ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر ، سکالر ، ریاست جموں و کشمیر

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 4 )

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر
مرکز برائے تحقیق و پالیسی مطالعات ، بارہمولہ

پہلے یہ پڑھیے :

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 1 )

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 2 )

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 3 )

مولانامودودیؒ کے ساتھ ایک المیہ یہ ہوا ہے کہ اُن کے بعدان کی فکرکوکچھ عناصرنے غلط فہمی کی بناپر’ شدّت پسندی‘ کا بیانیہ بنا ڈالا۔ عہدِحاضرمیں دنیا کے بیشترممالک میں جنگ کا سما بندھا ہوا ہے۔ کلیسا کے پیروہوں یا تسبیح کے’محافظ‘،کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طریقے سے دہشت گردی کوختم کرنے کی آڑمیں خوداس صف میں کھڑے نظرآتے ہیں اور ’ دانشور طبقہ ‘ و تجزیہ نگاروں کاایک گروہ اس کے تانے بانے مولانا سید مودودی کی فکر و نظرکے ساتھ نُتھی کرنے پرمُصرہیں۔

اُن کی اس غلط فہمی اورموجودہ شدّت پسندی کے بیانیے کے کسی حدتک ’ تحریکی حلقہ ‘ خود ذمہ دار ہے۔حالانکہ مولاناؒ کی فکر، طریقہ کار واضح ہے۔ انہوں نے دعوتِ دین یا اسلامی حکومت کے قیام کے لیے زیرِ زمین سرگرمیوں ، خفیہ کارروائیوں ، مسلح جدوجہد اورغیرآئینی طریقِ کار کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس طرح کے تمام طریقوں کووہ حکمت عملی کے خلاف، ناروا اورغیرموزوں تصورکرتے تھے۔ مولاناؒکی بعض تحریروں کوسیاق وسباق سے کاٹ کر خائنوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی۔

نومبر1969ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے اجتماع میں ایک سوال کے جواب میں مولانا نے نونہالوں کونصیحت کرتے ہوئے کہا:

”ہمارا کام خفیہ تحریک چلانا نہیں بلکہ کھلم کھلا اپنے نظریات کو پھیلانا ہے۔۔۔ خفیہ تحریک اس طریقے سے چلتی ہے کہ اگرکسی شخص کے بارے میں یہ شبہہ بھی ہوجائے کہ وہ پارٹی کا وفادارنہیں ہے تواسے بلاتکلف قتل کردیا جاتا ہے اور یہ قتل وغارت گری اس تحریک کاعام مزاج بن جاتاہے۔۔۔۔ خفیہ طریقے سے کوئی مسلح انقلاب برپا کرنا اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے اورانجام کے لحاظ سے خطرناک بھی۔“ (تصریحات ص 149-150)

غلبہ دین کی جدوجہد میں ’ تدریج کی حکمت عملی ‘ کی اہمیت اور اس کے بنیادی اصولوں کو واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:

”اسلامی نظام زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کر کے حالات کا لحاظ کیے بغیر پورا کا پورا نسخہ اسلام یک بارگی استعمال نہ کر ڈالنا چاہیے بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان ومکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت وتدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو موخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہو سکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے جس کی ایک نہیں، بیسیوں مثالیں شارع کے اقوال اور طرز عمل میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت دین بدھووں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔۔۔۔“ (تفہیم الاحادیث،مرتب وکیل احمدعلوی۔ص454-455)

مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں آپ نے فرمایا:
”یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آرہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے، وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔

ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔“ (تصریحات ص 274)

”میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔

اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔

انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔۔۔“ (ایضََا92)

مولاناعمارخان ناصراس شدت پسندی کے بیانیے کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

” یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کا شمار دور حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے، تاہم مولانا کے زاویہ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث ومباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے، جبکہ معاصر جہادی تحریکوں کے ہاں اصولی اور نظری بحث اور عملی ومعروضی حالات کے تقاضوں کے مابین حکیمانہ امتیاز کا شدید فقدان ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود جہادی عناصر نے بحیثیت مجموعی تشدد اور تصادم کی راہ اختیار کر لی ہے جبکہ مولانا مودودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوؤں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خط وخال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔“(بشکریہ دلیل ڈاٹ کام،پاکستان)

مولانامودودی بیسویں صدی میں برصغیرکے مسلمانوں کے لئے اللہ کاایک احسان تھے۔اُن کے قلم نے مغرب زدہ،دین سے بیزارلوگوں کی کایاپلٹ دی۔انہوں نے اپنے نقطۂ نظر کو قرآن مجید کے تفصیلی دلائل کی بنیادپرمرتب کیاتھا۔اپنے نقطۂ نظرکومعقول طریقے پرثابت کرنے کی ان میں اتنی غیرمعمولی قابلیت تھی کہ مولاناابوالحسن ندویؒ نے انہیں بیسویں صدی کاسب سے بڑامتکلم اسلام قراردیاتھا۔

مولانا مودودی نے ایک طرف ’ تنقیحات ‘ لکھ کر مغربی فکرکے بڑھتے ہوئے اثرات پرزبردست چوٹ لگائی، تودوسری طرف ’ کمیونزم ‘ کے مقابلے کے لئے اہل ِاسلام کو گویا اُس دور میں ایک بیانیہ دیا۔ آدھی دنیا میں پھیل جانے والا ’ کمیونزم ‘ مذہب کے انکارکی بنیاد پرزندگی کا ایک ’ نظریہ ‘ اور ’ نظام ‘ دے رہا تھا، جوبہت متاثرکُن تھا۔ اس کے جواب میں اسلام کواسی اندازسے پیش کرکے مولانامودودیؒ نے بہرحال لوگوں کی ایک بڑی تعدادکو’ کمیونزم ‘ کی آغوش میں جانے سے بچایا اوراُس وقت اسلام کا دفاع کیا جب کہ فکری میدان میں اس کادفاع کرنے والا اور کوئی نہ تھا۔ مولانا کے کام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان کا کام اتنی محکم بنیادوں پرکھڑاتھا کہ اس پرکسی قسم کی گرفت کرنا بہت مشکل تھا۔

ابویحیٰ، مشہورمصلح وناولسٹ،کے بقول مولانا مودودی کی تحریرپڑھ کراسلام پراعتماد پیداہوتا ہے۔ مولانا کی فکرپھیلتی گئی اورعالمِ عجم کے ساتھ عالمِ عرب کوبھی فتح کرگئی۔ حسن البنّا شہید، سید قطب وغیرہ فکرواستدلال میں بہرحال وہ مولانا مودودی کے ہی ممنون احسان ہیں۔ سرِدست اس وقت امتِ مسلمہ پراگرکسی شخص کی’ فکری بادشاہی ‘ قائم ہے تو وہ مولانا سید ابوالاعلٰی مودودیؒ ہی کے نظریے کی’ حکومت ‘ ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا آخرکاربشرتھے۔ اُن کی فکری،علمی عظمت کے باوجود وہ اختلاف سے مستثنٰی نہیں۔

ذیل میں ان کی فکراور جماعت کے فہمِ دین اورطریقہ کار کے چند نقائص رقم طرازکئے جاتے ہیں:

اول: ’ اقامتِ دین ‘ کوامت مسلمہ کا ’ فریضہ ‘ قراردینا ، فرائض اسلام میں ایک ایسا اضافہ ہے جس کی واضح دلیل قرآن وسنت میں نہیں ملتی۔ رسول اللہﷺکے حوالے سے جن قرآنی آیات میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کی بعثت کا مقصد غلبہ دین و اظہارِ دین ہے، مولانا نے ان آیات سے استنباط کرکے ’ حکومتِ الٰہیہ ‘ کے قیام کوفرض قراردیا جوکہ بقول مولانا وحیدالدین خان اسلاف کی پوری علمی روایت کے خلاف ہے۔ مولانا خان صاحب اورمولاناابوالحسن ندوی مرحوم نے تنقید کرکے بتایا کہ جن آیات اوراصطلاحات کی بنیاد پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے، وہ آیات کسی طوریہ بات بیان نہیں کرتیں۔

دوم : جماعت میں وعظ و تذکیرکا پہلو دب گیا ہے۔ روحانی کیف و سرور وہاں عنقاء ہے۔ یہ جماعت کے نصب العین کا اساسی عنصرنہ بن سکا۔ کارکنان کی روحانی تربیت کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا مولانا مودودی مختلف مواقع پراپنی تقریروں اورتحریروں میں عندیہ دے چکے تھے۔

سوم: جماعت پرسیاست کاغلبہ دیکھنے کوملتا ہے۔ دعوت کے میدان میں جس صبر، تحمل اور تواترکی ضرورت تھی، کہیں نہ کہیں وہ صفات ہاتھ سے چھوٹ گئی ہیں۔ ایک صالح معاشرہ تعمیرکرنے کے لئے اور پھر اسلام کی حکمرانی لانے کے لئے جس طریقِ کار کی ضرورت تھی وہ ابتدا سے ہی مفقود ہے۔ غیر اسلامی نظریات نے پہلے صدیوں عوام کے اندر رہ کر دلفشانی سے کام کیا۔ اپنی بنیادیں مضبوط کیں۔ سماجی خدمات کرکے گھرگھر، قریہ قریہ اپنا پیغام پہنچایا ۔ مدّتوں اپنے ہم خیال افراد کی تربیت کی، تب جا کے آج وہ سپید و سیاہ کے’ مالک ‘ بن بیٹھے ہیں۔ جماعت نے بھی خدمتِ خلق میں اپنا لوہا منوایا لیکن اپنی بنیادیں مضبوط کرنے میں وہ ناکام رہے۔ مولانا مودودی کے نظریات نے اگرچہ مسلمانوں کے مذہبی، فکری طبقات کو فتح کرلیا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ عوام میں ان کی فکر کو کوئی بہت زیادہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔ کوئی فکر جب عوامی تحریک میں تبدیل ہوجاتی ہے تو انقلاب لاتی ہے۔ جماعت وہ کارنامہ انجام نہ دے سکی۔

چہارم : نصب العین کے حصول کے لئے ’ تحریک ‘ کسی ایک ڈگر پر’ ساکن ‘ رہ کر کام کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ تجربات وطریقِ کارجب ناکام ہوں تو اُسے اُس سنگِ راہ سے ہزارچشمے پُھوٹنے کا گُن بھی آنا چاہیے۔تحریک نام ہی ہے ’ تحرُک و تبدّل ‘ کا۔ قوی علمی وعقلی دلائل سے جب کسی کے دعوے کو ردّ کیا جائے تو شریفانہ طرزعمل یہ ہے کہ اُن اختلافات کا علمی جواب دیا جائے یا پھراُس تنقید کے سامنے سپر ڈال کر اپنے نصب العین میں تبدیلی لائی جائے۔

پنجم : مولانامودودی نے جس جانفشانی اورعقلی دلائل کے ساتھ اپنے نظریے کوپیش کیا۔ جس محنتِ شاقہ اور ژرف نگاہی سے انہوں نے باطل نظریات کے تار و پود کھولے، وہ محنت اب جماعت میں عنقاء ہے۔مولانا مودودی کے بعد وہ علمی شخصیت جماعت پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ مولانا کے دورمیں ان کی تحریرکا ’ سحر ‘ چھایا ہوا تھا۔ بڑے اشتیاق سے عوام وخواص مولانا کی تحریر کے انتظار میں رہتے تھے لیکن اب وہ علمی ذوق وشوق قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

ششم : مولانا مودودی کی تشریح دین میں اسلام کے عبادتی نظام پراتنی توجہ نہیں ملتی جتنی کہ اس کے سیاسی نظام پرہے۔ حالانکہ اسلام کے عبادتی نظام کی غرض وغایت انسانی نفوس کا تزکیہ ہے۔اس مقصد کوحاصل کیے بنا ارضی غلبہ واقتدار بے مقصد اورعدلِ اجتماعی کے نظام کا قیام ناممکن ہے۔

ہفتم : جماعت میں ایک نقص دعوت کی غیرمنصوص ترتیب ہے۔ قرآن کے مطالعہ سے انبیاء کی دعوت کی جومنصوس ترتیب معلوم ہوتی ہے اس میں ایمان کو اوّلین درجہ حاصل ہے۔ اس کے بعد تقوٰی واحسان کے درجات آتے ہیں۔

ریاست و حکومت کا درجہ سب سے آخر میں آتا ہے وہ بھی حالت وظروف کے ساتھ مشروط ہے نہ کہ علی الاطلاق مطلوب۔ انبیاء کی پوری تاریخ میں صرف گنے چُنے رسل علیہم السّلام سریرِسلطنت پرمتمکن رہے۔ رسول کی حیثیت سے یہ ان کی دعوت کا تقاضا تھا، نہ کہ ایسی سُنت جو کہ تا قیامت مسلمانوں پر’ فرض ‘ ہو۔۔۔۔( جاری ہے)
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 4 )”

  1. سہیل بشیر کار Avatar
    سہیل بشیر کار

    بہترین سلسلہ