اورنج لائن ٹرین ، لاہور ، پاکستان

لاہور: اورنج لائن ٹرین کا سفر ( آٹھ سالہ بچے کا دلچسپ سفرنامہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سعدان عبید بن عبید الرحمان محسن :

8 نومبر 2020 بروز اتوار کو ہم لاہور اپنی نانی جان کے گھر گئے۔ ہم نے اورنج لائن ٹرین کے شروع ہو جانے کے بارے میں کافی سنا ہوا تھا اور انٹرنیٹ پر دیکھا بھی ہوا تھا۔ ہم نانی جان کے گھر سے ٹرین کے سٹیشن تک پیدل گئے جو تقریباً دس منٹ کا فاصلہ تھا.

سٹیشن پر ڈیوٹی والے لوگ ماسک کے بغیر کسی کو اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ لہذا پھر ہم نے نئے ماسک خریدے۔ اسٹیشن سڑک کے برابر نہیں بلکہ اوپر بنا ہوا تھا۔ ماما جان نے بتایا کہ اسے ” اوورہیڈ برج “ کہتے ہیں۔

میرے ساتھ میری ماما، میری بہنیں اور میرے کزنز وغیرہ بھی سفر کر رہے تھے۔ ہمارے ساتھ میری خالہ کے بڑے بیٹے زکریا بھائی تھے جو ہم سب کو ساتھ لے کر گئے تھے۔ انہوں نے پہلے بھی کئی دفعہ اس ٹرین میں سفر کیا ہوا تھا۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر اسٹیشن میں داخل ہوئے۔ ہرجگہ عام سیڑھیوں کے ساتھ ایسکیلیٹر یعنی برقی سیڑھیاں بھی تھی۔ یہ مشکل مشکل الفاظ مجھے ماما جان نے بڑی محنت سے یاد کروائے تھے۔ میں پہلے بھی کئی دفعہ (مثلاً امپوریم شاپنگ مال میں) ایسکیلیٹر پر چڑھ کر اوپر گیا ہوا ہوں۔ کیونکہ مجھے اس پر کھڑے ہو کر اوپر جانے کا بہت مزہ آتا ہے۔

پلیٹ فارم خالی تھا۔ اور ہمارے علاوہ مسافر نہیں تھے۔ ٹرین کے آنے میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔ ہم نے ادھر ادھر گھوم پھر کر بلکہ بھاگ بھاگ کر اسٹیشن اور پلیٹ فارم وغیرہ دیکھا۔ ہمارا دل چاہ رہا تھا کہ ہم جلدی جلدی ہر جگہ دیکھ لیں۔ بچوں کو بھاگنے پھرنے کا تو بہت مزہ آتا ہے۔

اتنے میں ٹرین کی آواز سنائی دی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے نئی نئی پیاری سی اور لمبی سی ٹرین پلیٹ فارم پر آکر رک گئی۔ اور اس کے آٹومیٹک دروازے خود بخود کھل گئے۔ پھر ہم جلدی سے ٹرین میں چڑھ گئے۔ ٹرین میں بہت ہی رش تھا کیونکہ آج اتوار کا دن تھا۔

جب ٹرین چلنا شروع کرتی تو مسافروں کو ایک زور کا جھٹکا لگتا۔ جب رکتی تو بھی جھٹکا لگتا۔ کبھی کبھی چھوٹے بچے جنہوں نے ہینڈل کو یا کسی بڑے کا ہاتھ نہیں پکڑا ہوتا تھا، وہ نیچے گر جاتےتھے۔ پھر ان کے ابو یا امی ان کو سنبھالتے تھے۔

ہمیں ٹرین بہت پسند آئی کیونکہ ہم نے ٹرین میں بہت ساری خوبیاں دیکھیں۔ جاتے وقت ٹکٹ خریدنے کے بجائے کوپن (ٹکٹ) خرید کر ساتھ لے کر جانے ہوتے ہیں۔ ٹرین کے اندر دائیں اور بائیں جانب اور اوپر پکڑنے کے لیے ہینڈل لگے ہوئےتھے۔

ٹرین اندر سے بہت پیاری، صاف ستھری، جدید سی لگ رہی تھی۔ تمام اسٹیشنوں پر اور ٹرین کے اندر صفائی تھی ۔ اسٹیشن بڑے اور کھلے تھے۔ ٹرین کے کل 25 اسٹیشن تھے جن میں سے ایک انڈر گراؤنڈ اسٹیشن بھی شامل تھا۔

ٹرین میں ارد گرد کے گھروں کی چھتیں صاف نظر آ رہی تھیں۔ راستے میں بہت ساری چیزیں دیکھیں۔ ماما اور زکریا بھائی ہمیں ساری باتیں ساتھ ساتھ بتا اور سمجھا رہے تھے۔

میں نے چوبرجی میں پی آئی اے جہاز کا ماڈل دیکھا جو کھڑا ہوا تھا۔ میں نے پاکستان ریلوے اسٹیشن پر بہت ساری ٹرینیں کھڑی دیکھیں جن میں زیادہ مال گاڑیاں تھیں۔ میں نے شالامار باغ بھی دور دور سے دیکھا۔ ہمارا دل چاہ رہا تھا کہ ہم یہاں اتر جائیں اور پارک میں جائیں لیکن ماما جان نے اجازت نہیں دی۔

میں نے تقریباً 600 فٹ چوڑا ایک کالج دیکھا جس کا سامنے والا حصہ بہت بڑا اور پیارا تھا۔ اور اس کی چھت کے اوپر بہت زیادہ سولر پلیٹیں لگی ہوئی تھیں۔ ہم جلدی جلدی سولر پلیٹیں گننے لگے لیکن ٹرین جلدی سے آگے نکل گئی۔اور ہماری گنتی پوری نہ ہوئی۔ مجھے اپنے کزنوں کے ساتھ بہت مزا آ رہا تھا۔

راستےمیں ہم نے چھوٹی چھوٹی نہریں دیکھیں لیکن ماما جی نے بتایا کہ یہ تو گندے نالے ہیں۔ میں نے آخری اسٹیشن پر چائنیز ڈرائیور، چائنیز گارڈ اور دوسرے چائنیز لوگ بھی دیکھے۔ میں نے پہلی دفعہ چائنیز لوگ دیکھے تھے۔ وہ تو ماسک لگائے ہوئے بھی دور سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ چائنیز ہیں۔
میں پہلی بار اورنج لائن ٹرین میں بیٹھا تھا۔ ہم نے اس میں تقریباً پورا لاہور گھوم لیا۔ ہمیں جاتے وقت ٹرین میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی تھی لیکن پھر بھی ہمیں بہت مزا آیا۔ ہم بچے ایسے ہی ٹرین میں ادھر ادھر بھاگتے رہے۔

ہمیں واپسی میں زیادہ مزا آیا کیونکہ ہمیں بیٹھنے کی جگہ بھی مل گئی تھی۔ واپس آتے ہوئے ہم نے وہی سارا کچھ دوبارہ دیکھا۔ اب ہم بہت تھک چکے تھے لیکن پھر بھی خوش تھے۔ ہمارے لیے یہ ایک یادگار سفر تھا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “لاہور: اورنج لائن ٹرین کا سفر ( آٹھ سالہ بچے کا دلچسپ سفرنامہ )” جوابات

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    اگر یہ آٹھ سالہ بچے کی تحریر ھے تو بہت اچھی ھے۔

    1. ڈاکٹر خولہ علوی Avatar
      ڈاکٹر خولہ علوی

      سعدان عبید ماشاءاللہ ذہین بچہ ہے۔ چوتھی کلاس کا طالب علم تھا۔ کووڈ 19 کی چھٹیوں میں اسے قرآن مجید حفظ کروانا شروع کر دیا تھا۔ اب وہ چوتھا سپارہ حفظ کر ر ہا ہے۔ ماشاءاللہ۔
      والد اور والدہ دونوں کی طرف سے لکھنے لکھانے کا کام وراثتی طور پر منتقل ہوا ہے۔ الحمد للّٰہ۔
      یہ سب قرآن مجید کی برکتیں اور پھر والدین کی محنتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں وائس ٹائپنگ کا کمال بھی شامل ہے۔

      بچے نے وائس ٹائپنگ کرتے ہوئے تحریر خود لکھی ہے۔
      جس دن اورنج لائن ٹرین کا سفر کیا تھا، تب سے تحریر لکھنی شروع کی ہوئی ہے۔
      ہر روز اسے کوئی نہ کوئی نیا پوائنٹ یا پوائنٹس یاد آتے رہتے تھے، اور وہ ان کو کو تحریر میں شامل کر لیتا تھا۔
      بچے سے پہلی دفعہ لکھی گئی تحریر غلطی سے ڈیلیٹ ہوگئی تھی۔ پھر اس نے اسے دوبارہ لکھا ہے اور پہلے سے کافی بہتر لکھا ہے۔
      باقی، اس کی والدہ نے اصلاح کرتے ہوئے اس کی کچھ نوک پلک سنواری ہے۔ لیکن تحریر بچے نے خود لکھی ہے۔

  2. SA Avatar
    SA

    ما شاء اللہ
    پڑھ کر مزا آیا۔ خوب سفر رہا آپ لوگوں کا!