مہر فاروق سدھانہ

اے آنکھ ٹھہرجا….

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں
[email protected]

اے آنکھ ٹھہرجا
جی بھرکے اسے جاتے ہوئے دیکھنے تو دے
اے آنکھ ٹھہرجا !
تجھے رونے کی پڑی ہے

میرے پیارے ابا ! بہت دن ہوگئے آپ سے دل کی باتیں کیے ہوئے، آپ تو جانتے ہیں جس طرح آپ مجھے سمجھتے اور جانتے ہیں، ایسے کوئی اور سمجھ اور جان نہیں سکتا اور نہ ہی میں اپنے دل کی باتیں کسی اور کے ساتھ اس بے تکلفی سے بیان کرسکتی ہوں، جیسے آپ سے بیان کرنے کی عادت ہے ، آپ چلے گئے اور میرے لیے دنیا میں کچھ نہیں رہا۔ یہ ظالم دنیا جس میں آپ مجھے اکیلا کر گئے، اس کی حقیقت آپ کے جانے سے عیاں ہورہی ہے ، بالکل بھی رہنے کے قابل نہیں رہی ۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید میں گھر سے ، جائے ملازمت سے اس جگہ سے دور چلی جائوں گی تو آپ کے نہ ہونے کا احساس کم ہوجائے گا ،

شاید اسی وجہ سے گھر والوں نے بھی مجھے پھر سے دربدری کی اجازت دی کہ وہ جانتے ہیں میرا علاج پڑھنا لکھنا ہی ہوسکتا ہے، میرے اساتذہ کرام نے بھی میری کیفیت کاخیال کرتے ہوئے مجھے یونیورسٹی میں پہلی بار ہونے والے اعلیٰ تعلیمی پروگرام میں شامل ہونے کے لیے تحریک دی لیکن آپ کو معلوم ہے کہ اس سب سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا ، میں آتے جاتے آپ کو یاد کرتے، آنسو بہاتی گئی کہ اس راستے پر بکھری سب یادیں آپ کی تھیں،

میں گھر سے یونیورسٹی جانے کےلئے نکلتی تھی اور آپ فون پر رابطہ کرتے تھے، جو میرے وہاں پہنچنے تک وقفے وقفے سے جاری رہتا تھا ۔ جب پہنچنے کی اطلاع دیتی تو آپ گویا پرسکون ہوجاتے تھے۔ اب کون مجھے آپ کی طرح پوچھ سکتا ہے ، کون اس اندازمیں میرے لیے بے قرار ہوسکتا ہے اور کیسے؟ یہ میری خوش فہمی تھی کہ نئی مصروفیات اور ماحول میں شاید میں آپ کو کھونے کا غم ہلکا ہوتا محسوس کرنے لگ جائوں ، میرے لیے دنیا بھر میں کوئی جگہ ایسی نہیں رہی ، جہاں پہنچ کے آپ کی جدائی کا غم ہلکا ہوجائے ،

میں یہ سمجھی تھی
کہ لوگ جو بچھڑجاتے ہیں
سوچتی تھی
یاالٰہی یہ کدھرجاتے ہیں
تو جو بچھڑا تو یہ جانا
بنا لیتے ہیں یہ صرف ایک ٹھکانا
دل خاص یہ ڈھونڈتے ہیں
جہاں یہ رہ سکیں
کچھ اس کی سنیں
کچھ اپنی کہہ سکیں
تجھے اپنے دل میں پایا ہے
تو مجھے یقین آیا ہے
چھپ جاتے ہیں جو دنیا سے
وہ دل میں سما جاتے ہیں
ساری دنیاکو چھوڑ کر
پاس وہ اور آ جاتے ہیں

ہرگزرتے لمحے کے ساتھ روح پرلگایہ گھائو گہرا اور گہرا ہوتا چلاجا رہا ہے، زندگی بس آپ ہوتے تو یہ کہتے تھے اور آپ ہوتے تو یوں کرتے تک محدود ہوگئی ہے، ایک خلا اور گھپ اندھیرا ہے، جس کے پارآپ کو دیکھنے کی خواہش میں میری بینائی تڑپ تڑپ کر کم ہو گئی ہے اور اس مہربان چہرے کوکھوجنے میں ناکامی کو چھپانے کے لئے ان آنکھوں نے مصنوعی بصارت کاسہارا لیا ہے کہ شاید…. ؟

آپ کوپتہ ہے ایک بار امی نے مجھے آپ کے انداز میں پکار لیا اور میرے تمام رات آنسو نہیں رکے کہ مجھے ایسے کیوں پکارا؟ کوئی بھی مجھے آپ کے انداز میں کیوں پکارے؟ لیکن آپ نے تو خواب میں آ کربھی مجھے ایسے نہیں پکارا، کیا آپ کو نہیں معلوم کہ پچھلے چارماہ سے میرے کان اس مخصوص پکار کو ترس رہے ہیں ، زندگی سے بھرپور، وہ محبت بھری آوازجسے سنے بغیر آج تک زندگی کا ایک دن بھی نہ گزرا تھا ، وہ چار ماہ سے سماعتوں میں رس نہیں گھول رہی اور میں پھر بھی جئے چلی جارہی ہوں۔

آپ کوپتہ ہے ناں کہ بھائی جان ہمیشہ سے بہت ذمہ دار اور خیال رکھنے والے رہے ہیں، آپ کے جانے کے بعد وہ اور بھی خیال رکھنے والے ہوگئے ہیں، وہ بالکل آپ کے انداز میں سربراہی کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ کی طرح میرے ہرمعاملے میں جزئیات تک کا خیال رکھ رہے ہیں ، پر جب بھائی جان وہ سب کررہے ہوتے ہیں تو مجھے تکلیف ہو رہی ہوتی ہے ابا ! کوئی آپ کی طرح میرا خیال کیوں رکھے؟

آپ کو یاد ہے ناں آپ ہمیشہ چھوٹے بھائی سے کہا کرتے تھے کہ جب بھی گائوں آئو ، بہن کوبھی ساتھ لایاکرو اور وہ لاڈلاہونے کی وجہ سے آپ کی مجھ سے محبت پرکبھی کبھی چڑ کر کہا کرتا تھا کہ میں نہیں لائوں گا۔ جب سے آپ گئے ہیں، وہ مجھے لیے بغیر گائوں نہیں گیا ۔ آپ کو پتہ چل رہا ہے ناں کہ مجھے اس کی یہ فرمانبرداری بھی تکلیف پہنچا رہی ہے۔ جب آپ وہاں نہیں ہیں تو وہ کیوں مجھے ہر بار ساتھ لے کر جا رہا ہے ،

وہ خوبصورت مسکراہٹ جو مجھ پر نظر پڑتے ہی آپ کے چہرے کو روشن کر دیتی تھی ، وہ مسکراہٹ اور چہرہ کہاں تلاش کروں؟ ابو ! ہاں کون میری چھٹیاں ہونے کا منتظر ہے، کون ہے جو بار بار فون کرکے آنے کے پروگرام بنانے پر اصرار کرے گا؟

جب بھی میرا کوئی مضمون شائع ہوتا ہے ، درمیان والا بھائی بالکل آپ کے انداز میں اخبار ملتے ہی فون کرتا ہے اور اگر ایک دو ہفتے مضمون چھپنے میں ناغہ ہوجائے تو فکرمندی کا اظہار کرتا ہے اور لکھنے کو کہتا ہے ، میں کسے بتائوں کہ جب بھی کوئی آپ کے انداز میں میری دل جوئی کرتا ہے ، میرا سانس رکنے لگتا ہے اور دل جیسے پھٹنے لگتا ہے، دل اور روح کے وہ نہاں خانے جہاں تک صرف آپ کی رسائی تھی ، وہ مزید تاریک اور خاموش ہو جاتے ہیں۔

آپ کو پتہ ہے مجھے ابھی بھی یقین نہیں آتا کہ آپ نہیں ہیں اور یہ دنیا اتنی ظالم ہے کہ کہتی ہے کہ ایسا تو سب کے ساتھ ہوتا ہے ، سب نے ان رشتوں سے جدائی سہنی ہے اور سہہ رہے ہیں ، مجھے نہیں معلوم لوگوں نے ایسے غموں کو کیسے سہا اور آئندہ کیسے سہنے والے ہیں ، مجھے تو بس یہ معلوم ہے کہ میری زندگی ادھوری اور نامکمل ہو گئی ہے، جو کبھی بھی ویسی بھرپور اور مکمل نہیں ہوگی ، جیسے آپ کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ ان ظالم لوگوں کو ایسا کہتے خدا کا خوف تک نہیں آتا کہ میں نے اس غم ، دکھ ، تکلیف میں خود کو محدود کرکے ان کی نظروں میں اپنا تا ثر خراب کر لیا ہے ،

ابا ! اگرچہ میں آپ جیسی اعلیٰ ظرف نہیں لیکن ہوں تو آپ کی بیٹی …. چاہنے کے باوجود ایسے لوگوں کو یہ نہیں کہہ سکتی کہ کیا انہوں نے میری نظر میں بھی اپنا تاثر معلوم کرنے کی کوشش کی ہے ؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگ میری زندگی میں ذرہ برابر بھی عزت کے قابل نہیں رہے ۔ مجھے پتہ ہے آپ یہی کہیں گے کہ معاف کر دو اور آگے بڑھ جائو ۔

ابا جی ! میں نے معاف بھی کردیا اور آگے بھی بڑھ گئی ، لیکن یہ سمجھ کر کہ عزت بھی ہر شخص کو نہیں دی جانی چاہیے، یہ مانگنے سے نہیں ، کمانے سے ملنی چاہیے ، جب آپ مانگنے سے دے دیتے ہیں تو کم ظرف اسے سنبھال نہیں پاتے۔ ابا جی ! میں نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا ہے جن کے بارے میں سوچا تھا کہ زندگی بھر معاف نہیں کروں گی ، میری زندگی کے اس تکلیف دہ موڑ پر جس جس نے میری تکلیف میں اضافہ کیا میں نے انہیں معاف کر کے معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپردکیا ۔

میں جانتی ہوں آپ کو یہ اچھا لگے گا اور میں نے اسی لیے اتنا حوصلہ بھی کیا ، لیکن ابا جی ! یہ دنیا اتنی سنگدل کیوں ہے اور آپ اتنے اعلیٰ ظرف کیسے ہوئے؟ مجھے یاد ہے خاندان کے ایک فرد جو تمام عمر آپ سے حسد کا شکار رہے اور آپ کو نیچا دکھانے کی ہرممکن کوشش میں مصروف رہے ، جب ان کی بیٹی کی وجہ سے ان پر پریشانی کا وقت آیا تو آپ کیسے ہر بات بھلائے ان کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے رہے ، معلوم تک نہیں ہونے دیا کہ انہوں نے ہمیشہ آپ کو کس قدر تکلیف پہنچانے کی کوشش کی ہے ، پورے اہتمام سے انہیں گھر لائے ، بہترین میزبانی کی اور ان کا حوصلہ بڑھایا ،

میں کچھ دن پہلے یہ واقعہ امی سے ڈسکس کر کے پوچھ رہی تھی کہ آپ اتنے اچھے کیسے تھے ؟ ہمیں تو اس دنیا کے ساتھ معاملات طے کرتے دانتوں تلے پسینہ آ رہا ہے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے میں ابھی سے لڑکھڑاہٹ کا سامنا ہے ۔ ایک آپ کے جانے سے رشتے ، دوستی ، محبت ہر چیز کی قلعی کھل گئی ، دنیا اپنے بدصورت اور کریہہ روپ کے ساتھ ہمارے سامنے آ گئی ۔

مجھے بھی اپنے پاس بلا لیں ناں ، اس خوبصورت دنیا میں ، جہاں جا کر آپ ہمیں بھی فراموش کربیٹھے ہیں ، اپنی اولاد کو ، جن کے بغیر آپ کا لمحہ نہیں گزرتا تھا ، یقیناً اس دائمی نعمتوں والی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی نیک نیتی ، خلوص اور صاف دلی پر آپ کو بہترین اجر سے نوازا ہوگا۔ آپ تو بہترین جگہ پر پہنچ گئے، اور ہم اس آزمائش بھری دنیا کا سامنا کرنے کوتنہا رہ گئے . دعا کریں ناں یہ آزمائش جلدی ختم ہو جائے اور ہم بہترین مقام پر مجتمع ہوجائیں۔

ٹر گئے یار محبتاں والے نال ای لے گئے ہاسے
دل نہیں لگدا یار محمد جائیے کیہڑے پاسے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “اے آنکھ ٹھہرجا….”

  1. Neelam sial Avatar
    Neelam sial

    Buhhhtttt hi khoobsurat likhaa ap ny…ankhain num hogayin…Allah Pak Uncl ko jannat ul firdous myn aala muqam atta krain..ameen