مسلمان بزرگ خاتون قرآن مجید پڑھتے ہوئے

بیاد بیگم مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ( حصہ اول )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی :

میری ساس محترمہ (( امّی جی)) شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف بانی وشيخ الحدیث دارالحدیث الجامعۃ الکمالیہ راجووال کی اہلیہ، عبداللہ سلیم مرحوم، شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف المدنی، پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمٰن محسن اور حافظ عبیداللہ احسن کی والدہ محترمہ تھیں۔ان کا نام رحمت بی بی تھا لیکن وہ بچوں بڑوں، آشنا و اجنبی سب لوگوں میں امی جی کہلاتی تھیں۔

مجھے ان کے چھوٹے بیٹے عبیدالرحمٰن محسن صاحب کی اہلیہ اور امی جی کی چھوٹی بہو ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

وہ 1925ء میں پیدا ہوئیں (شناختی کارڈ کے مطابق) اور 18 اور 19 جنوری 2019ء کی درمیانی شب کو رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ تقریباً گزشتہ دس گیارہ برس سے دل کی مریضہ تھیں لیکن طویل بیماری کے باوجود بہت با ہمت اور با حوصلہ خاتون تھیں۔ اس زندگی میں انہوں نے اپنی اولاد کے بہت سے صدمے دیکھے تھے۔

دو بیٹیوں باجی عابدہ اور باجی امۃ اللہ (زوجہ عبد الستار حماد آف میاں چنوں) کی رحلت کے صدمے انہوں نے سہے تھے۔ اور ایک بیٹے عبداللّٰہ سلیم کی ہارٹ اٹیک سے کھڑے کھڑے واقع ہونے والی موت کا دکھ انہوں نے برداشت کیا تھا۔

بیٹے عبداللّٰہ سلیم کی بیوہ کی جدائی کا صدمہ بھی انہوں نے سہا تھا۔ اور آخر میں اپنے رفیقِ حیات مولانا محمد یوسف کی ابدی جدائی کا غم بھی انہیں برداشت کرنا پڑا تھا۔ پے در پے رونما ہونے والے ان صدمات کا ان کے دل ناتواں پر گہرا اثر تھا۔

انہوں نے یہ تمام غم نہایت صبر و حوصلے سے برداشت کیے تھے۔ اور ان کا دل سدا صبر و رضا کی دولت سے مالامال رہا تھا۔

بھائی عبداللّٰہ سلیم اور بڑی باجی عابدہ کا تو میں نے صرف نام اور تذکرہ سن رکھا ہے (کیونکہ وہ دونوں میری شادی سے طویل عرصہ قبل وفات پا چکے تھے) تاہم باجی امۃالّٰلہ کی ہارٹ اٹیک سے وفات میری شادی کے چند برس بعد ہوئی تھی۔اس موقع پر میں نے ابا جی (باباجی یوسف) اور امی جی دونوں کو ” صبرِ جمیل “ کی عملی تفسیر بنے دیکھا تھا۔ پھر بڑی بہو باجی صفیہ (عبداللّٰہ سلیم کی بیوہ) کی وفات کے موقع پر بھی میں نے انھیں یہ صدمات نہایت حوصلے اور صبر سے برداشت کرتے پایا تھا۔

اولاد کے ان صدمات پر دونوں میاں بیوی نے مل جل کر ایک دوسرے کو تسلی اور دلاسے دے کر یہ کٹھن وقت گزارا تھا۔ تاہم امی جی کو شوہر ( بابا جی یوسف ) کی وفات کا صدمہ تنہا اٹھانا پڑا تھا۔ ان کی اولاد ان کی غم گسار تھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ عورت شوہر کی جدائی کے بعد گویا ڈھے سی جاتی ہے۔ الّاماشا الّٰله.

دنیا کے بے ثباتی اور اپنوں کو غم میں ڈوبا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہونے کی حقیقی تصویر انہیں یکے بعد دیگرے اپنے گھر سے ملی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں کثیر اولاد سے نوازا تھا۔ چار بیٹے اور چھ بیٹیاں ان کے گلشن کی رونق تھے۔ (جن میں سے تین ان کی حیات میں اللّٰہ کو پیارے ہو چکے تھے) باقی اولاد اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے حسبِ توفیق خدمت دین کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے اور اپنے نیک و صالح والدین کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔

ان کے احفاد میں متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اور پھر ان کے بچے بھی ان کے لواحقین میں شامل ہیں جن میں سے اکثر حافظ قرآن اور علمائے دین ہیں۔ یہ سب لوگ بھی ان نیک و صالح ہستیوں کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔

محترمہ امی جی نے اپنی سگی اولاد کے علاوہ بھی کئی بچے بچیوں کو پالا تھا اور بھر پور ذمہ داری سے ان کی بروقت شادیاں بھی کیں اور پھر شادی کے بعد کی ذمہ داریوں کو بھی نبھایا۔

امی جی ساری زندگی قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم دیتی رہیں جس کا نتیجہ ہر طرف پھیلی ہوئی ان کی بے شمار طالبات ہیں جن میں سے بے شمار نانیاں دادیاں بن چکی ہیں۔ یہ سب طالبات بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔

آج جو ہاتھ ان کی مغفرت لیے دعاگو ہیں وہ ان کی اولاد و احفاد کے علاوہ بے شمار قرآن کی طالبات اور ان کے والدین کے بھی ہیں۔ عزیز و اقارب کے بھی ہیں، ملنے جلنے والوں کے بھی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی جی کا تعلق بالّٰلہ نہایت مضبوط تھا، زبان عموماً ذکرِ الٰہی سے تر ہوتی۔ فرض نمازیں خشوع و خضوع سے ادا کرنے کے علاوہ نوافل کی ادائیگی پر بھی ان کی توجہ رہتی تھی۔ نمازِ تہجد، نمازِ اشراق، تحیۃالوضو وغیرہ پڑھنا ان کے معمول کا حصہ تھا۔ انفاق فی سبیل اللّٰہ حسبِ توفیق دل کھول کر کرتی تھیں۔

امی جی کو تلاوتِ قرآنِ کریم سے بڑا لگاؤ تھا۔ نمازِ جمعہ پڑھنے باقاعدگی سے متصل مسجد میں جایا کرتی تھیں۔ ادارے میں ہونے والے پروگراموں ، جلسوں اور کانفرنسوں میں کھانے کا بندو بست کرتی اور بڑی محنت سے اپنا حصہ ڈالتی تھیں۔ اور خواتین کے لیے گھر میں پروگرام کا بندوبست کرواتیں۔ علمائے کرام کے لیے کھانا وہ عموماً شوق سے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی تھیں جو نہایت پسند کیا جاتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” جوانی میں جب ان کی شادی ابا جی سے ہوئی تو ان کا حق مہر جو طے پایا، وہ یہ تھا کہ ابا جی امی جی کو سورۃ النور کا ترجمہ و تفسیر پڑھائیں گے۔“ ڈاکٹر محسن صاحب نے بتایا ۔” چنانچہ ابا جی نے امی جی کو شادی کے بعد استاد بن کر سورۃ النورترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھائی تھی اور اس کے احکام و مسائل تفصیلاً سمجھائے ۔“

اس حق مہر کا تقرر اور پھر اس کی احسن طریقے سے ادائیگی مثالی اور انوکھی تھی اور یہ معاملہ صحابہ کرام کا اسوہ اور ان کی یاد تازہ کر دینے والا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بابا جی کی بہت زیادہ خدمت گزار تھیں، ان کے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کے علاوہ سفری ذمہ داریوں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کا مکمل اہتمام بھی ان کے ہاتھ میں تھا۔ بابا جی ان کے قدردان تھے۔

وہ بے حد مہمان نواز خاتون تھیں۔ باباجی کے ساتھ دین کے مہمانوں کی وہ تا حیات خدمت گزار رہیں۔ بابا جی کی مہمان نوازی کی صفت اگر معروف تھی تو امی جی کے تعاون کی بدولت تھی۔

ابتدا میں جب جامعہ دارالحدیث کے طلباء کی تعداد ساٹھ، ستر کے لگ بھگ تھی تو ان طالب علموں اور استادوں کا کھانا گھر میں ہی امی جی کی زیرِ نگرانی تیار ہوتا تھا۔ جب طلباء کی تعداد بڑھ گئی تو پھر جامعہ میں باورچی کا بندوبست کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ” ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔“ تو بابا جی کے پیچھے امی جی کا بھر پور ہاتھ تھا۔

اگر وہ بابا جی کا مکمل ساتھ نہ دیتیں تو شاید بابا جی خدمتِ دین کا کام اتنے احسن طریقے سے نہ کر پاتے۔ امی جی نے بابا جی کے ساتھ دامے، درمے، قدمے، سخنے تعاون کیا، گھر اور گھریلو مسائل سے انہیں ہر طرح بے فکر رکھا اور اولاد کی تربیت کماحقہ بہترین طور پر کی۔

وہ خود سادہ مزاج تھیں لیکن لباس میں ان کا ایک خاص مزاج تھا اور اس کے مطابق وہ پہنتی اوڑھتی تھیں۔ کھانے میں تھوڑا لیکن ستھرا کھاتی تھیں۔ ساری زندگی اللہ تعالیٰ نے اتنی اچھی صحت اللّٰہ عطا کیے رکھی تھی کہ کبھی سر درد کی گولی تک نہ کھائی تھی لیکن جب آخری عمر میں دل کی مریضہ بنیں تو ایک وقت میں کئی کئی گولیاں کھانی پڑتی تھیں۔ دل کی تکلیف کے یہ معاملات تقریباً دس گیارہ برس چلتے رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہیں اپنی اولاد میں سے سب سے چھوٹے فرزندارجمند پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمٰن محسن صاحب سے سب سے زیادہ قلبی لگاؤ تھا جو اپنی والدہ اور والد کے سب سے زیادہ خدمت گزار بیٹے تھے۔ ماں سے محبت اور خدمت کے تمام تقاضوں کو انہوں نے مثالی انداز میں پورا کیا تھا۔ امی جی ان کی آمد پر کِھل اٹھتیں۔ مغرب کے بعد وہ لازماً امی جی کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ ان کی خدمت کرتے، ان کی باتیں سنتے، ان کے مختلف معاملات ڈسکس (discuss) کرتےاور جو کچھ امی جی کہہ دیتیں یا مشورہ دیتیں، اس پر ضرور عمل کرتے۔

” امی جی! جامعہ کو فلاں ضرورت کے لیے اتنے پیسوں کی ضرورت ہے۔ آپ نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعائیں کر کے پیسے لے کر دینے ہیں۔“ جامعہ کی ہر ضرورت کے موقع پر ڈاکٹر محسن صاحب امی جی سے کہتے تھے۔
” ٹھیک ہے بیٹا! میں دعائیں کروں گی۔“ امی جی کہتیں۔
پھر امی جی اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے سراپا دعا بن جاتی۔ اور دن رات اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائیں مانگا کرتی تھیں۔

ڈاکٹر محسن صاحب نے اپنا وقت، اپنا مال، اپنا خاندان سب کچھ امی جی کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ والدین کے خدمت گزار بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ اس کی توفیق دیتا ہے مگر ڈاکٹر محسن صاحب نے جس طرح ماں باپ کی خدمت کا حق ادا کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ اس کی مثال شاذو نادر ملتی ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ نے جو رفعت و سر بلندی عطا فرمائی ہے، وہ عالمِ باعمل اور عاجزی و انکساری کا پیکر ہونے کے علاوہ ماں باپ کی بھر پور خدمت اور ان کی مخلصانہ دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخری عمر میں امی جی کو فکر آخرت بہت زیادہ رہتی تھی۔
” بیٹا! تم نے میرے لیے یہ دعائیں کرنی ہیں کہ ’ اے اللّٰہ ! میرا حسنِ خاتمہ کرنا، ایمان پر موت عطا کرنا، ہر قسم کی معزوری و محتاجی سے بچانا اور چلتے پھرتے دنیا سے اٹھانا۔“ امی جی عمر کے آخری عمر میں ہر ملاقاتی سے یہ کہتی تھیں۔

اپنی ساس محترمہ کے علاوہ اپنی والدہ محترمہ ( پروفیسر ثریا بتول علوی صاحبہ، مصنفہ کتب کثیرہ) کو بھی میں اپنے بچپن سے یہی دعائیں کرتے دیکھ رہی ہوں ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے امی جی کی یہ دعائیں قبول فرمائیں۔

آسمان تیری لحد پرشبنم افشانی کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

6 جنوری 2019 ء بروز اتوار کو موسم سرما کی سرد اور تاریک رات دھیرے دھیرے گزر رہی تھی۔ سب لوگ اپنے نرم گرم بستروں میں محو خواب تھے۔ رات تقریباً سوا دس بجے کا وقت ہو چکا تھا۔امی جان بھی اپنے بستر میں لیٹی ہوئی تھیں کہ اچانک ان کو دل میں درد شروع ہو گیا اور ان کی طبیعت بگڑنا شروع ہو گئی۔

شام کو امی جان نے مچھلی کھانے کی فرمائش کی تھی۔ رات کو سوا آٹھ بجے بعد نمازِ عشاء ، انہوں نے بڑی رغبت سے کھانا تناول کیا تھا لیکن اس کھانے کا ہضم ہونا ان کے مقدر میں نہ تھا۔

اتنے میں ان کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹرمحسن صاحب (میرے رفیقِ حیات) کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ وہ رات کے اس پہر رب تعالیٰ کے حکم سے آج جلد واپس آگئے تھے۔ وگرنہ عموماً جب تبلیغی سفر پر ہوں تو ان کی واپسی رات کو لیٹ ہوتی ہے۔

” امی جی! طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟“ انہوں نے پوچھا۔
” نہیں بیٹا! دل میں بہت درد ہورہا ہے۔“ امی جی نے بہ مشکل بتایا۔

انہیں امی جی کو دیکھتے ساتھ ہی ان کی نا سازی طبع کا اندازہ ہو گیا۔ امی جان کا حال پوچھنے کے بعد وہ کچن میں گئے اور اوون میں پانی نیم گرم کرنے لگے۔ اس کام میں تقریباً ایک منٹ صرف ہوگیا۔ وہ نیم گرم پانی لے کر کمرے میں واپس پہنچے تو انہیں دیکھ کر وہ انتہائی پریشان ہو گئے۔

” امی جی کے دل میں درد کی شدید ترین لہر اٹھی تھی۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے اور بے جان ہو چکے تھے۔ چہرے پر زردی کی لہر سی کھنڈ گئی تھی اور چہرہ اندر کو دھنس گیا تھا۔ منہ سے جھاگ نکلنے لگی تھی۔ اور گردن بے جان ہو کر ایک طرف ڈھلک گئی تھی۔ یہ ہارٹ اٹیک تھا جس کی وجہ سے ان کی حالت انتہائی نازک ہو چکی تھی۔

انہیں اتنی مہلت بھی نہ ملی تھی کہ بستر کے بالکل قریب لگی گھنٹی ہاتھ اٹھا کر بجا دیتیں تاکہ باہر سے ڈاکٹر صاحب جلدی سے ان کے پاس آجاتے۔ بالکل ساتھ والے بستر پر سونے والی لڑکی کو اندازہ تک نہ ہو سکا کہ صرف ایک منٹ میں امی جان پر کیا بیتنا شروع ہو چکا ہے!!!“ ڈاکٹر محسن صاحب نے بعد میں بتایا۔

امی جان کی انتہائی سیریس حالت دیکھ کر محسن صاحب کے ہاتھ پیر پھول گئے۔
” مجھے فوراً اندازہ ہو گیا تھا کہ امی جان کو دوسرا ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔“ (امی جی کو ایک سال پہلے بھی ہارٹ اٹیک ہو چکا تھااور انہیں فوراً ایمبولینس منگوا کر ہسپتال پہنچایا گیا تھا۔)

انہوں نے جلدی سے بڑے بھائی حافظ احسن صاحب کے بیڈ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انہیں ڈاکٹر سرفراز صاحب کو کال ملا کر بلانے کا کہا جو فیملی ڈاکٹر اور قریبی ہمسائے ہیں۔ خود فوراً امی جان کے پاس پہنچ کر انہیں اونچی آواز سے مسنون دم کرنے لگے۔

حافظ احسن صاحب اپنی اہلیہ شمائلہ کےساتھ امی جی کے پاس پہنچے۔ قرآنی اور مسنون دعاؤں کے دم اور ابتدائی طبی امداد کے بعد ان کی حالت کچھ سنبھل گئی۔
” کاتبِ تقدیر اللّٰہ تعالیٰ نے امی جی کی زندگی کے مزید کچھ دن لکھ رکھے تھے۔ لہٰذا کچھ دیر بعد امی جی کی حالت مزید بہتر ہو گئی۔“ ڈاکٹر محسن صاحب نے بتایا۔

” امی جی کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔ الحمداللّٰہ، اب وہ کچھ بہتر ہو گئی ہے۔ لہٰذا اب میں ان کے پاس سوؤں گا۔“ ڈاکٹرصاحب نے تقریباً بارہ بجے مجھے نیند سے بیدار کر کے بتایا۔
حالتِ نیند میں مجھے ان کی بات کچھ کچھ سمجھ آئی۔ ویسے بھی وہ سنگین ترین صورتحال میں کھول کر بات کی سنگینی کو پوری طرح واضح نہیں کرتے تاکہ دوسرا فرد پریشان نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح شمائلہ سے پوری تفصیل معلوم ہوئی تو پھر مجھے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔
” ظاہراً امی جی کی حالت اتنی خطرناک ہو گئی تھی کہ ان کی زندگی بچنے کا چانس کم ہی نظر آ رہا تھا۔“ شمائلہ نے بتایا۔

” لیکن کلام اللّٰہ کے دم میں تاثیر سے (طبی امداد کے علاوہ) کون انکار کر سکتا ہے؟“ میں نے سوچا۔

پھر امی جی سے ملاقات ہوئی تو ان کی طبیعت الحمدللّٰہ کافی بہتر تھی۔ وہ اوکاڑہ کے ہارٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر عبدالعلیم آصف کے زیرِ علاج تھیں اور ان کا باقاعدگی سے ماہانہ چیک اپ ہوتا تھا۔ دوائیاں بھی بڑے دھیان سے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق کھاتی تھیں اور اکثر ڈاکٹر محسن صاحب خود کھلاتے تھے لیکن بڑھاپا خود بھی تو ایک بیماری ہے۔

پہلے اس بڑھاپے میں زیادہ چلنے پھرنے، سیڑھیاں چڑھنے اترنے سے، کسی غم و الم یا پریشانی والی بات کی وجہ سے انہیں دل کا درد شروع ہو جاتا تھا اور دل اس کے خلاف احتجاج کرنے لگ جاتا تھا لیکن اب دوسرے ہارٹ اٹیک کے بعد لیٹے یا بیٹھے بھی درد ہونے لگتا تھا۔ وہ ہسپتال میں داخل ہونے سے بڑا گھبراتی تھیں۔

میرے سسر باباجی یوسف کا بھی آخری عمر میں یہی حال تھا اور یہی کہنا تھا۔
” محسن بیٹا ! میری آخری زندگی میں مجھے ہسپتال میں داخل نہ کروانا اور نہ مجھے ٹیکوں اور ڈرپوں کی سوئیاں چبھوانا۔“ باباجی نے ڈاکٹر صاحب کو وصیت کر رکھی تھی۔

چند دن مزید گزر گئے۔ گھنٹے دنوں میں اور دن ہفتے میں ڈھل گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے امی جی کو بالآخر ہسپتال میں داخل ہونے پر آمادہ کر لیا۔ میں اور شمائلہ بھی انہیں ہسپتال جاکر مکمل چیک اپ کروانے کے لیے کہتی رہتی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

16 جنوری 2019ء برز بدھ کو امی جی کو صبح سے دل کا درد شروع ہو گیا تھا۔
” میں نے کالج سے چھٹی لے لی ہے تاکہ میں امی جی کو ہاسپٹل لے کر جا سکوں۔“ ڈاکٹر صاحب نے بتایا۔
” میں نے ہسپتال نہیں جانا۔“ امی جی نے صاف انکار کردیا۔

ڈاکٹر محسن صاحب مایوس ہو کر پھر کالج چلے گئے۔ جنوری کی دلربا دھوپ اپنی گرم اور روشن شعاعیں اہل جہاں پر لُٹا رہی تھی اور انہیں اپنی حرارت سے گرما رہی تھی۔ امی جی نے نہانے کا ارادہ کر لیا اور واش روم میں چلی گئیں۔ سب نے منع کیا لیکن انہوں نے نہانے کا پختہ ارادہ کیا ہوا تھا۔ وہ نہانے میں مدد صرف کلثوم یا شمائلہ سے لیتی تھیں۔ (کلثوم گیارہ بارہ برس کی لڑکی ہے جو امی جی کے پاس قرآن مجید کی پڑھائی کے لیے مستقل رہتی تھی) ۔

کلثوم ان کی مدد کے لیے موجود تھی لیکن سر دھونے اور جسم پر پانی بہانے کے بعد یکایک ان کے درد میں شدت آگئی۔ کلثوم نے جلدی سے شمائلہ کو بلایا۔ امی جی نے بقایا غسل چھوڑا اور جلدی سے کلثوم اور شمائلہ کی مدد سے کپڑے پہنے اور بستر میں لیٹ گئیں۔ دِل ناتواں کا درد تھا کہ ہر گھڑی بڑھتا جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر محسن صاحب کالج سے واپس آئے تو ان کی ناساز طبیعت دیکھ کر انہوں نے امی جی کو دل کے ہسپتال ” پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، لاہور“ لے کر جانے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ امی جی کو انہوں نے کافی وقت لگا کر ذہنی طور پر آمادہ کرلیا اور بالآخر وہ ہاسپٹل جانے کے لیے تیار ہو ہی گئیں۔
” محسن بیٹا! آپ پہلے کھانا کھالیں۔“ امی جی نے انہیں کہا۔
ڈاکٹر صاحب نے جلدی جلدی کھانا کھایا۔ ڈرائیور کو فون کر کے بلایا۔ حافظ احسن صاحب کو بخار تھا اور وہ حرارت سے تپ رہے تھے۔ لہٰذا ان کے بجائے حافظ عتیق صاحب کو ساتھ لے کر جانے کے لیے بلوالیا (جو رشتے میں ان کے بھانجے اور امی جی کے نواسے لگتے ہیں) ۔

میں اور شمائلہ نے امی جی کی تیاری کروائی۔ ہم دونوں مسلسل انہیں باتوں باتوں میں ہسپتال جانے کے لیے آمادہ کرتی رہیں کیونکہ امی جی بادل ناخواستہ تیار ہو رہی تھیں۔ قریبی پڑوسن باجی نصرت بھی اتفاق سے امی جی کا حال پوچھنے آگئیں۔ انہوں نے امی جی کے ساتھ ہسپتال جانے کی پیشکش کی۔

” امی جی! اگر کسی خاتون کو ساتھ لے کر جانا پڑا تو کیا وقتی طور پر باجی نصرت ساتھ چلی جائیں؟“ شمائلہ نے سوال کیا۔
” نہیں۔ ابھی کسی خاتون کے جانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی مجھے بھروسہ اور تسلی صرف محسن کی موجودگی اور خدمت سے ہوتی ہے۔“ امی جان نے جواب دیا۔

” ابھی کوئی خاتون ساتھ نہ جائیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ صرف امی جان کے چیک اپ کے بعد واپسی ہو جائے۔ اور اگر چیک اپ اور ٹیسٹوں کے بعد ہسپتال میں امی جی کو داخل کروانا پڑا تو پھر آپ کو یا باجی شمائلہ کو ساتھ لے جائیں گے۔“ ڈاکٹرصاحب نے مجھے بتاتے ہوئے بات طے کردی۔

پھر انہوں نے دیگر ضروری سامان کے علاوہ امی جی کی رضائی اور کمبل بھی پیک کروا کر گاڑی کی ڈگی میں رکھ لیے۔ باجی شمائلہ نے دلیہ پکا کر لنچ باکس میں ڈال کر ساتھ دے دیا۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “بیاد بیگم مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ( حصہ اول )” جوابات

  1. الیاس Avatar
    الیاس

    بھت اچھی تحریر لکھی ہے ماشاءاللہ

  2. شاذیہ حسین Avatar
    شاذیہ حسین

    أللھم اغفرلھا وارحمھا۔۔۔آمین

  3. Abid Avatar
    Abid

    ماشاء اللہ بہت اعلیٰ!
    پڑھ کر بہت اچھا لگا.