سکول کا کلاس روم

اساتذہ کے شخصی رویے طلبہ و طالبات پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

” میں نے سکول میں نہیں پڑھنا۔ میں نے گھر جانا ہے۔ میں نے آپ کے ساتھ جانا ہے۔ آپ مجھے ساتھ لے کر جائیں ۔ “
سکول میں نئی داخل ہونے والی ننھی منی بچی وردہ رو رو کر اپنی ماں سے کہہ رہی تھی۔ اس نے ان کا دوپٹہ پکڑا ہوا تھا اور کسی صورت ماں کے پاس سے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔ نہ وہ انہیں گھر جانے دے رہی تھی۔

” بیٹا ! یہ لو چاکلیٹ ، یہ دیکھو اتنے پیارے کھلونے آپ کی کلاس میں رکھے ہیں۔ کتنے پیارے پیارے چارٹس بھی اپ کی کلاس میں لگے ہوئے ہیں۔“ ٹیچر نے وردہ کو پیار سے پچکارتے ہوئے کہا۔

” بیٹا یہ دیکھو! آپ کی عمر کے اتنے سارے چھوٹے چھوٹے بچے شوق سے پیارے پیارے کلرز کر رہے ہیں۔“ ماں نے وردہ کو توجہ دلائی۔

ساڑھے تین سالہ وردہ معصوم سی بچی تھی۔ اس کی والدہ نے اسلامی اصولوں کے مطابق اس کی تربیت کرنے کی کوشش کی تھی۔ ساڑھے تین سال کی عمر میں اس کو سکول میں داخل کروا دیا گیا ۔ پہلے دن تو وردہ بڑے شوق سے ایڈمشن کروانے اپنی والدہ کے ساتھ سکول گئی لیکن وہاں جاکر گھبرا گئی اور کلاس میں بیٹھنے سے انکاری ہوگئی۔ ماں اور ٹیچر کی محنت سے وہ روتے دھوتے کلاس میں بیٹھ ہی گئی۔ ٹیچر نے اسے چاکلیٹ دی۔ چند بچوں نے اسے اپنا لنچ شئیر کرنے کی آفر بھی کی لیکن وہ پریشان اور خاموش بیٹھی رہی۔

پہلے چند دن تو سکول میں وردہ نے خوب رو دھو کر گزارے۔ پھر کلاس میں آہستہ آہستہ سیٹ ہوگئی۔ ننھی منی ہم جولیوں سے اس کی خوب بننے لگی اور اساتذہ بھی اس کو بھانے لگیں۔ اسے اپنی اساتذہ کا میک اپ اور فیشن کرنا اچھا لگتا تھا۔ وہ انہیں خوب غور سے دیکھتی تھی۔ کبھی کبھی دل ہی دل میں اپنی والدہ کا ان سے موازنہ بھی کرتی۔ چھوٹا سا معصوم دل و دماغ یہ مسئلہ حل کرنے سے قاصر تھا کہ اس کی والدہ کی سمجھائی ہوئی باتوں سے ٹیچرز کا حلیہ مختلف کیوں ہوتا ہے؟

کبھی اسے اپنی ٹیچرز کا حلیہ بہت اچھا بھی لگتا اور کبھی اسے اپنی امی کی باتیں یاد آتی رہتیں۔ اس کا ذہن اس چپقلش میں کبھی کبھی الجھ جاتا تھا۔

چھٹی کے بعد گھر واپس آ کر ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد وہ ڈرائنگ روم کو کلاس روم بنا لیا کرتی تھی۔ اس میں چھوٹی چھوٹی کرسیاں اور میز سجا کر وہ بچوں کو ٹیچر بن کر پڑھایا کرتی تھی۔ اسے ٹیچر اور سٹوڈنٹ کا یہ کھیل بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ اپنی ٹیچر والا حلیہ بنا کر انہیں مکمل طور پر کاپی کرتی تھی۔

” پیارے بچو! جلدی سے اپنی بکس نکالیں اور لیسن (lesson) ریوائز (دہرائی) کریں۔“
” ڈئیر کڈز! ہری اپ! اپنا کلاس ورک کمپلیٹ کرلیں۔“
” اپنی اپنی جگہ ڈیسکوں پر سیدھے ہو کر ڈسپلن سے بیٹھیں۔“ اس کی پڑھائی اور ہدایات ساتھ ساتھ جاری رہتیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” ماما ! میری ٹیچر کے ناخن اتنے لمبے کیوں ہیں؟ “
” ٹیچرز دوپٹہ سر پہ کیوں نہیں لیتیں؟ انہوں نے گلے میں کیوں ڈالے ہوتے ہیں؟“

” ٹیچرز اتنی پیاری ڈریسنگ کرتی ہیں لیکن ان کے کپڑے فٹنگ والے اور باریک ہوتے ہیں۔ آپ ایسے کپڑے نہیں پہنتیں اور نہ مجھے پہناتی ہیں۔“

” میری ٹیچر سکول میں بال کھلے کیوں رکھتی ہیں۔ چوٹی باندھ کر کیوں نہیں آتیں؟ “ یہ عجیب بچی تھی جو طالبات کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کے حلیے اور رویے بھی نوٹ کرتی اور گھر آکر ماں سے مختلف سوالات پوچھتی رہتی تھی۔
وہ بڑی کلاسز میں پروموٹ ہورہی تھی، اور اس کے سوالات بھی بڑھتے اور نسبتاً ہائی لیول کے ہوتے جا رہے تھے۔

” بیٹی! اب آپ سات سال کی ہوگئی ہیں۔ اب آپ نے نماز اچھے طریقے سے اور پابندی سے پڑھنی ہے۔“ کبھی کبھار شوق سے نماز پڑھنے والی وردہ کو ماں نے پیار سے سمجھایا۔ وہ کچھ عرصہ پہلے سے نماز کے لیے اس کی ذہن سازی کر رہی تھیں۔

” جی ماما ! اب میں آپ کے ساتھ نماز پڑھا کروں گی۔“ وردہ نے جواب دیا۔
والدہ نے بچی کو باقاعدگی سے اپنے ساتھ نماز پڑھانا شروع کردی۔ وردہ کو نماز کے بغیر جیسے چین نہیں ملتا تھا۔ اگر کوئی نماز نہیں پڑھتی تھی تو اسے بے چینی لگی رہتی تھی۔

” ماما! آج میں نے ایک ٹیچر کو نماز پڑھتے دیکھا جو اسکول میں کچھ دن پہلے نئی آئی ہیں۔ وہ مجھے بہت اچھی لگیں۔ انہوں نے اچھے طریقے سے دوپٹہ لپیٹا ہوا تھا، بالکل آپ کی طرح۔ وہ وضو کر کے آئی تھیں اور سٹاف روم میں جائے نماز بچھا کر نماز پڑھنے لگی تھیں۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میری ماما نماز پڑھنے لگی ہوں۔“ ایک دن سکول سے آتے ساتھ وردہ بڑے جوش سے اپنی والدہ کو بتانے لگی۔

” ان ٹیچر کا نام کیا ہے؟“ ماما نے سوال کیا۔
” ان کا نام مس مومنہ ہے۔ ایک دوسرے ٹیچر ان کو ” مس مومنہ “ کہہ کر بلا رہی تھیں تو مجھے بھی پتہ چل گیا۔“ وردہ نے جواب دیا۔

” میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان سے پڑھا کروں۔“ وردہ نے مزید کہا۔
” بیٹا! آپ کی ٹیچر بہت اچھا پڑھاتی ہیں۔“ ماں نے بچی کو سمجھایا۔
” اب میرا دل چاہتا ہے کہ مس مومنہ ہماری کلاس کو پڑھایا کریں لیکن میری تو ایک ہی ٹیچر ہیں جو ہمیں پورا دن پڑھاتی ہیں ۔“ وردہ نے ضد کرتے ہوئے کہا۔

اب وردہ نے ہر روز ہی گویا گردان شروع کردی کہ ” میں نے مس مومنہ سے پڑھنا ہے۔“
” مس مومنہ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ وہ بہت نائس ٹیچر ہیں۔ وہ مجھ سے بہت پیار سے بات کرتی ہیں۔“
وہ اب مس مومنہ کا حلیہ اپنا کر اپنے گھریلو کلاس روم میں اپنی میز کرسیوں کو پڑھایا کرتی تھی۔

” ماما! آپ مجھے مس مومنہ کے گھر ٹیوشن رکھوا دیں۔“ کبھی اس کی یہ فرمائش سامنے آجاتی۔
” ان کا گھر تو ہمارے گھر سے بہت دور ہے۔ آپ کو ٹیوشن کے لیے وہاں بھیجنا ممکن نہیں ہے۔“ والدہ نے جواب دیا۔

” میں نے بس ان سے پڑھنا ہے۔“ آٹھ نو سالہ بچی رو رو کر ضد پر اتری ہوئی تھی۔
” بیٹا جب آپ بڑی کلاس میں جائیں گی تو اس وقت آپ مس مومنہ سے پڑھ لینا۔ بڑی کلاسوں میں مختلف ٹیچرز مختلف سبجیکٹ (مضامین) پڑھاتی ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے دعائیں بھی کریں۔“ ماں نے شفقت سے سمجھایا۔ اور آئندہ کی آس لگادی۔
” ٹھیک ہے۔“ وردہ بڑی مشکل سے رودھو کر چپ ہو گئی۔

” آج ہمارے اسکول میں کئی ٹیچرز اور بہت ساری آپیاں بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ ایک ٹیچر کہہ رہی تھیں کہ مس مومنہ کے سکول میں نماز پڑھنے کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔“ کچھ عرصے بعد وردہ نے والدہ کو رپورٹ دی۔

” ایک چھوٹی بچی کو ٹیچر کے نماز پڑھنے نے اتنا متاثر کیا ہے کہ وہ اسی ٹیچر سے پڑھنے کی رٹ اور امید لگا بیٹھی ہے۔ اگر معاشرے میں تمام ٹیچرز نماز کی پابند ہوں تو طلبہ وطالبات پر اس کے کتنے اچھے اثرات مرتب ہوں گے؟؟؟ “ وردہ کی والدہ بے اختیار اس کے والد سے کہنے لگیں۔

” مجھے تو استاد کے عملی دینی کردار کا بہت زیادہ احساس ہوا ہے۔“ وردہ کی والدہ نے مزید کہا۔

” جی بالکل! طلبہ کی صلاحیتوں کا ارتقاء اور قومی ترقی کا راز ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین تربیت میں مضمر ہے۔ جس کے لیے والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی ذمہ دار ہوتے ہیں ۔“ وردہ کے والد نے جواب دیا۔

” تربیت کی بہترین صورت نماز ہے۔ کیونکہ علم بغیر عمل کے بیکار ہوتا ہے۔ جس علم پر عمل کیا جائے، وہ انسان کے لیے نہایت سود مند ثابت ہوتا ہے۔ نماز کی صرف باتیں نہ ہوں بلکہ کامل طریقے سے، خشوع وخضوع سے ادائیگی کی جائے اور لوگوں کے لیے رول ماڈل بنا جائے۔“ وردہ کی والدہ نے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھایا۔
وردہ غور سے ساری گفتگو سن رہی تھی۔

” اگر صحیح احساس و شعور کے ساتھ مسلمان نماز کی ادائیگی کریں تو وہ بندۂ مومن کی اس شخصیت کی تعمیر کرتی ہے جو اسلام کا مطلوب ومقصود ہے۔اور وہ سچا مسلمان بن جاتا ہے۔“ وردہ کے والد نے کہا۔

” اگر اللہ تعالی کسی انسان سے دین کی خدمت کا کام لے تو یہ اس مسلمان کے لیے باعث سعادت اور رحمت و برکت کی بات ہوتی ہے۔ مثلاً اب ایک ٹیچر کو دیکھ کر دیگر کئی ٹیچرز اور طالبات بھی نماز کی ادائیگی کرتی ہیں۔“

” میں تو ساری نمازیں ماما کے ساتھ پڑھتی ہوں۔“ وردہ نے جوش سے بتایا۔

” نماز کو تعمیرشخصیت اور کردار سازی میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ نماز آج بھی قوموں اور افراد کو بنا اور عروج پر پہنچا سکتی ہےاور اس کے ذریعےتعمیر شخصیت کا طریقہ آج بھی مکمل طور پر ممکن ہے۔
اگر اساتذہ کمیونٹی نماز کی پابندی کا خصوصی طور پر خیال رکھیں تو اسکولوں، کالجوں اور اکیڈمیوں میں زیر تعلیم طلبہ بھی نماز کے پابند بنیں گے اور ہمارا معاشرہ حقیقی تعمیر و ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا ۔ “ وردہ کے والد نے حقیقی ترقی کا راز سمجھا دیا تھا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “اساتذہ کے شخصی رویے طلبہ و طالبات پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں؟” جوابات

  1. تعظیمہ امجد Avatar
    تعظیمہ امجد

    ماشاءاللہ. بہت اچھی تحریر ہے بہت جامع الفاظ میں معاشرے کی حقیقت بتادی گئی کہ استاد طبقہ زیادہ تر نماز میں کوتاہی کر جاتا ہے ایک استاد قوم کا معمار ہوتا ہے اگر استاد اپنا مقصد تیار ہوکر کلاس کا لیکچر لینا اپنا مقصد سمجھ لےتو معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن کیسے ہوگا ؟؟؟
    اللہ تعالی تمام اساتذہ کو نماز قائم کرنے کی توفیق دے آمین تاکہ نھنے بچےسکول سے پانچ وقت کا نمازی بن کے نکلے

    1. سعید Avatar
      سعید

      ماشاء اللہ! کیا خوب تحریر ہے!

  2. احمد Avatar
    احمد

    ماشاء اللہ! بہت اعلیٰ!
    ! Very effective and Great

    1. سعید Avatar
      سعید

      بہت عمدہ اور پر تاثیر!
      حقیقت میں اساتذہ کمیونٹی طلبہ و طالبات کے لیے رول ماڈل ہوتا ہے.
      جامع طریقے سے اساتذہ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.