خطوط کا پلندہ

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( چھٹی اور آخری قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

پہلے یہ پڑھیے

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( پہلی قسط )

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( دوسری قسط )

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( تیسری قسط )

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( چوتھی قسط )

فرحت اور انجم کی داستان محبت ( پانچویں قسط )

میرے بچے بھابھی وغیرہ سے سن چکے تھے کہ فرحت فیملی کے ہمارے خاندان کے ساتھ انتہائی گہرے قلبی تعلقات تھے۔ میں نے اپنے بیٹے طاہر اور اپنی بیٹی عفت کو اعتماد میں لیا اور انور، بی بی جان کے نام فرحت کے خطوط دکھا کر مشورہ کیا کہ کیوں نہ آپ لوگ فرحت سے رابطہ کرکے تبادلہ معلومات کرلیں۔ فرحت کے مذکورہ خط میں سرگودھا کا پوسٹل ایڈریس موجود تھا۔ عفت نے اسے یہ خط ارسال کردیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
لاہور
31جنوری2011ء
پھپھو جان! السلام علیکم

آپ نے کئی سال گزرے 26مئی1980ء کو دادی اماں (بی بی جان) اور چچا جان (انور) کے نام ایک خط میں چچا جان سعادت اور دادا جان عطا الٰہی چودھری کی وفات پر اظہار تعزیت میں ہمارے خاندان کے ساتھ جس قلبی تعلق کے پرخلوص جذبات کا اظہار کیا، وہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔ افسوس کہ بی بی جان اور چچا جان انور بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

چچا انور بہت جرات مند صحافی تھے۔ ان کی چوتھی برسی پر ان کے ایک رفیق کار ان پر کوئی تاثراتی مضمون لکھنا چاہتے تھے تو ان کے بارے میں کاغذات تلاش کرتے ہوئے آپ کا مذکورہ خط مل گیا۔ ہم سب کا دل بھر آیا۔ سوچا آپ کو جواب لکھ دیں اور المناک اطلاع دے دیں۔ پھر سوچا آپ تو پہلے ہی بہت دکھی ہیں۔ مزید سوچا آپ کو اطلاع دیں گے تو آپ ان کی مغفرت کی دعا فرمائیں گی۔ ہم ایک دوسرے کے غم میں شرکت کریں گے تو غم ہلکا کرنے میں مدد ملے گی۔

پھپھو جان!
میں اپنے خاندان کے تفصیلی حالات آپ کا جواب آنے پر لکھوں گی۔ مختصراً عرض ہے کہ ہم چار بہنیں ہیں۔ ایک بھائی ہے۔ سب کے سب شادی شدہ۔ میرے موبائل نمبر یا طاہر بھائی کے موبائل نمبر پر آپ خود یا ہمارے بھائی بہنوں (وقاص ٹیپو، عاطف، وجیہہ ،حماد رضا) میں سے کوئی بھی بات کرسکتا ہے۔

پھپھو جان!
بہت سی باتیں کرنی ہیں مگر اس خط کا جواب آنے پر! اس لئے آپ ہمیں جواب ضرور دیں۔ طاہر بھی اپنے بھائیوں سے رابطے کے لئے بہت بے چین ہے۔ اس کا مزاج ابو سے زیادہ چچا انور مرحوم سے ملتا ہے اور چچا کے نام آپ کا خط دوبارہ رابطوں کا موجب بنا ہے۔ چچا انور کی اچانک وفات کی کہانی بہت اندوہناک ہے۔ ابو نے اس پر جو کالم لکھا تھا اس کی نقل بھیج رہی ہوں۔مزید تفصیل ان شاء اللہ بعد میں۔ سب کو سب کی طرف سے سلام۔
آپ کی بیٹی
عفت بتول

فرحت کو یہ خط ارسال کرنے سے پہلے میں نے سرگودھا میں اپنے ایک دوست کے ساتھ رابطہ کیا جو ایک بڑے نجی چینل سے وابستہ ہیں اور انھیں فرحت کا ایڈریس دے کر عرض کی کہ فرحت کے بارے میں معلومات لیں۔ کیا زندہ بھی ہیں یا نہیں اور ان کے گھرانے کے بارے میں جتنی بھی زیادہ سے زیادہ معلومات میسر آسکیں ہمیں مطلع کردیں۔

اس دوست نے خالصتاً اخباری رپورٹ کے انداز میں معلومات حاصل کیں جو یقیناً نامکمل تھیں تاہم فرحت کے بقید حیات ہونے کی خوشی کی اطلاع ہی ہمارے لئے بے حد سکون آور تھی۔عفت کا خط فرحت کے پتے پر ارسال کیا تو اگلے ہی روز صبح سویرے طاہر نے مجھے بتایا:

” پھپھو فرحت نے فون کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عفت نے فون اٹینڈ نہیں کیا اس لئے تمھیں تکلیف دے رہی ہوں۔ ہمارا جلد از جلد رابطہ کرائیں۔“
طاہر نے عفت کا رابطہ کرادیا۔ اس میں پھپھو بھتیجی نے ایک ہی نشست میں دو یا تین اقساط میں کئی گھنٹوں پر مشتمل جو بات چیت کی، وہ اپنی جگہ ایک انتہائی دلچسپ داستان ہے، دونوں باتیں کرتی رہیں۔ یادیں تازہ کرتی رہیں اور ساتھ ہی روتی بھی رہیں۔ مجھے تمام تفصیلات بتادی گئیں جن میں سے اکثر سے تو میں پہلے ہی آگاہ تھا مگر پھر بھی عرض کروں تو قارئین کے لئے جذبات سے معمور بہت سی باتیں نکل آئیں گی مگر میں ان میں سے صرف ایک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ فرحت نے انور اور بی بی جان کو لکھے گئے خط کے بعد بھی بہت سے صدمے سہے مگر کسی ایک کا بھی عفت کے ساتھ تذکرہ نہیں کیا جبکہ ہمارے بارے میں تمام تفصیلی معلومات حاصل کرتی رہی۔ اس دوران میں درج ذیل خط عفت کو موصول ہوا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عفت بیٹی!
بہت سی دعائیں
آپ کا خط ملا۔ انور بھائی کی المناک وفات سے بہت صدمہ پہنچا۔ ملیں نہ ملیں یہ احساس ہی کافی ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اپنے عزیز خیریت سے ہیں۔ انور میرا بہت پیارا بھائی تھا۔ وہ اس وقت میرا بھائی بنا تھا جب میں اپنے ( سوتیلے ) بھائیوں کے ہوتے ہوئے بھی بھائی کے لئے ترس رہی تھی۔ بدقسمتی سے والد صاحب، والدہ صاحبہ سے دونوں بھائیوں کی ناراضی کے نتیجے میں سب سے برا اثر مجھ پر پڑا۔

ایسے حالات میں جہاں سے بھائی کا پیار ملنے کا امکان ہوتا میں چل پڑتی۔ افسوس! میں اپنے اتنے پیارے بھائی سے محروم ہوگئی اور مجھے خبر بھی نہ ہوئی۔ جب تک اس سے ہوسکا وہ مجھ سے ملتا رہا۔ میں بھی اپنی پریشانیوں میں الجھی رہی۔ دکھ پہ دکھ، غم پہ غم لیکن میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ زندگی کا سامنا کروں گی۔

میرا بڑا بیٹا ٹیپو میٹرک میں تھا کہ اس کے بابا بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ کا کرم شامل حال تھا، ہر مشکل سے گزرتی گئی۔ میرے دیور میرے بچوں کو اپنے ہی بچوں کی طرح سمجھتے رہے ہیں۔ جب بڑا بیٹا بی کام اور بعد میں ایم بی اے کرنے لگا تو میرے دیور فوج سے ریٹائرمنٹ لے کر سرگودھا آگئے اور میرے بچوں کی براہ راست نگرانی کرنے لگے۔

خان صاحب ( تمھارے پھوپھا مرحوم) نے اپنی زندگی میں گھر، ایک بہت اچھا گھر بنالیا تھا۔ دوسرے بیٹے عاطف نے نمل یونیورسٹی سے چائنیز لینگوئج میں کورس کیا اور چائنا چلا گیا (ماسٹر کے لئے) وہاں سے جاپانی لینگوئج میں سکالرشپ مل گیا تو جاپان چلا گیا۔ میری بیٹی وجیہہ نے سائیکالوجی میں ایم ایس سی کی۔ حماد بیٹے نے BCSاورMBAکرکے اسلام آباد میں نیسلے میں جاب کرلی۔

بڑا بیٹا وقاص فیصل آباد چناب ٹیکسٹائل میں جی ایم ہے ۔ سب بچے ماشااللہ کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ بہت محبت کرنے، خیال کرنے والے فرمانبردار بچے ہیں۔ وقاص کی بیوی سارہ اور عاطف کی حنا بہت پیار کرنے والی بچیاں ہیں۔ مجھے بھی اپنے بیٹوں سے زیادہ پیاری ہیں۔ وقاص تو چڑ کر مذاق میں کہتا ہے: کاش! ہم آپ کی بہوئیں ہوتے۔“

تمام زندگی کا ثمر میرے یہ بچے ہیں۔ ایک ہفتہ کو وقاص اور سارہ میرے پاس سرگودھا آجاتے ہیں، دوسرے ہفتہ میں اور بیٹی فیصل آباد چلے جاتے ہیں۔ عاطف کا مہینے میں ایک چکر ہی لگتا ہے۔

اب بیٹا! آپ سناؤ غلام رسول بھائی کے کتنے بچے ہیں اور کہاں رہتے ہیں، اشرف کہاں ہوتا ہے۔ اس کے کتنے بچے ہیں، قربان بھائی اور بھابھی کیسی ہیں۔ آپ نے اپنے شوہر کا ذکر نہیں کیا۔

کئی دن سے خط لکھنا چاہتی تھی، نزدیک کی نظر کمزور ہے، عینک خراب تھی۔ بس بیٹا خط لکھنے بیٹھوں تو بس لکھتی ہی جاتی ہوں مگر وقت ہی نہیں ملتا۔ تمام گھر کی ذمہ داریاں ہیں اور اکیلی ہوں۔ باہر کے گھر کے سب کام کرنا ہوتے ہیں۔ آپ کی خواہش پوری کررہی ہوں خط لکھ کے ورنہ فون پر تو بات ہوتی ہی رہتی ہے۔

تم بہت پیاری بیٹی ہو۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ اپنے گھر میں آباد رہو، اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرو۔ ماں باپ کی فرمانبردار رہو۔ بچے نیک، فرمانبردار نہ ہوں تو ماں باپ کو اپنی تمام عمر کی تمام مشکلیں بار بار یاد آتی ہیں۔ بچوں کو خوش دیکھ کر ماں باپ سب بھول جاتے ہیں۔
بیٹا سب کو درجہ بدرجہ سلام، دعا، پیار دینا۔
آپ کی پھپھو
فرحت مظفر

گزشتہ دنوں میرا جی چاہا فرحت کے گاؤں جاؤں اور پرانی یادیں تازہ کروں۔ پہلے گاؤں کے قبرستان گیا۔ وہاں دفن فرحت کی چھوٹی بہن اختر کی قبر پر فاتحہ خوانی کا ارادہ تھا۔ اس کی معصوم صورت نے اپنی بہن اور ماں باپ ہی کو نہیں میرے خاندان بلکہ پورے گاؤں کے ہر خاندان کو سوگوار کردیا تھا۔

وہ مجھے کئی بار یاد آتی رہی ہے۔ جب بھی یاد آئی تو ورڈزورتھ کی تخلیقات کا مشہور کردار لیوسی یاد آگئی جو اختر ہی کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئی تھی جس پر ورڈز ورتھ کے قلم نے اپنے اشک ان الفاظ میں ڈھال دئیے تھے:
So Short her time she scarecely knew the meaning of a sigh.
(وقت مرگ وہ اتنی کمسن تھی کہ اسے آہ بھرنے کے معنی بھی نہیں معلوم تھے)

قبرستان پہنچے۔ میرے ساتھ وہ دوست بھی تھے جو اس گاؤں سے ہجرت کرتے وقت مجھے راستے میں سے ” شب باشی “ کے لئے واپس لے آئے تھے۔ افسوس! ہمیں اختر کی قبر کا نشان نہ مل سکا۔ بہرحال سب اہل قبور کے لئے دعا مانگی اور گاؤں چلے گئے۔ یہ میرے سفر کا بے حد جذباتی منظر تھا۔ پہلے فرحت کے گھر گیا جہاں اس کا سوتیلا بھائی ہمارا منتظر تھا۔ اس کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی مگر بے پناہ محبت سے ملا اور ہماری آؤ بھگت میں غیرمعمولی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ فرحت نے اسے فون پر میرے دورے کے بارے میں بتادیا تھا۔ فرحت کو میرے ” دورے “ سے پہلے عفت نے مطلع کردیا تھا۔ وہاں سے دیوار کے اس پار اپنے پرانے گھر کو دیکھنے چل پڑا۔ وہاں ان دنوں ایک اجنبی خاندان مقیم ہے جس نے والہانہ محبت کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔

برسوں بعد پرانے گھر کے محسن کو دیکھا تو میری نظر آنکھوں میں تیرنے والے آنسوؤں میں ڈوبنے لگی۔ نیم کا درخت اپنی ٹھنڈی چھاؤں سمیت قائم و دائم تھا۔اس کے نیچے ہمارے اور نواب صاحب مرحوم کے بچے اپنی شرارتوں کو بہاروں سے روشناس کراتے رہے۔ افسوس ! ان میں سے اختر، انور اور سعادت اب اس دنیا میں نہیں تھے۔ بن کھلے مرجھاجانے والی کلی اختر آج بھی میرے دل کے اتنی ہی قریب ہے جتنی نصف صدی پہلے تھی۔

تیری قربت کے لمحے پھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں

اس صحن میں باورچی خانے کے قریب اختر کی وفات کے فوراً بعد فرحت، بی بی جان کے گلے لگ کر روتے ہوئے ہم سب کو رلا رہی تھی۔ وہ دردناک منظر یاد آیا تو دل ناشاد سے لپٹی ہوئی کئی غم انگیز یادیں جذبات کو نذرآتش کرنے لگیں۔ اسی جگہ میرا چھوٹا بھائی سعادت کھیلا کرتا تھا جو یہاں سے نقل مکانی کے کچھ عرصے بعد 25 سال کی عمر میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگیا۔

معصوموں کی اس پربہار ٹیم کا ایک رکن دوسرا چھوٹا بھائی انور تھا۔ میں نے کمسن اور جواں سال مرحومین کی غم انگیز یادوں کے جلو میں فرحت کے اور اپنے گھر کو ملانے والی دیوار پر نظریں گاڑ دیں۔ اس دیوار کے ساتھ جو یادیں وابستہ ہیں، ان میں میری زندگی محو خواب ہے۔ یہ زندگی جینے کے لئے یادوں سے وابستہ رہنا ناگزیر سا ہوگیا ہے۔

فرحت اور بچوں کے رابطے الحمدللہ جاری ہیں۔ اتنے خوشگوار رابطے میں نے آج تک کسی بھی خاندان میں نہیں دیکھے۔ میرا بیٹا تو اپنی پھپھو کے ساتھ اتنا وابستہ ہے کہ اس کا ٹیلی فون ٹیپ کرکے بعد میں سنتا رہتا ہے اور اپنی بہنوں کو سناتا ہے اور بڑے فخر کے ساتھ کہتا ہے:
” اتنی شائستہ، مہذب آواز کبھی آپ نے سنی ہے! اتنی شفقت کیا آپ نے کسی اپنے بڑوں میں سے کسی ایک میں بھی ملاحظہ کی ہے۔“

اس بات پر نادم ہے کہ کئی بار وعدہ کیا مگر پھپھو جان کو اپنی بیٹی اور بیوی ملانے کا اہتمام نہیں کرسکا۔ فریقین میں یکساں تڑپ موجود ہے جو فراق کے بجائے وصل کی لذت سے سرشار رکھتی ہے۔

میرے اور فرحت کے خاندانوں میں بھی ایسا خوشگوار بندھن قائم ہوچکا ہے جس کی مثال شاذ ہی مل سکے گی۔ میری ماں نے فرحت کے ساتھ میرے بجائے اپنی غیر معمولی محبت کو یادگار بنانے کے لئے میری ایک بیٹی کا نام فرحت رکھا۔

ایک روز طاہر نے فرحت کو بتایا: ” باجی (عفت بتول) نے گاڑی خریدی ہے، آپ کو نہیں بتایا؟ فرحت کا جواب تھا: ” تمھارے مقابلے میں مجھے زیادہ حیرت ہوئی ہے کہ تمھیں بتادیا اور مجھے نہیں بتایا۔ ضرور بتائے گی اور آج ہی بتائے گی تو پوچھوں گی پہلے مجھے کیوں نہیں بتایا۔“

میری سب سے چھوٹی بیٹی سمیعہ کے ساتھ ایک المناک واقعہ پیش آیا (اس کی شادی ناکام ہوگئی) تو فرحت نے اسے جس انداز میں دلاسہ دیا، وہ اس کے زخم کے لئے بقول اس کے ” بہترین مرہم “ تھا۔ فرحت نے سمیعہ سے کہا: ” بیٹی! جی چاہتا ہے مجھے پر لگ جائیں اور میں اڑ کر تمھارے پاس پہنچوں اور غم بانٹوں مگر میری ناگزیر مصروفیات حائل ہیں۔ ایسے کرو، تم جلد از جلد میرے پاس آن پہنچو۔ میں تمھیں راستے ہی میں لینے آجاؤں گی۔ میری تمھارے ساتھ محبت تمھارے دوسرے اہل خانہ کے مقابلے میں سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ تم تو میری (فرحت کی) سب سے چھوٹی بیٹی کی ہم عمر ہو۔

میں نے اتنے مسلسل اور محبت آمیز رابطوں کو دیکھ کر چند روز قبل ارادہ کیا کہ میں خود بھی چپ کا ” روزہ “ توڑ دوں۔ ( یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ میں نے اور فرحت نے کسی بھی مرحلے میں ایک دوسرے سے براہ راست کلام نہیں کیا اور ایک غیر اعلانیہ ” خاموش معاہدے “ کے تحت ” چپ کا روزہ “ رکھا ہوا تھا۔

جب بات کرنے سے ” پرہیز“ تھا تو ملاقات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔) ایک روز میرے دل کی عجیب کیفیت ہوگئی کہ خیال آیا، معلوم نہیں کب اللہ کی طرف سے بلاوا آجائے، مجھے اپنے جاننے والوں میں سے ان لوگوں سے معافی مانگ لینی چاہیے جن سے مجھے کسی بھی قسم کی زیادتی کا شائبہ ہے۔ ان جاننے والوں میں فرحت بھی شامل تھی۔

میں نے بات کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا مگر ہمت نہیں ہورہی تھی۔ ایک روز ہمت کرکے فون کردیا۔ وہ چند ثانئے خاموش رہی مگر جب بولی تو بہت ہی بھلی لگی۔ اگلا عرصہ معافی مانگنے کا تھا مگر حسیات و جذبات نے دل کی دھڑکن کے ساتھ وہ کھلواڑ کر رکھا تھا کہ ہمت جواب دے گئی تاہم راہ ہموار کرنے کی کوشش کے طور پر فون بند کرنے سے پہلے کہا:” فرحت! میں پھر بات کروں گا۔ “ پھر بات کی مگر اس کے بچوں اور بچوں کے بچوں کی حیثیت دریافت کرنے کے آگے کچھ نہ کہہ سکا۔ بہرحال ایک دن وہ لمحہ آہی گیا کہ میں مقصد گوش گزار کرنے میں کامیاب ہوگیا:

” فرحت! اگر میری کوئی بھی بات آپ کو ناگوار گزری ہو تو مجھے معاف کردینا۔“ وہ بولی ” یہ کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا کہ آج کل اگلے جہاں سدھارنے اور وہاں آسانیاں حاصل کرنے کے لیے میں تمام اپنوں سے بھی معافی مانگ رہا ہوں ……“
فرحت نے کہا:”بعض رشتے معافیوں سے ماورا ہوتے ہیں۔“
اس جملے سے جو اطمینان بلکہ مسرت حاصل ہوئی، وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔

کچھ اپنی زبان میں

جیسا کہ عرض کرچکا ہوں، میرے اور فرحت کے تعلق خاطر کو شاندار اور انتہائی مفید انجام تک پہنچانے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت اور کرم فرمائی شامل تھی۔ ہم دونوں ہرگز یہ کچھ نہ کرسکتے۔ فرحت کے گاؤں میں قیام کے دوران میں انسانی فطرت کے داعیہ کے تحت کئی بار جی چاہا اس کے ساتھ بات کروں مگر نہ کرسکا۔

جب مجھے یہ پتہ چلا کہ فرحت بیڈمنٹن کے مقابلے میں شرکت کے لئے دوسرے شہر گئی تو اس کی سہیلی نے مجھے ٹیلی گرام پر یہ اطلاع دیتے ہوئے ” تلقین “ فرمائی تھی کہ میں فرحت سے ضرور ملوں۔ مگر مجھے وہ ٹیلی گرام موصول ہی نہیں ہوا۔ یہ بھی ذات باری تعالیٰ ہی کی کرم نوازی تھی۔ اگر ٹیلی گرام مل جاتا تو میں ضرور فرحت سے ملتا اور پھر حالات کا منفی رخ اختیار کرنا ناگزیر تھا۔

میرا جی کیوں نہ چاہے کہ ذات باری تعالیٰ پر قربان جاؤں؟َ میں ہم عصر دلدادگان سے گزارش کروں گا کہ اگر عقل سے لیا جائے، اپنے قدم راہ راست پر رکھے جائیں تو اللہ تعالیٰ محفوظ رہنے اور عاقبت سنوارنے کے اسباب پیدا کردیتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں