ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر، سکالر

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ (3)

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر
’مرکز برائے تحقیق و پالیسی مطالعات‘بارہمولہ

پہلے یہ پڑھیے

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 1 )

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویّہ ( 2 )

اب اس سلسلہ کی تیسری قسط کا مطالعہ فرمائیے:

2 ۔ جماعتِ اسلامی:

امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے صدیوں سے جدوجہد جاری ہے۔اس جہد وکاوش کی نوعیت علمی وفکری بھی ہے، سماجی و تہذیبی بھی اورسیاسی و تمدنی بھی۔ ہردورکے صاحبانِ علم وفکر اپنی اپنی صلاحیتوں اورفہم ودانش کے مطابق اس جدوجہد میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

اکابرِامّت کی لمبی فہرست ہے جن کی کاوشوں اورقربانیوں کے دمکتے نقوش جریدۂ عالم کے صفحات پرثبت ہیں۔بیسویں صدی کے قافلہ سالاروں میں متعدد نام سامنے آتے ہیں مگر جن شخصیات نے امت کی بیدرای میں بہت نمایاں کردارادا کیا اورعلمی و فکری اور تعلیمی دائروں میں نہایت وسیع اثرات مرتب کئے،ان میں ہمیں مولانا سیدابوالاعلٰی مودودیؒ نمایاں نظرآتے ہیں۔

1931ء میں مولانا سید مودودی نے رسالہ ’ ترجمان القرآن ‘خریدا۔ بعد ازاں یہی رسالہ مولانا کے افکار و نظریات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ان کی شہرت کا ذریعہ بنا۔ 1936 ء تک یہ رسالہ خالص علمی ومذہبی نوعیت کاتھا۔ ’ حکومت الٰہیہ ‘ یا ’ نظامِ اسلامی کی اقامت ‘ کے حوالے سے ابھی تک اس رسالے کے صفحات ناآشناتھے۔

مسلمانوں کے مذہبی افکار و اعمال پرتنقید کے ساتھ ساتھ مغربی افکار و نظریات اورتہذیبِ فرنگی کے تاریک پہلوؤں پرمولانا متکلمانہ تنقید کرتے تھے اوراسلامی تہذیب کے محاسن کی تائید وحمایت کاپہلوغالب تھا۔ یہ رسالہ غیرمنقسم ہندوستان میں بلا امتیاز مسلک وعقیدہ اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد کومتاثرکئے بنا نہ رہ سکا۔مولانا مودودی ایک منجھے ہوئے انشاء پرداز تھے۔ اُن کے قلم کا جادُو اقبالؔ اور کلامؔ کوبھی اپنا اسیر کرگیا۔ اُن کے اچھوتے اسلوبِ نگارش اوردل کش منطقی طرزِاستدلال کا بھی اس جذب و التفات میں بڑاحصہ تھا۔

1937ء کے جداگانہ انتخاب میں کانگریس کو ہندوستان کے اکثر صوبوں میں واضح اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔اس صورتحال نے مسلمانوں میں اضطراب و سراسیمگی کی کیفیت پیدا کردی اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پرمجبور ہوگئے۔ مسلمان محسوس کرنے لگے تھے کہ اگراس خطرے کا بروقت سدِّباب نہ کیا گیا تومسلمانوں کے ملّی تشخص اوران کی تہذیبی انفرادیت کا خاتمہ یقینی ہے۔

کانگریس کی اس غیرمعمولی کامیابی کو دیکھ کر مسلمانوں کاایک طبقہ جس کی قیادت علماء کے ایک گروپ کے ہاتھ میں تھی، کانگریس کا ہم نوا بن گیا اور’ متحدہ قومیت ‘ کی حمایت شروع کردی۔ مسلم لیگ اوراس کے حامی علماء نے شدید مخالفت کی۔ اس صورتحال کے پیشِ نظرمولانا سید مودودیؒ نے 1937ء کے آخراور 1939ء کے آغاز تک ایک سلسلۂ مضامین شروع کیا جو بعد ازاں ’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔

ان مضامین میں ایک طرف جمہوری لادینی نظام کی مضرتوں سے، جس کی بنیاد قومیت واحدہ کے کانگریسی نظریہ پر قائم تھی، مسلمانانِ ہند کوآگاہ کیا گیا تودوسری طرف آئینی تحفّظات اوربنیادی حقوق کی اصلیت وحقیقت بھی ان پر واضح کی گئی اورانہیں خبردارکیا گیا کہ الفاظ کے گورکھ دندوں میں نہ الجھیں بلکہ حقائق پرنگاہیں مرکوز رکھیں۔ علاوہ ازیں مولانا نے ان مضامین میں ہی مثبت طورپراپنے نصب العین کا بھی اظہار کیا ، جوآگے جا کر’ اقامتِ دین ‘ کی ان کی دعوت وفکر کا سنگِ بنیاد بنا۔ (احیائے ملت اوردینی جماعتیں، ص 272 از الطاف احمداعظمی)

اسلامی نظامِ حیات کے بارے میں مولانا مودودی کی تحریروں، ان کے استدلال، ان کے علمِ کلام اوران کے سائنٹفک اسلوبِ نگارش نے مشرق ہی نہیں بلکہ مغرب کی نئی نسل پر دوسروں سے زیادہ وسیع اور گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اپنی کتابوں کے ذریعے فکری سطح پرانھوں نے بعض کلیدی نوعیت کے نکات کو واضح کیا، جیسے:
1۔ قوت و طاقت اور حاکمیت و حکمرانی کا سرچشمہ اللہ تعالٰی ہے۔
2۔ اسلام ایک جامع نظامِ حیات و اقدار ہے۔
3۔ دین و سیاست میں دوئی نہیں۔
4 ۔ عصرِ حاضرمیں ایک اسلامی ریاست کی صورت گری ممکن ہے۔
5۔ اور اقامتِ دین کے لئے ایک منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ (ابوالاعلٰی مودودی:علمی وفکری مطالعہ ۔ ص 10، مرتبین رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصورخالد)

معاشرے میں صالح انقلاب کے بارے میں مولانامودودی کے نظریہ و فکرکی ترجمانی ، اُن کی بپا کردہ تنظیم ’ جماعت اسلامی ‘ کررہی ہے۔ یہ جماعت پاکستان،آزادکشمیر، بنگلہ دیش، سری لنکا، ہندوستان، اورجموں وکشمیرمیں وہاں کے مخصوص حالات کی روشنی میں،طریقِ کارکی تبدیلی کے ساتھ اوراپنے خود مختارنظم کے ساتھ کام کررہی ہے۔ مولانا مودودی کے افکارکاحلقۂ اثر اب محض جنوبی ایشیاء تک محدود نہیں رہا بلکہ دنیا کے بیشترعلاقوں تک ان کے اثرات پہنچے ہیں۔ مختلف اسلامی تحریکیں مولانا کی فکرونظرکے اسیرہوئے ہیں۔

مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تاسیس نصب العین کے حصول کے لئے اجتماعی جدوجہد کے لئے کی۔ وہ نصب العین جیسا کہ سطورِبالا میں اشارہ کیا گیا ’ حکومتِ الٰہیہ ‘ کا قیام ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح عالمِ تکوینی کے سارے معاملات اللہ کی مرضی و منشاء کے مطابق انجام پاتے ہیں اورکائنات کی ہرچیزاس کے تابع فرمان ہے،اسی طرح عالمِ تشریعی یعنی انسان کی تمدنی زندگی کا بھی حاکم و آمراللہ ہے۔ اس لئے انسان کے انفرادی واجتماعی دونوں معاملات اسی کے حکم و ہدایت کے مطابق انجام پانے چاہئیں ۔ اگراس کے برخلاف ہے تو یہ حاکمِ حقیقی کے خلاف بغاوت کے ہم معنی ہے۔ ’ نصب العین ‘ کے عنوان کے تحت مولانائے محترم رقمطرازہیں:

” جماعت اسلامی کانصب العین اوراس کی تمام سعی و جہد کا مقصود دنیا میں حکومتِ الٰہیہ کا قیام اورآخرت میں رضائے الٰہی کاحصول ہے۔“ ( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش، حصہ سوم، ص172)

نصب العین کی’ تشریح ‘ کرتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں:
” جہاں تک امرِتکوینی کاتعلق ہے، اللہ تعالٰی کی حکومت آپ اپنے زور پر قائم ہے اور اس سے بالاتر ہے کہ معاذ اللہ اس کا قیام و بقا بندوں کی مدد کا محتاج ہو۔ تمام مخلوقات خواہ ارضی ہوں یا سماوی،اس کے قہر وغلبہ سے مغلوب ہیں۔ اس کے زبردست قانون کی بندش میں جکڑی ہوئی ہے۔ کسی میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارا نہیں اور دوسری مخلوقات کی طرح انسان بھی خواہ وہ مومن ہویا کافر، اللہ کی تکوینی حکومت کے تحت ایک بندۂ مجبورہے۔ لہٰذاحکومت الٰہیہ کے قیام سے مراد اللہ کی تکوینی حکومت کا قیام نہیں بلکہ دراصل اس سے مراد اللہ کی شرعی حکومت کا قیام ہے، جس کا تعلق صرف انسان سے اورانسان کی زندگی کے اس حصے سے ہے، جس میں اللہ نے انسان کو اختیار عطا کیا ہے۔“(ایضََا ص 171)

مولانا کے بقول جو شخص صرف تکوینی حیثیت سے اللہ کومانتا ہو لیکن انسانی زندگی کے اختیاری حصہ میں خود کو مختارِ مطلق سمجھتا ہو اور زمین کے کسی حصّے میں اپنی مرضی کے مطابق جس طرح چاہے حکومت کرنے کا مدعی ہو، تو وہ دراصل خدا کے مقابلے میں بغاوت کا مرتکب ہے۔ اس بغاوت کو فروکرنا مردِ مومن کی زندگی کا اصل مقصود ہے، لکھتے ہیں:

” مومن کا کام اس بغاوت کودنیا سے مٹانا اورخدا کی زمین پرخدا کے سوا ہرایک کی خداوندی ختم کردینا ہے۔مومن کی زندگی کا یہ مشن ہے کہ جس طرح خدا کا قانونِ تکوینی تمام کائنات میں نافذ ہے، اسی طرح خدا کا قانونِ شرعی بھی عالمِ انسانی میں نافذ ہو۔ “( ایضََا ص 176)

اسلامی ریاست کی ضرورت کے متعلق مولانا کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے زندگی گزارنے کا جو اسلامی تصوردیا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی پوری زندگی اللہ کی رضا اور منشا کے حصول کے لئے صرف کردینی چاہیے۔ قرآن صرف اخلاقیات کے اصول ہی بیان نہیں کرتا بلکہ زندگی کے دیگرشعبوں کے لئے بھی ہدایات دیتاہے۔ وہ بعض جرائم کی سزائیں بھی تجویزکرتا ہے اور مالیاتی معاملات کے اصول بھی طے کر دیتا ہے۔ جب تک کوئی ریاست ان کونافذ کرنے کے لئے موجود نہ ہو، یہ سارے اصول اور ضابطے عمل میں نہیں لائے جا سکتے اوراسی سے اسلامی ریاست کی ضرورت سامنے آتی ہے۔

مولانا نے سورۃ النساء کی اٰیت 59 سے اسلامی ریاست کے حسب ذیل اصول اخذ کئے:
1۔ اللہ ،مقتدر اور بالا دست قانون عطا کرنے والا ہے اوربلا چون وچراں اُس کی اطاعت لازمی ہے۔
2۔ محمد الرّسول اللہﷺ کی غیرمشروط اطاعت وفرماں برداری لازم ہے۔
3۔ تمام دوسرے صاحبانِ اختیارکی اطاعت اس امرسے مشروط ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کی اطاعت سے باہر نہ نکلیں۔
4۔ اللہ کے احکامات اوررسول اللہ ﷺ کے فیصلوں کے بارے میں حیص بیص ممکن نہیں جبکہ دوسرے تمام اولی الامرسے تکرار ہوسکتی ہے۔ حکومت اورعوام دو فریق ہیں۔ بفرضِ محال اگران دونوں کے درمیان کوئی تنازع پیدا ہوجائے تومعاملہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کی طرف لوٹایا جانا لازم ہے۔ (تفہیم القرآن،جلداول۔ ص 363 – 365)

سید مودودی کا ایک بڑا کارنامہ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے رائے عامہ کی ہمواری اوراس کی فکری و فلسفیانہ بنیادوں کی تشریح و توضیح ہے۔ مولانا نے پورے عزم وایقان کے ساتھ قدیم کے حوالے سے ہراحساسِ کہتری اور جدید کے بارے میں ہرمرعوبیت سے بالاتر ہوکر، اسلامی ریاست کے تصور،اس کے فلسفے، نظامِ کار اور اصولِ حکمرانی کی شرح و بسط کے ساتھ وضاحت کی ہے۔ اس عمل میں قدم قدم پراُن کے تفقہ فی الدّین، سیاسی واجتہادی بصیرت ، عصری آگہی اور جدیداسلوب میں اُن کا انتہائی موثرانداز بیان، استدلال اورمتکلمانہ لب ولہجہ نمایاں ہے۔ یہ اُن کا وہ کارنامہ ہے جس میں گزشتہ تقریبََا تین صدیوں سے عرب وعجم میں کوئی ان کاثانی نہیں۔ ( ابوالاعلٰی مودودی : علمی وفکری مطالعہ۔ ص 348 ، مرتبین رفیع الدین ہاشمی، سلیم منصورخالد)

عہدحاضرمیں اسلامی ریاست کی تشکیل کاعمل اوراس کامخصوص منہج یا طریقہ کار وہ موضوع ہے، جس کی تفہیم وعملی تفسیرمیں مولانا مودودی کو دوسرے مفکرین پر سبقت اورامتیازحاصل ہے۔ ریاست کی تنظیم کیسے ہو، اس کی تشکیل و طریقہ کاراور منہج کیسا ہوکہ اس میں عصری ضرورتوں کی تکمیل بھی ہوسکے اورقرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات اوررہنما اقدار اور خلافتِ راشدہ کے تاریخی تعامل سے سرِموانحراف بھی نہ ہو،

اس موضوع پرعلماء میں سے صرف مولانا مودودی نے دلچسپی لی۔اسلامی حکومت کے قیام کی صحیح ترتیب مولانا کے نزدیک یہ ہے کہ پہلے ایک تمدنی‘اجتماعی اوراخلاقی انقلاب پیدا کیا جائے کیونکہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اوپر سے ہی مسلط نہیں کئے جاسکتے بلکہ اندرسے اُن کے اتباع کا دلی جذبہ پیدا کیا جانا ضروری ہے۔ (اسلامی ریاست،ص 56)

اسلامی حکومت کسی معجزے کی صورت میں صادر نہیں ہوتی۔ اس کے پیدا ہونے کے لئے ناگزیرہے کہ ابتدا میں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریہ حیات، وہ مقصدِ زندگی، وہ معیارِاخلاق ، وہ سیرت و کردار ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہو۔ اس کے لیڈر اور کارکن صرف وہی لوگ ہوں، جواس خاص طرزکی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کے لئے مستعدہوں۔ پھروہ اپنی جدوجہد سے سوسائٹی میں اُسی ذہنیت اوراُسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں۔

پھراسی بنیادپرتعلیم وتربیت کاایک نیانظام اٹھے، جواُس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیارکرے، جودنیا کے نا خدا شناس آئمہ فکرکے مقابلے میں اپنی عقلی وذہنی قیادت کا سکّہ بٹھا دیں اور ہر بھٹی میں تَپ کر ہرآزمائش میں سرخرو ہوکر اپنے قول وفعل سے، اپنی انفرادی واجتماعی کردار سے اسلام کی شہادت دیں تاکہ صالح عناصراُن کی طرف کھینچتے چلے آئیں اورپست ذہنیت اورپست سیرت افراد دبتے چلے جائیں اورعوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب رونما ہو جائے اور وہ نظامِ زندگی عملََا قائم ہوجائے جس کے لئے زمین تیارہوچکی ہے۔

اسلامی حکومت کے قیام کا یہی تدریجی طریقہ ہی فطری طریقہ ہے اوریہ انقلاب اُسی صورت میں رونما ہوگا، جب ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات وتصورات اورمحمدی سیرت وکردارکی بنیاد پر اٹھے اور اجتماری زندگی کی ساری ذہنی، اخلاقی ، نفسیاتی اورتہذیبی بنیادوں کو طاقتور جدوجہد سے بدل ڈالے۔ (ایضََا ص 695)

سیدمودودی اس زمانے کی پیداوارہے جب چہارطرف مغربی افکار، سائنس وٹیکنالوجی کا دبدبہ تھا۔ مشرق زیرِعتاب بھی تھا اورمرعوب بھی۔ عوام وخواص معذرتانہ رویہ اختیارکئے ہوئے تھے۔ اس ماحول میں مولانا سید ابوالاعلٰیٰ مودودی جیسا بطلِ جلیل مشرق کی گود سے اٹھتا ہے اورمغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال کراُن کے فسادِ فکرونظرکی قلعی دلائل و براہین سے کھولتا ہے۔ مولانا کا یہ سب سے بڑاکارنامہ ہے۔ ’ حکومتِ الٰہیہ ‘ کا نظریہ سید مودودی کی سیاسی فکر کاہمیشہ مرکزی نکتہ رہا ہے۔ فکرِسیاسی میں یہ استقلال ، پامردی اور استحکام وہ عمل ہے، جوفکروعمل کی تاریخ میں سیدمودودی کو بہت ممتاز بنا دیتا ہے :

” دین اللہ بھی صرف اُسی چیزکا نام نہیں ہے جومسجدوں اورنمازروزے تک محدود ہوبلکہ اس سے مُراد بھی اُس پوری شریعت کی پابندی ہے، جواللہ کی رضا سے ماخوذ اور اس کی حاکمیت پرمبنی ہو اوراجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کواپنی گرفت میں لے لے۔“ (ایضََا ص68)
(جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں