ویٹنگ ناول ہا جن

انتظار۔۔۔۔۔ چینی ثقافت کا عکاس بہترین ناول

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زبیدہ رئوف :

Waiting یعنی انتظار چینی نژاد امریکی پروفیسر ” ہا جن” کا ایک خوبصورت ناول ہے، جسے 1999میں امریکہ کا نیشنل ادبی ایوارڈ اور اس کے بعد ولیم فاکنر ادبی ایوارڈ ملا۔ یہ ناول 1960 اور 80کی دہائیوں کی چینی ثقافت کا بہترین عکاس ہے۔ جب قوانین سخت تھے اور شخصی آزادی محدود تھی۔

ہاجن نے اپنے کئی انٹرویوز میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ یہ ایک سچی کہانی ہے ۔ شادی کے بعد ہاجن اور اس کی بیوی واک کر رہے تھے جب اس کی بیوی نے دور سے آتے ایک شخص کو دیکھ کر کہا کہ "یہ وہ آدمی ہے جس نے اٹھارہ سال اپنی بیوی سے طلاق کا انتظار کیا” ۔ جب ہاجن نے اس آدمی کی کہانی سنی تو اس نے اس پر ناول لکھنے کا فیصلہ کیا جس کو اس نے بہت سال بعد لکھا۔

ناول میں چینی تہذیب، کمیونزم کے مسائل کے علاوہ قدیم چین کی تکلیف دہ رسم ” فٹ بائنڈ نگ” یعنی پیر باندھنے کے رواج کا بھی ذکر ہے جس پر کچھ ڈاکومنٹریز بھی بنی ہیں کہ کس طرح قدیم چین میں چھوٹی بچیوں کے پاؤں تنگ جوتوں میں رکھے جاتے تھے تاکہ پاؤں بڑے نہ ہوں , اس کے نتیجے میں وہ بہت تکلیف سہتیں اور جوان ہونے پر ان کے پاؤں کسی بچی کی طرح چھوٹے رہتے۔

بظاہر یہ ناول محبت کے آفاقی موضوع پر ہے لیکن اس میں بورژوا سوسائٹی کے مسائل، چین کا63 سے 70کا ثقافتی انقلاب ، ماؤزے تنگ اور کمیونزم پارٹی کی نظریاتی کھینچا تانی پر بھی کافی کچھ لکھا گیا ہے ۔ ناول میں ایک ایسی فضا اور ماحول کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس میں ہر وقت کسی سماجی اصول کے ٹوٹ جانے کا خوف، بیرونی ثقافت کی طرف کھچاؤ اور بچاؤ کی کشمکش اور مسلسل ” پیرانو یا” کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے ۔ جیسے کہ غیر ملکی مصنفین کو پڑھنا جرم تھا ان کی کتابوں پر سادہ کاغذ چڑھائے جاتے اور انہیں رات کے اندھیرے میں چھپ چھپا کر پڑھا جاتا۔ ڈاکٹر اور نرس برآمدے میں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تھے، بغیر کسی قانونی وجہ کے سرکاری عہدیدار اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا تھا، اور اس کا محبت کرنا یا جنسی تعلق تو قابل تعزیر جرم ہوتا۔

ادبی مبصرین نے اسے انسانی احساسات کے لحاظ سے ایک بہترین شاہکار قرار دیا ہے۔ کچھ لکھنے والوں نے تو اسے موجودہ دور کا ایسا ادب پارہ قرار دیا ہے جو چیخو ف، گو گول اور ٹالسٹائی کی یاد دلاتا ہے جو انداز تحریر اب نئے زمانے میں ناپید ہے۔ مجھے اسے پڑھتے ہوئے ممتاز مفتی کی "آپا” اور "علی پور کا ایلی” میں ان کی والدہ کا کردار یاد آیا۔ اندر سے سلگتا ہوا مگر بظاہر سرد اور خاموش۔ ناول میں زبان کی سادگی اور کرداروں کی معصومیت بہت متاثر کن ہے۔ اس ناول میں کوئی ولن نہیں سوائے ناموافق حالات کے اور ہیرو انسانی کمزوریوں کا حامل عام انسان ہے ۔ بنیادی طور پر یہ بہت عام سے لوگوں کی کہانی ہے۔

قاری اس ناول کو کرداروں کے ساتھ ہمدردی میں ڈوب کر پڑھتا ہے لیکن آخر میں یکدم یہ احساس ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ایک انتہائی بے ضرر اور شریف انسان بھی دوسروں کے لئے خوشی کا باعث نہیں بن پاتا۔
ناول کا پہلا فقرہ
"ہر سال گرمیوں میں لین کانگ اپنی بیوی شویو کو طلاق دینے گوز گاؤں جاتا ہے”
قاری کو اپنی گرفت میں لیتا ہے اور پھر آخری صفحے تک وہ ناول کو چھوڑ نہیں پاتا۔

لین کانگ جو آرمی میں ڈاکٹر ہے، اس کے بوڑھے ماں باپ اپنے شہری ڈاکٹر بیٹے کی شادی گاؤں کی ایسی عورت سے کر دیتے ہیں جس کا وجود لین کے لئے ناپسندیدہ تھا۔ شویو ایک خدمت گزار بہو اور شوہر پر جان نثار کرنے والی بیوی تھی لیکن عمر میں بڑی ، ان پڑھ اور چھوٹے پاؤں والی عورت لین کے لئے باعثِ شرمندگی تھی ۔

وہ اپنے کولیگز میں شادی اور بیوی کے ذکر سے اجتناب کرتا۔ وہ کبھی بھی گاؤں آنا پسند نہیں کرتا تھا ۔ سال میں ایک دفعہ گاؤں آتا شویو کو طلاق کے لئے قائل کرتا ۔ وہ اللہ میاں کی گائے شوہر کی خوشی کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی عدالت جانے کے لئے رضا مند ہو جاتی لیکن ہر دفعہ عدالت میں کوئی ایسا واقعہ پیش آ جاتا کہ لین کو بغیر طلاق کے واپس آنا پڑتا ۔ اتنے سالوں میں اس کی بوڑھی ماں، بیمار باپ مر جاتے ہیں اور ان کی ایک بیٹی "ہووا” بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن لین کی شویو کے لئے ناپسندیدگی قائم رہتی ہے۔

شہر میں لین کو اپنی ساتھی نرس مانا وو سے محبت ہو جاتی ہے ۔ لین اور مانا وو کا ادبی ذوق انہیں ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے۔ ان کی زندگیوں میں بہت اتار چڑھاؤ آتے ہیں مانا لین سے اکثر اس بات پر خفا ھوتی ہے کہ ان کی شادی کی عمر گزرتی جا رہی ہے لیکن اس کے شویو کو طلاق نہ دینے کی وجہ سے وہ درمیان میں پھنسے ہوئے ہیں ۔

زندگی کے اٹھارہ سال گزرنے کے بعد چینی قانون کے مطابق اگر میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہتے تو شوہر بیوی کو بغیر کسی کاروائی کے طلاق دے سکتا ہے تو لین شویو کو چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی بیٹی جوان ہو چکی ہوتی ہے اور اس اثنا میں وہ ماں بیٹی لین کے تعاون سے موجی (شہر کا نام) آ جاتی ہیں۔

لین اور مانا بالآخر صبر آزما انتظار کے بعد شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ مانا سے شادی کے بعد لین کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اس شادی سے خوش نہیں ہے ۔ یعنی ایک طویل عرصہ وہ ایک ایسی خیالی خوشی کے تعاقب میں تھا جس کا وجود نہیں تھا یا شاید لین کا دل محبت اور گرم جوشی جیسے جذبے سے خالی تھا۔

لین اپنا تجزیہ کرتے ہوئے خود سے اعتراف کرتا ہے کہ” میں نے کبھی کسی سے بھر پور محبت کی ہی نہیں، جبکہ مجھے جس نے چاہا دل سے چاہا” ۔ لین اورمانا کے جڑواں بیٹوں کی پیدائش کے بعد ڈاکٹرز انہیں بتاتے ہیں کہ مانا کو دل کا مرض ہے , وہ بہت تھوڑا عرصہ زندہ رہے گی ۔ یہ بات لین کو بہت پریشان کرتی ہے کہ میرے نو مولود بچوں کو کون سنبھالے گا۔

وہ اپنی پریشان زندگی سے تھکا ہارا ایک دن شویو کے گھر جاتا ہے تو وہ اس کا بہت خوش دلی سے استقبال کرتی ہے , اس کے لئے بہترین کھانا تیار کرتی ہے اور اسے تسلی دیتی ہے کہ اگر مانا کو کچھ ہوگیا تو وہ بچوں کو ماں کی طرح پالے گی۔ اس دن ایک مدت کے بعد لین خود کو پرسکون محسوس کرتا ہے اور زندگی میں پہلی دفعہ وہ شویو کا شکر گزار ہوتا ہے۔ محبت میں دوہرے پن کا شکار ہونے کی کیفیات کا اظہار اس سے بہتر مشکل ہے جو اس ناول میں کیا گیا ہے۔

ہر اچھی کتاب پڑھنے کے شوقین کو یہ ناول پڑھنا چاہیے ۔ جو آخر میں قاری کو یہ سوچنے پر اکساتا ہےکہ کہیں اس کا اندر جس خواہش کے پورا ہونے کا منتظر ہے کہیں وہ لا حاصل نہ ہو۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “انتظار۔۔۔۔۔ چینی ثقافت کا عکاس بہترین ناول”

  1. Muhammad Usman Avatar
    Muhammad Usman

    بہترین تبصرہ