ہالووین

ایک مضمون ہالووین پر…………

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں :

پچھلے کچھ سالوں سے مغربی رسوم اور تہوار نہایت تیزی اور غیر محسوس انداز سے ہمارے معاشرے میں شامل ہوتے جا رہے ہیں یا شامل کرنے کی کوشش میں تیزی آ رہی ہے. نام نہاد طبقہ امراء جو اہلِ مغرب سے متاثر اور مغربی تعلیمی اداروں کے پروردہ ہیں، کے ہاں تو احساس کمتری کہیں یا خود کو اہلِ مغرب ثابت کرنے میں ہلکان ہونے کی کوشش قرار دیں، اس طبقے میں تو مغربی تہوار فرض سمجھ کر منائے جاتے ہیں،

موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے مختلف فورمز نے باہم رابطے بہت آسان کر دئیے ہیں، تو اس سہولت کی وجہ سے ان تہواروں اور رسوم کی ترویج و اشاعت میں بھی انہیں استعمال کیا جا رہا ہے. گزرے ایک ہفتہ کے دوران متعدد فنکاروں، یہاں تک ایک کہ ایک خاتون سیاستدان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ہالووین کے حوالے سے تصاویر دیکھ کر اس تہوار کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی خواہش ہوئی.

ہالووین کا آغاز کیلٹک نامی ایک قوم سے ہوا. یہ لوگوں کا ایسا گروہ تھا جو موجودہ آئر لینڈ اور جنوبی فرانس کے علاقے میں دو ہزار سال قبل آباد تھا. یہ لوگ یکم نومبر کو نئے سال کا آغاز کرتے تھے. اس دن کو موسم گرما کا اختتام قرار دیتے تھے اور آنے والے موسم کو تاریکی اور سردی کا عکس سمجھتے تھے.

کیلٹک سال کے اس تاریک موسم کے آغاز کو موت کے ساتھ منسوب کرتے تھے اور اکتیس اکتوبر اور یکم نومبر کی درمیانی شب (جو کہ ان کے نئے سال کے آغاز کا موقع ہوتا تھا)، وہ ” سمہین “ نام کا ایک تہوار مناتے تھے.

اس تہوار کی بنیاد اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ مردہ لوگوں کی روحیں اس رات زمین پر گھومنے کے لیے آتی ہیں. پادری کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ وہ روحوں کے ساتھ کلام کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہیں اور ان سے مستقبل کی جانکاری بھی حاصل کر سکتے ہیں.

پادری اس رات آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کراتے تھے اور لوگ وہاں جمع ہو کر فصلیں اور جانور جلا کر اپنے خداؤں کو خوش کرنے کے لیے قربانی پیش کرتے تھے. اس رسم کے دوران وہ جلائے گئے جانوروں کے سر اور کھال زیب تن کرتے تھے.

اس پہناوے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اس رات زمین پر گھومتی بد روحیں اُنہیں شناخت نہ کر سکیں، ان پہناووں کا ایک اور مقصد ان بد روحوں کے لباس کی تقلید کرنا بھی تھا تا کہ وہ انہیں اپنے ساتھی سمجھ کر کوئی نقصان نہ پہنچائیں. اکتیس اکتوبر کی رات پادری گھر گھر جا کر مخصوص پکوان طلب کرتے تھے تا کہ اس نذرانے کے ذریعے بدروحوں کو راضی کیا جائے.

اگر کوئی گھرانہ پادری کے مطلوبہ پکوان مہیا نہ کر پاتا تو عام عقیدہ تھا کہ ایسے گھر اور اس کے مکین مشکلات، بیماری اور موت کا شکار ہو جائیں گے. خوش حالی اور سلامتی کی بشارت ان لوگوں کے لیے تھی جو فیاضی سے کھانا اور دیگر اشیاء پیش کرتے تھے.پادریوں کی یہ روایت ہی موجودہ دور میں ہالووین کے حوالے سے مشہور جملے ٹرِک یا ٹریٹ کا سبب بنی، یعنی مٹھائی دو یا ممکنہ نتائج کے کیے تیار رہو۔

لوکی نامی سبزی کو اندر سے کھوکھلا کر کے لالیٹن کی شکل دے کر اس میں دئیے یا موم بتی کے ذریعے روشنی کر کے پھرنا بھی ہالووین کے تہوار سے منسلک ہے. اس کا آغاز آئرش نژاد افسانوی کردار جیک نے کیا، جس کے بارے میں یہ قیاس آرائی عام تھی کہ وہ لوگوں کے ساتھ مختلف شرارتیں کر کے لطف اندوز ہوتا تھا،

اس کے بارے میں یہ افسانے بھی زبان زد عام تھے کہ جیک مرنے کے بعد جنت یا جہنم میں نہیں بھیجا گیا، اس لیے اس کی روح لوکی سے بنا لالٹین لے کر راستے کی تلاش میں بھٹک رہی ہے. اس افسانوی کردار کی تقلید میں لوکی اس تہوار کے لیے خاص طور پر کاشت کیے جاتے ہیں اور ان کو اندر سے کھوکھلا کر کے، اس میں موم بتیاں روشن کر کے رستوں میں پھرا جاتا ہے تاکہ جیک کی روح راستہ پا لے، لوکی پر مختلف ڈراؤنی اشکال بھی گودی جاتی ہیں، جن کا مقصد بدروحوں کو ڈرا کر بھگانا ہوتا ہے.

کیلٹک لوگوں کے عقیدے کے مطابق چمگادڑ اور کالی بلی بھی مردہ لوگوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی صلاحیت کی حامل ہیں. یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ کالی بلیاں گھر سے چڑیلوں کو بھی بھگانے پر قادر ہیں.

800 ء میں عیسائیت کا دائرہ کیلٹک علاقوں تک وسیع ہوا. ساتویں صدی عیسوی میں پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو صوفیوں اور دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کی یادگار کے طور پر منانے کا اعلان کیا،اور یوں کیلٹک تہوار کو اپنی مذہبی تعطیل کے ساتھ بدل کر اسے عیسائیت میں شامل کر دیا. تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہالووین کا تہوار یا لفظ بائبل میں کہیں مذکور نہیں ہے بلکہ جرمیا 10:02 واضح انداز میں کہتی ہے کہ ” دوسرے لوگوں کے راستوں کی پیروی نہ کرو.

ہر سال لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کر کے یہ تہوار دنیا بھر میں منایا جاتا ہے. بگ ریسرچ نامی ایک ادارے کی طرف سے کرائے گئے ایک جائزہ کے مطابق ہر سال کروڑوں روپے اس تہوار کے لیے ملبوسات اور دیگر اخراجات کی نذرہوتے ہیں.

ایسی دنیا جہاں غربت اور بھوک کے ہاتھوں پسماندہ ممالک کے لوگ دم توڑ رہے ہوں، وہاں ایسے تہواروں پر کروڑوں روپے اُڑا دینا سنگدلی کی علامت ہے. اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک کے مطابق دنیا بھر میں آٹھ سو ملین سے زیادہ افراد روزانہ خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں. ہر پانچ سیکنڈ میں ایک بچہ بھوک اور غربت کے دیگر مسائل کی وجہ سے مر جاتا ہے.

بہت سے شیطان کے پجاری اور جادوگر اس دن کو باقاعدہ رسمی طور پر شیطان کا قرار دیتے ہیں اور اسی نقطہ نظر کے تحت اسے مناتے ہیں.

اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ایسی لایعنی اور بے مقصد رسوم اور تہوار کو منانا ایک مسلمان کی شان نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے، اسے تمام مخلوقات پر برتری دی ہے، اس مقام کا تقاضا ہے کہ انسان بامقصد اور تعمیری کاموں میں اپنی عمر کی نقدی استعمال کرے، اپنی شکل بگاڑ کر رنگ رنگ کے شیطانی سوانگ بھر کر ہالووین جیسے تہوار منانا، مسلمان کو زیبا نہیں.

بہت سے لوگ محض وقتی خوشی حاصل کرنے کے لیے ایسے تہوار مناتے ہیں اور بطور مسلمان خود کو دقیانوسی قرار دئیے جانے کے طعنے سے بچنے کے لیے خود کو جدید دنیا کے ساتھ کے قابل بنانے کے لیے بھی اہلِ مغرب کی تقلید میں ہلکان ہوتے ہیں، انہوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ کیا اہل مغرب نے بھی کبھی ہمارے مذہبی تہوار اس جوش و خروش سے کبھی منائے ہیں؟ اسلامی تعلیمات اس حوالے سے بالکل واضح اور دوٹوک ہیں.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا :
” تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور گمراہ نہ ہونا، یاد رکھو دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے.“

بطور مسلمان خود کو ان رسوم و رواج کی پیروی سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو مذہب کا درست علم بھی ہو اور اپنے عقیدے پر پختہ یقین بھی رکھتا ہو. ہر وہ عمل جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سنت سے دور کرے اور غلط راہوں کی طرف لے جائے، اسلام کے عقائد کے متضاد ہو، وہ غلط ہے.

ہالووین کا تہوار دراصل جادوئی اور شیطانی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے. جبکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں صریح الفاظ میں فرما دیا کہ جادو حرام ہے، کیونکہ اس سے نقصان پہنچایا جاتا ہے، نفع نہیں ہوتا. ہمارا مذہب دوسری قوموں کے اپنائے غلط راستے پر چلنے کی ممانعت کرتا ہے.

آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا : "من تشبہ بہ قوم فھو منہ
ترجمہ :جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے ہو گا.” (سنن ابو داؤد)

اس لیے ہمیں اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوئے، ایسے کسی تہوار کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیے جس سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے احکامات کی نفی ہوتی ہو.
وما علینا الا البلاغ المبین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “ایک مضمون ہالووین پر…………” جوابات

  1. Kalsoom razzaq Avatar
    Kalsoom razzaq

    Brillient writing….keep it up….weldone dr. Sahiba

  2. Iqra kabir Avatar
    Iqra kabir

    Very interesting and reformative as well. Parh k dil khush hogaya . Jeeti rahen columnist Dr shaista sahiba

  3. حفظہ علی.. Avatar
    حفظہ علی..

    Jzak Allah Dr.. Bht bht achi info di ap ny.. Allah pak hmen Apny Nabi k chahny Waln mn rakhen Hmesha.. Ameeeen…

  4. Neelam sial Avatar
    Neelam sial

    Superb..nice information