکن ہو، ان مواقع پر لوگوں کو حکمت کے ساتھ منع کرنا چاہیے۔ اور قرآن و سنت کے احکامات بیان کرنے چاہیئں۔“ ابو جان نے بتایا۔

” یہ تو بہت مشکل کام ہے۔ کیونکہ لوگ تو بات نہیں سنتے۔“عبداللہ نے رک رک کر کہا۔
” اگرچہ یہ مشکل کام ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی تو ہے اور معاشرے کے اندر بدعتوں اور رسوم و رواج کو ختم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ سب اہل دل اور اہل درد کو اس کے لیے حسب موقع بھرپور کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اللہ کے حضور اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہو سکیں۔“ ابو جان نے تاکید سے کہا۔

” پیارے بچو! زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کس نے پہلے اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ تاہم عمومی قانون فطرت کے مطابق بزرگ دنیا سے پہلے رخصت ہوتے ہیں۔ آپ سب بچوں کو ہماری وصیت ہے کہ آپ نے ہمارے وفات کے بعد دل میں اللہ کا ڈر رکھتے ہوئے اس موقع پر کوئی بدعت اور غلط رسوم و رواج نہیں ہونے دینے۔ بلکہ آپ سب نے ان بدعتوں اور رسم و رواج سے ہمیشہ خود بھی بچنا اور سنت طریقہ کے مطابق چلنا ہے۔ اور دوسروں کو بھی اس کے مطابق بتانا اور سمجھانا ہے۔“ ابو جان نے موقع غنیمت جان کر بچوں کو چند اہم ترین باتیں سمجھائیں۔

” ان شاءاللہ! ہم سب اس کا ضرور خیال رکھیں گے۔ اللہ تعالی آپ دونوں کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔“ عبداللہ نے آبدیدہ ہو کر کہا۔
” آمین ۔“ سب نے بیک زبان کہا۔

” اللہ تعالیٰ ہم سب کا حسن خاتمہ فرمائے۔ اور ہمیں بدعتوں اور فضول رسم و رواج سے بچائے۔“ طہورا کی دلی خواہش اس کی آواز میں ڈھل گئی۔
” آمین “ بچوں نے پرجوش ہو کر کہا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “میرے بیٹے! میرے مرنے کے بعد آپ میرے لیے کیا کریں گے؟”

  1. Binte Bashir Avatar
    Binte Bashir

    ماشاءاللہ۔۔بہت خوب۔ معاشرے میں رائج غلط باتوں کی طرف احسن انداز میں اشارہ فرمایا۔