یخنی پلائو، قیمہ مٹر ، سلاد ، رائتہ ، تندوری روٹی

صلہ رحمی اور ایک منفرد دعوت کا خیال

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

” حاضرین محفل! سب توجہ فرمائیں۔ آپ سے میرا ایک اہم سوال ہے۔“ نفیسہ نےمحفل میں موجود اپنی خالاؤں اور کزنوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
” جی۔ کیا پوچھنا چاہتی ہیں آپ؟“ سب لوگوں نے اس کی طرف اپنے رخ کرلیے اور پوچھا۔
” دعوتوں میں سب لوگ روٹی (یا نان) سالن اور چاولوں کا اہتمام ہی کیوں کرتے ہیں؟ کوئی اور آئٹم تیار کیوں نہیں کرتے؟ کوئی مدلل جواب چاہیے۔“ نفیسہ نے سب کے متجسس چہروں کو دیکھ کر سوال پوچھ ہی لیا۔

” کیا آپ چاہتی ہیں کہ دعوت میں مہمانوں کی تواضع کافی اور کیک سے کی جائے؟“ مدیحہ خالہ نے استفسار کیا۔
” نہیں۔ بلکہ قلفہ آئس کریم، روسٹ اور بار بی۔کیو ہونا چاہیے۔“ ماموں زاد بہن تیمیہ نے اپنی رائے پیش کی۔
” میکرونی یا نوڈلز، فروٹ چاٹ، رشین سلاد، دہی بھلے اور آئس کریم وغیرہ ہونی چاہیے۔ مجھے یہ سب آئیٹمز بہت پسند ہیں۔“خالہ زاد بہن عفراء بھی بول پڑی۔

” نفیسہ! آپ ایسا مختلف مینیو کیوں چاہتی ہیں؟“ مدیحہ خالہ نے پوچھا۔
” میں چاہتی ہوں کہ ان روایتی کھانوں سے کبھی کبھار جان چھوٹ جائے۔ گھر میں بھی یہی کھانے پکتے ہیں اور دوسروں کے گھر دعوت میں بھی عموماً یہی مینیو ہوتا ہے۔“نفیسہ نے وجہ بیان کی۔
” نفیسہ! آپ خود بتائیں نا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟“ ممانی عفاف نے نفیسہ سے کہا۔

” چلیں میں بھی سوچتی ہوں۔“ نفیسہ ہڑبڑا کر بولی۔
” پھر دعوت کا کیا مینیو ہونا چاہیے؟ برگر، شوارمے، تکے، کباب، فرنچ فرائز، نگٹس وغیرہ؟“ عفاف خالہ نے پوچھا۔

” میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے گھر میں بھی یہ کھانے (روٹی چاول اور سالن) کھاتا ہی رہتا ہے تو پھر دعوت کا کیا چارم ہوا؟ دعوت تو پھر عام روٹین سے ہٹ کر ہونی چاہیے نا۔ چلیں یہ کھانے ہونے چاہیے، پر ہر جگہ تو نہیں نا۔ اب گزشتہ کئی دن سے ہم لوگ دعوتیں کھا رہے تھے الحمدللہ! لیکن ہر جگہ یہی مینیو ہوتا تھا، روٹی سالن اور چاولوں والا۔ بس میٹھی ڈش مختلف ہوتی تھی۔ تو میرے دل میں پھر فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا۔“نفیسہ نے بتایا۔

” نفیسہ! آپ کے گھر میں دعوت کا کیا مینیو ہوتا ہے؟“ یہ ماموں سلیمان تھے جن کی ابھی آفس سے واپسی کے بعد ان کی محفل میں آمد ہوئی تھی۔ وہ اور ان کی فیملی نانی جان کے ساتھ رہتی تھی اور ان کے گھر میں یہ سب مہمان اس وقت موجود تھے۔
” ہمارے گھر میں بھی جب دعوت ہوتی ہے تو یہی کھانے پکتے ہیں۔“ نفیسہ بولی۔
” نفیسہ! پھر آپ یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہیں؟“ صبیحہ خالہ نے استفسار کیا۔

”آپ لوگوں سے اسی لیے تو پوچھاہے کہ آپ سب خواتین اور لڑکیاں ماہر امور خانہ داری ہیں، اس مخصوص مینیو کے حوالے سے کچھ بتادیں۔“ نفیسہ نے جواباً کہا۔

” ایک تو آج کل کی نئی نسل کو کھانے پینے کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ حلال کمائی سے بنائے گئے سادہ کھانوں کے استعمال سے انسان کی صحت اچھی رہتی ہے۔ وہ چست و ہوشیار رہ کر اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح ادا کرتا ہے۔
اور سلیقے سے پکائے گئے سادہ کھانوں میں بھی بڑا لذت ہوتی ہے۔ دال کو بھی تڑکا لگائیں تو دور تک خوشبو پھیل جاتی ہے۔ ان کھانوں پر نسبتاً کم وقت اورکم پیسے خرچ ہوتے ہیں۔“ نانی جان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

”جی بالکل “ سب نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
” مرغن کھانے اور فرائی چیزیں کھا کر، گھر کی روٹی سالن کے بجائے کبھی بازاری برگر، کبھی شوارما، کبھی پزا یا کبھی چپس کھاکر کیا خاک صحت بننی ہوتی ہے۔ اب ایسا انوکھا سوال کبھی ہمارے ذہنوں میں تو نہیں آیا۔ ہم اپنے گھر میں دعوت کریں یا کوئی ہمیں اپنے ہاں دعوت پر بلائے، سب کا مینیو یہی ہوتا ہے۔ اور کیا یہ بغیر پیسے اور بغیر وقت لگائے، بنا محنت کیے پک جاتے ہیں؟“ نانی جان نے سب کو حقائق سے روشناس کرتے ہوئے یہ سوال پوچھنے والی کو بھی متوجہ کیا۔

” جی بالکل! لیکن یہ کھانے اور کولڈرنکس، چائے، کافی وغیرہ کے ساتھ استعمال ہونے والے ریفریشمنٹ آئٹمز بھی تو اب روٹین کا حصہ بن چکے ہیں۔ جسے یہ کھانے بنانے نہ آتے ہوں، اس کی کوکنگ اچھی نہیں سمجھی جاتی۔“نفیسہ نے ادب سے نانی جان کو جواب دیا۔

” اب تو رشتہ کرتے ہوئے بھی لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہونے والی بہو اچھی کوکنگ کے ساتھ بیکنگ اور چائنیز و اطالوی کھانوں وغیرہ کی بھی ماہر ہو۔ یہ کھانے بھی اب ہماری زندگی میں شامل ہو چکے ہیں۔“ فریحہ خالہ نے بھی حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔

” ہمیں لوگوں کے معیار کے مطابق چلنے کے بجائے اپنا معیار سامنے رکھنا چاہیے۔ سنت سمجھ کر نیکی کی نیت اور خوشی سے حسب توفیق مہمانوں کی مہمان نوازی کرنی چاہیے۔
صلہ رحمی کی نیت کرتے ہوئے ایک دوسرے کی خوشی و غمی میں شرکت کرنی چاہیے۔
شادی شدہ بہنوں کے میکے آنے پر والدین اور بھائیوں کی ان کی خدمت کرنا بھی صلہ رحمی کی شکل ہے جس کا انسان کو اجر و ثواب ملتا ہے۔“ نانی جان نے صلہ رحمی کی اہمیت کو واضح کیا۔

” جی ہاں۔ “ سب نے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔
” جی بالکل۔ صلہ رحمی کا مطلب ہے رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا یعنی ان سے حسنِ سلوک کرنا، اپنی ہمت کے مطابق بوقت ضرورت ان سے مالی، جسمانی، اخلاقی تعاون کرنا، ان کی خدمت کرنا، ان کی ملاقات کے لیے جاتے رہنا، اپنے گھر آمد پر حسب توفیق ان کی خاطر مدارت کرنا وغیرہ۔“ خالہ فریحہ نے کہا جو اپنی حسن فطرت کی وجہ سے ان چیزوں کا خصوصی اہتمام رکھتی تھیں۔

” قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
ترجمہ: ” اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، اور حساب کے برے انجام سے ڈرتے ہیں۔“ (سورۃ الرعد: 21)
حافظ ماموں نے صلہ رحمی والی ایک آیت کی تلاوت کرکے اس کا ترجمہ بیان کیا۔

حدیث میں بیان ہوا ہے کہ:
”عن أنس قال: قال رسول الله ﷺ ” من أحب أن یبسط له في رزقه وینسأ له في أثر فلیصل رحمه۔“(متفق علیه) (مشکوٰة:419)
ترجمہ: ” حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے۔“
نانی جان نے فراخی رزق اور دراز عمری کے لیے صلہ رحمی کرنے کی حدیث نبوی بیان کی۔

”عن جبیر بن مطعم قال: قال رسول الله ﷺ لایدخل الجنة قاطع. متفق علیه.” (مشکوٰة: 419)
ترجمہ: ” حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : ” قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔“
ماموں سلمان نے قطع رحمی کے حوالے سے ایک اور حدیث بیان کرتے ہوئے صلہ رحمی کی مزید ترغیب دلائی۔

” جزاک اللہ خیرا۔ صلہ رحمی کے حوالے سے ہماری بہت اچھی یاد دہانی ہو گئی ہے۔ لیکن ابھی میرے سوال کا جواب باقی ہے۔“
نفیسہ نے سب کو پھر جواب کے لیے متوجہ کیا۔

” روٹی سالن اور چاولوں پر مشتمل کھانے عام روٹین والے ہوں یا دعوتوں والے۔ بہت اچھے، مزےدار، صحت بخش اور ’ ہائی جینک ‘ ہوتے ہیں۔ انسان ان کو کھا کر بور نہیں ہوتا۔ آپ پتہ نہیں کیوں ان سے الرجک اور بےزار ہو رہی ہیں؟“ عفاف خالہ نے سوال کیا۔

” میں ان سے بیزار نہیں ہوں لیکن کبھی کبھار کھانے میں کچھ ہلکی پھلکی چیز بھی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ تو بس میری خواہش ہے۔ باقی لوگ عموماً ایسے کھانے ہی پسند کرتے ہیں۔“ نفیسہ بولی۔
” گھر میں روٹین میں عام طور پر روٹی سالن پر مشتمل کھانا ہوتا ہے۔ اور یہ کھانا بنانے میں بھی کافی محنت اور وقت لگتا ہے۔
ہر کھانے کے ساتھ چاول بھی نہیں پکائے جاتے۔
پھر سالن اور چاولوں میں ورائٹی بھی کافی ہوتی ہے۔ دعوت میں عام طور پر گوشت کے سالن کی کوئی ڈش بنتی ہے۔ مٹن، بیف، چکن وغیرہ کا قورمہ، کڑاہی، قیمہ، کوفتوں کا سالن، یا سبزی گوشت کا سالن کتنا لذیذ اور اچھا بنتا ہے!“ مدیحہ خالہ نے سالن کی ورائٹی بیان کی۔

” زیادہ مینیو والی دعوت یعنی بوفے سسٹم میں گوشت، روسٹ، سبزی، ساگ، پالک، دالیں، لوبیا، چنے وغیرہ کے دیگر کئی طرح کی ورائٹی والے سالن موجود ہوتے ہیں۔ فرائی آئٹمز بھی موجود ہوتے ہیں۔ سبزی، دالیں، لوبیا اور چنے کے سالن وغیرہ ان کے علاوہ ہوتے ہیں جو عام دعوتوں میں کم بنائے جاتے ہیں۔“ عفاف خالہ نے سالن کی ورائٹی پر مزید روشنی ڈالی۔

” جی بالکل “ سب نے تائید میں اثبات میں سر ہلائے۔

” چاولوں میں بھی بڑی ورائٹی ہوتی ہے۔ مثلاً بریانی، گوشت والا یخنی پلاؤ، چائنیز رائس، فرائیڈ رائس، مصالحہ والے چاول، سنگاپورین رائس، ابلے چاول، کھچڑی وغیرہ۔ جن میں سے دعوتوں میں زیادہ تر پلاؤ اور بریانی استعمال ہوتے ہیں۔“ اب فریحہ خالہ نے چاولوں کی ورائٹی بیان کی۔
” جی ہاں۔“ نفیسہ نے تائید میں سر ہلایا۔

” نفیسہ! آپ نے گزشتہ دنوں میں کئی دعوتیں کھائی ہیں۔ اب آپ اپنی مرضی اور پسند والے مینیو کی ہماری بھی اچھی سی دعوت کریں جس سے ہمیں پتہ چلے کہ آپ کس طرح کی دعوت پسند کرتی ہیں؟“ ماموں سلمان نے بات نفیسہ پر ڈال دی۔

” جی بالکل! میرا دل کرتا ہے کہ میں سب کی منفرد قسم کی اور باوقار سی دعوت کروں۔“ نفیسہ نے جواب دیا۔
” عنی آپ ہماری different and decent سی دعوت کرنا چاہتی ہیں؟ اب جلدی سے بتائیں کہ آپ کب ہماری دعوت کر رہی ہیں نفیسہ؟“ ماموں سلمان نے بےتابی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

” اب مجھے سوچنے تو دیں۔ کم از کم دو ہفتے کا موقع دیں۔ آخر ایسی نایاب دعوت کے مینیو کے بارے میں سوچنا ہے۔“ نفیسہ بات کرکے خود پھنس گئی تھی۔

” ایک منفرد دعوت اس طرح کی ہو سکتی ہے جس میں روٹی سالن نہ ہو اور نہ ہی چاول۔ بلکہ اس میں صرف فرائی آئیٹمز ہوں۔ مثلاً فرنچ فرائز، فرائی مچھلی، روسٹ، چکن رول، سموسے، نگٹس وغیرہ۔ ساتھ حسبِ ضرورت چٹنیاں، ٹماٹو کیچپ، مایونیز، رائتہ، دہی، سلاد، کولڈ ڈرنکس، لیمن منٹ مشروب (پودینہ اور لیموں کا مشروب سیون اپ کے ساتھ) ، چائے، قہوہ اور کافی وغیرہ ہو۔“ ممانی عفاف نے ایک رائے پیش کی جسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔

” لیکن یہ کھانے کی دعوت نہیں۔ اسے تو ’ ہائی ٹی ‘ طرز کی دعوت قرار دیا جا سکتا ہے۔“ مدیحہ خالہ نے اظہار رائے کیا۔

” اتنی مزےدار فرائی چیزیں کھا کر تو پیٹ ویسے ہی بھر جائے گا۔ روایتی کھانے کی جگہ یہ مختلف مینیو بھی بہت اچھا رہے گا۔“ تیمیہ چٹخارہ لے کر بولی۔

” تاہم ایک منفرد آئیڈیا تو مل گیا ہے۔ نفیسہ! اب آپ جلدی سے دعوت کرنے کا سوچیں۔“ ماموں سلمان نے نفیسہ کو ترغیب دلائی۔

” ایک مختلف دعوت یہ بھی ہو سکتی ہے جس میں صرف کبابوں کی ورائٹی شامل ہو مثلاً سیخ کباب، چپلی کباب، گولا کباب، شامی کباب، ریشمی کباب وغیرہ۔ ان سب کے ساتھ مختلف چٹنیاں، مایونیز اور کیچپ موجود ہو۔
اور ساتھ توا روٹی یا تندوری روٹی ہو۔
جس کا دل چاہے روٹی میں کباب، چٹنی، مایونیز اور کیچپ، جو مرضی ڈالے، اپنی مرضی کا رول بنائے اور کھائے۔
جس نے صرف کباب کھانے ہیں، وہ صرف کباب کھا لے۔ ان کے ساتھ کولڈ ڈرنکس ہو اور بعد میں قہوہ ہو۔ اور یہ سب ون ڈش پارٹی ہو۔“ خالہ مریم نے طویل جواب دے کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

” یہ بھی بڑے مزے کا آئیڈیا ہے۔“ نزیہہ بولی۔
” لیکن یہ ون ڈش پارٹی نہیں بلکہ کثیر ڈش پارٹی ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ اس دعوت میں محنت عام روایتی کھانوں سے زیادہ کرنی پڑتی ہوگی۔ اوراس میں پیسہ بھی عام دعوت سے زیادہ لگتا ہوگا۔“ بڑی خالہ نے یہ پوائنٹس واضح کیے۔

” کبابوں کی ورائٹی والی دعوت کا اہتمام ایک وہی فرد باآسانی کر سکتا ہے جس نے عید الاضحیٰ پر گائے قربان کی ہو، اور قربانی کا گوشت بانٹنے کی بجائے اپنے فریزر میں زیادہ سارا سٹور کر لیا ہو۔“ خالہ مریم نے اس قسم کی ہونے والی دعوتوں کا بیک گراؤنڈ بھی واضح کردیا۔

” بالکل“ ماموں سلمان نے تائید کی۔
” خالہ جان! کیا آپ کو اتنی زیادہ قسموں والے کباب بنانے آتے ہیں؟“ نفیسہ نے پوچھا۔
” نہیں نفیسہ! سارے تو نہیں لیکن شامی کباب کے علاوہ سیخ کباب بھی بنانے آتے ہیں۔ میں آپ کو جلد سیخ کباب بنا کرکھلاؤں گی ان شاءاللہ۔“ مریم خالہ نے مخاطب کرکے کہا۔
” ان شاءاللہ “ نفیسہ نے بھی زور وشور سے کہا۔

” بس گھر کی عام روٹین سے ہٹ کر کھانا تھوڑا سا فرق ہونا چاہیے۔ مثلاً یہ چائے اور اس کے ساتھ ریفریشمنٹ میں پیسٹری اور سینڈوچ تھے۔ یہ ہوتا ہے تھوڑا سا روٹین سے ہٹ کے۔“ نزیہہ نے موبائل سے ایک تصویر نکال کر دکھائی جس میں چائے کے کئی خوبصورت کپ اور ساتھ چھوٹی خوبصورت پلیٹوں میں پیسٹریاں اور سینڈوچ رکھے ہوئے تھے۔

” لیکن اس سے پیٹ نہیں بھرتا۔ دوسری بات یہ کہ یہ صحت مندانہ خوراک نہیں بلکہ چسکہ ہے۔“ بڑی خالہ نے جواب دیا۔

” چسکا ہی لے لیتے ہیں خالہ جان! کبھی کبھی چسکا بھی اچھا لگتا ہے۔“ نزیہہ نے اپنی رائے ظاہر کی۔
” نفیسہ! گھر میں مختلف یونیک چیزیں کھایا کرو۔ پھر کہیں کسی دوسرے کے گھر جاکر دعوت میں کوئی کھانا نیا نیا لگے گا۔ آپ کے مسئلے کا یہی آسان ترین حل ہے۔“ ماریہ بھابھی نے ایک نیا آئیڈیا دیا۔

” وہ بھی تو کھا کھا کے ہی اب کچھ آپشن باقی نہیں لگ رہا۔“ نفیسہ نے جواب دیا۔
” مجھے ویسے بھی دعوت میں جا کر کھانا کھانے سے زیادہ میزبانوں کا رویہ، ان کا حال احوال دریافت کرنا اور ان کے ساتھ مل بیٹھ کے چائے پینا بہت اچھا لگتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ کچھ وقت گزار کر، ان کی مہمان نوازی کی تعریف کرکے میں خود بھی ترو تازہ اور خوش ہوجاتی ہوں۔“ نفیسہ نے مزید کہا۔

” بالکل بیٹا! یہ بڑی اہم بات ہے اور میزبانوں کا مہمانوں کے ساتھ اور مہمانوں کا میزبانوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا صلہ رحمی کا حصہ ہے۔ میزبانوں کا مہمانوں کی حسب استطاعت خاطر تواضع کے علاوہ ان سے حسن اخلاق سے پیش آنا بھی بہت ضروری ہے۔ “ خاموشی سے سب کی گفتگو سنتی نانی جان نے اب نفیسہ کی خالص نیت، اچھی سوچ اور عمل کو سراہا تو نفیسہ خوش ہوگئی۔

” ایسا کریں سب لوگ مجھے بتائیں کہ انہیں کھانے میں کیا کیا پسند ہے؟ سب لوگ ایک ایک ڈش کا نام بتائیں اور ضرور بتائیں۔“ نفیسہ نے پوچھا۔
” پیزا۔ اور وہ بھی کوک نوک (cock nook) کا۔“ نزیہہ نے اپنی پسند بتائی۔

” مجھے ایسی کچھ خاص ڈش پسند نہیں جسے میں اپنی فیورٹ کہہ سکوں۔“ مریم خالہ نے اپنی رائے ظاہر کی۔
” پھر بھی کم از کم ایک ڈش کا نام بتائیں جو آپ کا کھانے کے لیے دل چاہتا ہے۔“ نفیسہ نے اصرار سے پوچھا۔
” مختلف حالات میں مختلف چیزیں۔“ خالہ مریم نے اپنی پسند اپنے پیرائے میں بیان کی۔
” مجھے لذیذ مصالحہ دار بریانی، کباب، سلاد اور رائتہ کے ساتھ بہت پسند ہے۔“ تیمیہ نے بتایا۔

” لیں جی! آپ نے تو ایک ڈش کے بجائے پورا پیکج ہی بیان کر دیا ہے۔“ ماموں سلمان ہنستے ہوئے بولے۔
” ماموں جان! آپ کو کھانے میں کون سی ڈش پسند ہے؟“ نفیسہ نے پوچھا
” مجھے کالی مرچ میں بنی ہوئی مٹن کڑاہی اچھی لگتی ہے۔ اس کے علاوہ یخنی پلاؤ کی کیا بات ہے!“ ماموں نے اپنی پسند بتائی۔

” مجھے چائنیز رائس اور سوپ بہت پسند ہے۔“ تیمیہ نے بھی بتایا۔
” مجھے دال چاول بہت پسند ہے۔ اس کے ساتھ آم کا اچار بھی خوب مزہ دیتا ہے۔“ صبیحہ خالہ نے اپنی رائے دی۔
” نانی جان! آپ ضرور بتائیں کہ آپ کو کون سا کھانا زیادہ پسند ہے؟“ نفیسہ نے نانی جان سے اصرار سے پوچھا۔

” مجھے ثرید بہت پسند ہے۔ گوشت یا چنے کے سالن کے شوربے میں، یا مونگ مسور کی پتلی دال میں روٹی بھگو کر کچھ دیر رکھنے کو ثرید کہتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ یہ کھانا سنت ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ثرید بہت پسند تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹی نرم ہو جاتی ہے اور بڑھاپے میں کھانے میں آسانی رہتی ہے۔ دانتوں اور معدے کے مسائل کی وجہ سے اس طرح کی نرم روٹی آرام سے چبائی اور کھائی جاتی ہے جو زود ہضم بھی ہوتی ہے۔“ نانی جان وضاحت سے ثرید کے بارے میں بتایا۔

پھر باقی لوگوں نے بھی اپنی اپنی پسند بتائی۔
” کیوں نفیسہ! دعوت کی کوئی تاریخ فائنل کرلی ہے کیا؟ یہ کام بھی ابھی نہ طے ہو جائے؟“ ماموں نے پوچھا۔
” نہیں ماموں۔ ابھی تو میں سوچ رہی ہوں۔“ نفیسہ جلدی سے بولی۔
” اب میں نے 21 اگست 2020ء بروز جمعۃ المبارک ’ پارٹی ڈے ‘ سمجھ لیا ہے۔ ٹھیک ہے نا؟“ ماموں نے خود ہی دعوت کی تاریخ مقرر کردی۔

” نہیں ماموں! تاریخ فائنل نہ کریں۔ یہ ابھی ڈن نہیں ہے۔ اسے پکا نہ سمجھیں تاکہ میں اپنے والدین سے ڈسکس کرلوں جنہوں نے دعوت کے لیے پیسے لگانے ہیں۔ تاریخ ان کی مرضی کی ہوگی لیکن ہوگی ضرور۔ ان شاءاللہ۔“ نفیسہ نے ذرا پریشان ہو کر کہا۔

” لیکن جو دعوت آپ کی امی جان نے کرنی ہے، وہ الگ ہوگی اور آپ کی منفرد سی دعوت بالکل الگ۔“ ماموں بولے۔
” ٹھیک ہے۔ یہ زیادہ آسان ہے ورنہ دعوت کا مینیو میرے والدین نے اپنی مرضی کا فائنل کرلینا ہے۔ اچھا پھر اب جیسا بھی مینیو ہوا نا، سب نے خوشی اور خاموشی سے کھا لینا ہے۔“ نفیسہ بولی۔
” کیا روٹی، سالن، چاول اور سویٹ ڈش والا روایتی مینیو ہوگا؟“ ماموں نے پوچھا۔
” جی ماموں۔“ نفیسہ نے جواب دیا۔

” وہ تو ہمیں ازل تا ابد پسند ہے۔ ہم بڑے شوق سے آئیں گے بھی اور کھائیں گے بھی۔ آپ بس دعوت کی تاریخ فائنل کرکے ہمیں بلانے کا اہم ترین کام کریں۔“ ماموں سلمان نے جواباً کہا۔

نفیسہ نے اپنی والدہ اور والد سے دعوت کے بارے میں مشورہ کیا اور پھر کچھ دیر بعد اعلان کر دیا۔
” میرے والدین نے 15 اگست 2020ء بروز ہفتہ دوپہر دو بجے آپ سب خاندان والوں کی دعوت کا دن اور وقت فائنل کر دیا ہے۔ آپ سب لوگ ضرور تشریف لائیں۔“ نفیسہ نے بتایا۔
” ٹھیک ہے۔ ہم سب آئیں گے ان شاءاللہ۔“
لیکن اس سے پہلے ماموں قاسم نے 14 اگست کی رات کو سب لوگوں کو اپنے گھر دعوت پر بلایا۔ اور مزے دار اور خوشبودار کھانوں سے سب کی شاندار ضیافت کی۔

پھر اگلے دن مقررہ وقت پر سب لوگوں نے نفیسہ کے گھر میں دعوت اٹینڈ کی۔ مہمان خصوصی نانی جان تھیں جن کا بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے بہت کم کہیں جانا ہوتا تھا۔ لیکن آج میزبانوں کے علاوہ باقی آل اولاد کے پر زوراصرار کی وجہ سے بھی بدقت تشریف لائی تھیں لیکن آکر بہت خوش تھیں۔

” ماشاءاللہ! دعوت کا مینیو تندوری روٹی، قیمہ مٹر کا لذیذ سالن، یخنی پلاؤ، شامی کباب، سلاد اور رائتہ ہے۔“ ماموں سلیمان نے سب کھانوں کے ڈھکن اٹھا کر چیک کرکے باآواز بلند کہا۔
” یہ سب کھانے میری والدہ نے تیار کیے ہیں۔ لیکن میں نے بھی ان کے ساتھ مکمل طور پر مدد کی ہے۔ “ نفیسہ نے فوراً بتا دیا۔
سب مہمانوں نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا۔

” میٹھی ڈش میں مینگو اور آلمنڈ (بادام) فلیور کے چار پانچ بڑے سائز کے کیک ہیں جو کھانے کے بعد، چائے کے ساتھ پیش کیے جائیں گے۔“ نفیسہ نے بتایا۔
کچھ وقفہ سے مہمان چائے اور کیک سے لطف اندوز ہوئے۔
” کیک بنانے کی ماہر خالہ مریم نے یہ تمام اپنے گھر میں خود بیک کیے ہیں اور یہ بازاری، بیکری کے کیک سے بھی زیادہ لذیذ، نرم اور صحت بخش ہیں۔“ نفیسہ نے بتایا تو سب نے خوب تعریف کی۔

” ساری آل اولاد کو اس طرح اکٹھے ہنستے مسکراتے، کھاتے اور خوش دیکھ کر میرا سیروں خون بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو صلہ رحمی کرنے والے اور آپس میں جڑے رہنے والے بنائے۔“ نانی جان نے خوشی سے کہا۔
” آمین ثم آمین یا رب العالمین!“ سب نے دل سے کہا۔

کچھ دیر قیام کے بعد مہمانوں نے میزبانوں کو ان کی عمدہ میزبانی کے لیے برکت، رحمت اور رزق حلال کی مسنون دعائیں دیں اور ہنسی خوشی رخصت ہوئے۔ شام کو نانی جان بھی خوش وخرم دعائیں دیتی رخصت ہوئیں۔
اب سب کو نفیسہ کی Different and Decent قسم کی دعوت کا انتظار ہے!!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “صلہ رحمی اور ایک منفرد دعوت کا خیال” جوابات

  1. ساجدہ ظفر Avatar
    ساجدہ ظفر

    زبردست جناب، گھر بیٹھے ہی دعوت کا مزہ آگیا ہے.. اور نانی جان کی باتیں تو پھر دعوت کی جان ہیں

  2. جمیلہ علی Avatar
    جمیلہ علی

    ماشاء اللہ. بہت مزہ آیا پڑھ کر.بہت دلچسپ انداز میں لکھی گئی زبردست تحریر ہے. کئی دعوتوں کی ملی جلی یادیں تازہ ہو گئیں.
    واہ بھئی واہ.