سید صفدر گردیزی
ایک ہندوستانی فلم میں ہیرو کا یہ ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا ’گیارہ ملکوں کی پولیس ڈان کا انتظار کر رہی ہے۔ ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔‘
فلمی ڈائیلاگ کے برعکس حقیقت میں 54 برس قبل پاکستان کے چار اضلاع کی پولیس کیل کانٹے سے لیس ایک مقامی ڈان کو پکڑنے کے لیے وادی سون کے جنگلوں اور پہاڑوں کی خاک چھان رہی تھی۔ مطلوبہ ملزم چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتا تھا۔ سات برسوں سے اس کا بھی یہی دعویٰ تھا کہ ’محمد خان‘ کو پکڑنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔
آج سے 26 برس قبل 29 ستمبر 1995 کو طبعی موت کے باعث انتقال کر جانے والے محمد خان ڈھرنال جو عرف عام میں محمد خان ڈاکو کہلاتا تھا کی زندگی کسی ایکشن فلم سے کم نہ تھی۔ سنہ 1967 کی پہلی ششماہی کے اخبارات اس کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں۔ کوئی اسے وادی سون کا ’رابن ہڈ‘ لکھ رہا تھا تو کوئی اسے ایوب حکومت کی بے بسی کا چلتا پھرتا اشتہار قرار دیتا تھا۔
مغربی پاکستان کے گورنر جنرل موسیٰ کے حکم پر آئی جی صلاح الدین قریشی نے محمد خان ڈاکو کی گرفتاری کے مشن کی کمان خود سنبھال لی ۔راولپنڈی، سرگودھا ،کیمل پور (اٹک) اور میانوالی کی پولیس گرفتاری کے مشن کے لیے طلب کر لی گئی۔ آئی جی نے اپنے دو معاون ڈی آئی جیز کے ساتھ فتح جنگ کے مقام پر قائم عارضی آپریشن ہیڈکوارٹر میں ڈیرے ڈال دیے۔
محمد خان سات برس سے وادی سون، خوشاب اور چکوال میں مفرور ہونے کے باوجود کھلی کچہریاں اور متوازی عدالتیں لگاتا رہا تھا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہ مقامی لوگوں کے جھگڑے نمٹاتا۔ اپنے مخالفین اور مخبروں کو بدترین سزائیں دیتا تھا ۔ مقامی انتظامیہ اس کو ہاتھ بھی نہ لگا سکتی تھی۔ پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ محمد خان کے لیے قانون کی بند آنکھ اچانک کھل گئی؟
مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان کی مخالفین کے لیے ہیبت اور انتظامی مشینری کے لیے سخت گیری ان کی حکمرانی کے اصول تھے۔ محمد خان ان دنوں متعدد افراد کے قتل کے الزام میں مفرور تھا۔ اسے پولیس سے بچنے کے لیے سیاسی پشت پناہی چاہیے تھی۔ نواب صاحب کو اپنے مخالفین کو دہشت زدہ کرنے کے لیے سفاک اور منتقم مزاج شخص کی ضرورت تھی۔
گورنر کی آشیر باد نے محمد خان کو قانون کے ڈر سے بالکل آزاد کر دیا۔ اس نے وادی سون، چکوال اور خوشاب کے علاقوں میں غیر اعلانیہ اور متوازی عدالتی نظام قائم کر دیا۔ اس کے حواری کھلی کچہریوں کا اعلان کرتے۔ لوگ اپنی زمینوں کے جھگڑے، لڑائیوں اور قتل تک کے مقدمے اس کے سامنے پیش کرنے لگے۔ یہاں وہ مقدموں کے فیصلے ہی نہیں کرتا تھا بلکہ ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے رضاکار بھی بھرتی کر رکھے تھے۔
وادی سون کے رہائشی محمد ریاض نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’محمد خان کا ہمارے بزرگوں کے ہاں آنا جانا تھا۔ مجھے میرے چچا نے بتایا کہ تحصیل خوشاب کے علاقے مردوال کے ایک شخص نے پولیس کو محمد خان کی مخبری کی۔ جب اسے معلوم ہوا تو اس شخص کو اپنے پاس بلا کر اس کے ناک اور کان کاٹ ڈالے۔
ستمبر 1966 میں گورنر محمد خان کی ایوب خان سے راہیں جدا ہوگئیں۔ ان کے مخالفین نے ایوب خان کے کان بھرنے شروع کر دیے کہ نواب آف کالاباغ انہیں محمد خان سے مروانا چاہتا ہے۔
تلہ گنگ کے رہائشی سہیل عمران رشتے میں محمد خان کے بھانجے ہیں۔ انہوں نے بتایا ’ایک بار صدر ایوب خان کو یہ بتایا گیا کہ محمد خان ان پر حملہ کر سکتا ہے ۔اس لیے ان کا پہلے سے طے شدہ دورہ بھی ملتوی کروا دیا گیا ۔اس بات سے صدر ایوب طیش میں آگئے اور انہوں نے محمد خان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔‘
پولیس کی نقل و حرکت سے محمد خان مئی انیس سو سڑسٹھ میں روپوش ہوگیا۔ چھ ہفتوں تک پولیس نے علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا مگر کوئی سراغ ہاتھ نہ آیا۔
مجبور ہو کر پولیس نے جھنگ کے مشہور کھوجی جیلانی کی خدمات حاصل کی۔ جو قدموں کے نشانات سےکسی بندے کا کھوج لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اسی کے ساتھ فوج کے ڈاگ ٹریننگ سنٹر کے سب سے مشاق ’بیزل کو بھی محمد خان کا سراغ لگانے کے لیے سرگودھا پہنچا دیا گیا۔‘
چار اضلاع کی پولیس دن رات ایک کیے ہوئے تھی مگر وہ محمد خان کے سائے تک بھی نہ پہنچ سکی۔ اسی دوران محمد خان نے خود ایک حیرت انگیز اور ناقابل یقین حرکت کی جس سے پولیس کو اس کے ایک خاص علاقے میں موجودگی کی خبر ہوگی۔
اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ محمد خان ایک مفرور قاتل اور ڈاکو کیسے بنا؟
محمد خان نے تلہ گنگ کے علاقے ڈھرنال میں جنم لیا۔ پرائمری تک تعلیم کے بعد سکول چھوڑ دیا تھا۔ پچاس کی دہائی میں اس کے خاندان کا علاقے نمبر دار لال خان کے ساتھ دشمنی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جنہوں نے ان کے گھر پولیس کا چھاپہ پڑوایا تو محمد خان نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر لال خان کے گھر پر چڑھائی کر دی۔ جس کی پاداش میں اسے اڑھائی سال جیل کاٹنی پڑی۔ جیل سے واپسی پر مخالفین کے ساتھ صلح ہوگئی۔
محمد خان کی زندگی میں دوسری شادی کی صورت میں ایک ایسا طوفان آیا جس نے اسے قاتل اور مفرور بنا دیا۔
80 سالہ فاطمہ بی بی محمد خان کی سگی بہن ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کی اپنے چچا کی بیٹی سے شادی ہوئی تھی۔اس دوران اسے اپنے مخالفین کے خاندان کی ایک شادی شدہ عورت پسند آگئی۔ بات یہاں تک بڑھی کہ اس عورت نے اپنے پہلے خاوند سے طلاق لے کر محمد خان سے شادی کرلی۔ اس کے خاندان نے بدلہ لینے کے لیے محمد خان پر حملہ کیا۔ گاؤں کے کھیتوں میں گھمسان کی لڑائی میں دونوں طرف سے دو دو بندے مارے گئے۔ محمد خان کو 23 سال قید کی سزا ہوئی۔ مگر آٹھ مہینے بعد عدالتی چارہ جوئی سے اس کی ضمانت ہوگئی۔ اس بار رہائی کے بعد اس کا ٹکراؤ اپنے ہی خاندان سے ہوگیا۔
محمد خان کا چچا جو اس کا سسر بھی تھا اس کی دوسری شادی کو برداشت کرنے کو تیار نہ ہوا۔ اس نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر محمد خان کے گھر پر حملہ کر دیا۔ اس بار محمود خان کے ہاتھوں اپنے چاچا کے بیٹے مارے گئے۔ محمد خان اپنے بھائی ہاشم خان کے ساتھ وادی سون کی طرف فرار ہو گیا۔ جہاں کچھ عرصے بعد ہاشم خان گردوں کی بیماری کے باعث چل بسا۔ اگلے سات برس محمد خان کا بسیرا وادی سون کے جنگل اور پہاڑ تھے۔
27 جولائی 1967 کو تحصیل خوشاب کے علاقے سودھی کے پوسٹ آفس میں تین مسلح افراد داخل ہوئے۔ انچارج کو فورا تار ارسال کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اسے جب تار کے ذریعے پیغام بھیجنے اور وصول کنندہ کا پتہ لگتا ہے تو اس کا خون خشک ہو جاتا ہے۔
روزنامہ جنگ کی اس وقت کی خبر کے مطابق محمد خان ڈاکو صدر ایوب خان کو تار بھجوانا چاہ رہا تھا۔ اس نے تار کے مضمون میں لکھوایا کہ ’پولیس مجھے گرفتار کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ میں رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالنے کو تیار ہوں مگر ایک شرط پہ۔ وہ یہ کہ صدر ایوب اپنی ماہانہ نشری تقریر میں میرے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کریں۔‘
صدر ایوب سے یہ فرمائش محمد خان کو مہنگی پڑی۔ پوسٹ آفس کے ریکارڈ سے پولیس کو اس کے حدود اربعہ کا علم ہو گیا۔ اگلے روز پولیس اس کے تعاقب میں نکل کھڑی ہوئی۔ اس وقت کے روزنامہ کوہستان کے مطابق محمد خان نے پولیس سے بچنے کے لیے 24 گھنٹے میں بہتر میل کا پیدل سفر کیا۔ وہ وادی سون کے پہاڑوں میں چلتا اور گھاٹیوں میں پناہ لیتا رہا۔
ایس پی پولیس چودھری عطا حسین اس کے تعاقب میں تھا۔ پولیس کا کھوجی جیلانی اس کے قدموں کے نشان کھوجنے کی سعی میں لگا ہوا تھا۔ خشک پہاڑوں پر قدموں کے نشانات ملنے میں اسے مشکل پیش آ رہی تھی۔ یہاں محمد خان کی ایک اور غلطی نے سراغ رساں کتے کو بھی اس کے پیچھے لگا دیا۔
سرگودھا سے وہ پولیس کے بھیس میں چلتا ہوا محاصرے سے نکل آیا۔ اس نے ایک پولیس والے سے وردی چھین کر پہنی ہوئی تھی۔ اس دور کے روزنامہ جنگ میں چھپی تفصیل کے مطابق محمد خان نے ککراں والی چوٹی پر رات بسر کی۔ وہیں اس نے پولیس کی وردی اتار پھینکی۔ اس کے جانے کے بعد ڈی ایس پی شیخ اکرم کھوجی کتے کے ساتھ آن موجود ہوا۔ سراغ رساں کتے نے وردی سے اس کے جسم کی بو سونگھ لی۔ وہ پولیس کو دندا شاہ بلاول کے قریب ڈھوک بشیر تک لے گیا جہاں محمد خان نے ایک نالے میں پناہ لے رکھی تھی۔
یکم اگست 1967 کو محمد خان ڈھوک بشیر میں پولیس کے گھیرے میں آگیا۔ اس نے پولیس پر فائرنگ کی اور دو دستی بم پھینکے۔ جس سے دو پولیس والے زخمی ہوگئے۔ جوابی فائرنگ میں محمد خان کے پیٹ میں گولی لگ گئی۔ یہاں پولیس کانسٹیبل گل زمان خان نے زخمی ہونے کے باوجود اسے دبوچ لیا۔
گرفتاری کے بعد اسے سی ایم ایچ میں پولیس کے کڑے پہرے میں علاج کے لیے داخل کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق اس پر 40 سے زیادہ افراد کے قتل کا الزام تھا۔ اس کی گرفتاری پر دو مربع زمین اور 34 ہزار روپے نقد انعام رکھا گیا تھا۔ صحت مند ہونے پر اسے لاہور کے شاہی قلعہ منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اس کی تفتیش کے لیے ایک خصوصی ٹریبیونل بنایا گیا۔ طویل تفتیش اور قانونی مراحل کے بعد اسے چھ بار سزائے موت اور 148 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
محمد خان کی گرفتاری کا واقعہ ہی فلمی انداز کا محسوس نہیں ہوتا بلکہ اس کی سزائے موت پر عمل درآمد معطل ہوجانا بھی افسانوی طرز کا ہے۔
آٹھ جنوری 1976 کو اسے تختۂ دار پر لٹکانے کے انتظامات مکمل ہوچکے تھے۔ محمد خان کی بہن کے مطابق گھر والوں کو آخری ملاقات کے لیے بلا لیا گیا تھا۔
’ہم لوگ اٹک جیل میں اپنے بھائی سے آخری بار ملنے کے لیے گئے۔ ملاقات کرنے والوں کا ہجوم زیادہ تھا اس لیے ہم ہوٹل چلے گئے۔ وہاں پر ایک شخص بھاگتا ہوا آیا اور اس نے بتایا کہ پھانسی کی سزا روک دی گئی ہے۔ یہ سن کر میں نے خوشی کے مارے رونا شروع کر دیا۔‘
محمد خان کے بھائیوں نے پھانسی ملتوی کرانے کے لیے کورٹ میں اپیل کر رکھی تھی۔ سزائے موت پر عمل درآمد سے صرف 10 گھنٹے پہلے کورٹ نے پھانسی پر عملدرآمد روک دیا۔ دو سال بعد ہائی کورٹ نے سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی۔
سنہ 1989 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا۔ جس کے مطابق عمر قید کے 60 سال سے زیادہ عمر کے قیدیوں کو رہائی مل گئی . محمد خان کو بھی اس آرڈیننس کی وجہ سے بقیہ قید سے رہائی نصیب ہو گئی ۔
جیل سے واپسی پر اس نے پچھلی تمام دشمنیوں کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اپنے مخالفین کے ساتھ صلح کرلی۔ 29 ستمبر 1995 کو اپنی وفات سے کچھ ہفتے قبل اپنے آخری مخالف خدا بخش سے بھی صلح کر لی تھی۔
سیاسی طور پر محمد خان نے پیپلزپارٹی کا ساتھ دینا شروع کیا۔ ان کے بھانجے کے مطابق 1993 کے الیکشن میں ممتاز ٹمن کی جیت میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا۔ تلہ گنگ سے قومی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لینے والے محمد ہاشم خان محمد خان کے بیٹے ہیں۔
محمد خان کے بارے میں تلہ گنگ کے گرد و نواح میں اور وادی سون سکیسر میں بہت سارے افسانوی قصے مشہور ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ اپنے درینہ دشمن کا سامنا ہو جانے پر اسے نہتا دیکھ کر معاف کر دینا۔ مخبروں اور دشمنوں کو دن دیہاڑے للکار کر لوگوں کی موجودگی میں سزا دینا۔غریبوں اور ناداروں کے کام آنا۔
1992 میں ہدایتکار کیفی نے محمد خان کے نام پر پنجابی زبان میں ’محمد خان‘ کے نام سے فلم بنائی جس میں سلطان راہی نے محمد خان کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بھانجے سہیل عمران کہتے ہیں کہ فلم میں ان کی زندگی کی درست عکاسی نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ فلم بنانے والوں نے ان کے خاندان سے اجازت نہیں لی۔
ان کے مطابق جب محمد خان کی رہائی کی بات چل رہی تھی اس دوران بھی ان کے بارے میں ایک فلم زیرتکمیل تھی۔ ان کے بیٹے ہاشم خان نے ہائی کورٹ سے اس فلم کے ریلیز پر سٹے آرڈر لے لیا۔ ان کا موقف تھا کہ اس فلم کی ریلیز سے ان کی والد کی رہائی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر جیل خانہ جات ملک حاکمین خان نے اپنی آپ بیتی ’خار زار سیاست کے شب و روز‘ میں محمد خان کا تذکرہ کرتے ہوئے جیل میں اس سے ہونے والی ملاقات کا احوال لکھا ہے۔
حاکمین خان کے مطابق محمد خان کو اپنے کیے پر شدید پچھتاوا تھا۔ اس نے ان سے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اگر وہ انتقام کے بجائے برداشت کا رویہ اور راستہ اختیار کرتا تو اس کے خاندان کی بدنامی ہوتی نہ ہی اسے اپنی زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی پڑتی۔ ( بشکریہ اردو نیوز )