مسلمان باحجاب لڑکی قرآن مجید پڑھتے ہوئے

امی جان کی رمضان ڈائری (دسواں ورق)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ام محمد عبداللہ

پہلے یہ پڑھیے :

امی جان کی رمضان ڈائری ( پہلا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( دوسرا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( تیسرا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( چوتھا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( پانچواں ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( چھٹا ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( ساتواں ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( آٹھواں ورق )

امی جان کی رمضان ڈائری ( نواں ورق )

”اففف اتنی دور، وہ بھی اکیلے اور اتنا سامان اٹھا کر۔ ناں جی ناں ۔ میں نہیں جانے والا۔“ سعد بھائی نے یہ دہائیاں اس وقت دینی شروع کیں جب امی جان نے عصر کے بعد افطار اور کھانا بنا کر سعد بھائی کو کچی آبادی کی جھگیوں تک پہنچانے کا کہا۔

”سعد تنگ نہیں کریں۔ غریب روزے دار ہیں ان تک یہ سب پہنچا آئیں ۔“

”اتنی دور، سامان اٹھا کر کیسے جاؤں؟“ سعد بھائی بدستور اپنی بات پر قائم تھے۔”سعد“ امی جان نے سعد بھائی کو غصے سے گھورا۔ ”اچھا صہیب کو کہیں میرے ساتھ آئے ۔“

”کیوں جی؟ میں نے کل سارے محلے میں اکیلے افطاری بانٹی ہے۔ میں نہیں جانے والا۔“

”سعد تم پندرہ جبکہ صہیب تم گیارہ سال کے ہو چکے ہو۔ اتنے بڑے ہو گئے ہیں اور ذرا ذرا سا کام کرتے جان نکلتی ہے۔ محمد بن قاسمؒ کے بھائی تو کہیں سے نہیں لگتے تم دونوں۔ امی جان غم و غصے سے کہتے ہوئے واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئیں ۔

سعد بھائی گہری سانس لیتے ہوئے اٹھے اور افطار اور کھانے کے لفافے اٹھانے لگے۔ پیچھے پیچھے ان کی مدد کو صہیب بھی اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ وہ جانتے تھے اب امی جان ناراض ہو چکی ہیں اور عافیت بات مان لینے ہی میں ہے۔

”یہ محمد بن قاسم آپ سے بڑا کوئی بھائی تھا ہمارا ؟ ہم اس کے بھائی کیوں نہیں لگتے۔“ صہیب نے رستے میں سعد سے پوچھا۔ ”پتا نہیں۔“ سعد نے بیزاری سے جواب دیا۔

”یہ میرا سونے کا سیٹ ہے۔ اسے بیچ کر رقم اپنے پراجیکٹ میں لگائیے ۔“ امی جان نے اپنا پسندیدہ اور اکلوتا سونے کا سیٹ ابا جان کی طرف بڑھایا تو صہیب کو بہت حیرت ہوئی ۔

”ابھی کچھ دن پہلے ہی تو امی خالہ جانی کو بتا رہی تھیں کہ یہ سیٹ انہیں بہت پسند ہے اور خالہ کے بیٹے کی شادی میں وہ یہ ضرور پہنیں گی۔“

”ارے نہیں۔“ ابا جان کو سیٹ لینا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

” نہیں کیوں؟ آپ دین کی خدمت کے لیے ایک ادارے کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ یتیم بچوں کے لیے ایک ہی چھت کے نیچے مسجد، سکول، لاٸبریری اور لنگر خانہ کی تعمیر ہو رہی ہے۔ آپ کو رقم درکار ہے ۔ میری طرف سے یہ ہدیہ قبول کر لیں ۔ مجھے خوشی ہو گی اور میں خود پر ثابت کر سکوں گی کہ میں امی خدیجہؓ کی بیٹی ہوں۔“ امی جان کی بات سن ابا جانی نے مسکراتے ہوئے ڈبہ امی جان سے پکڑ لیا جبکہ صہیب کو حیرت ہو رہی تھی کہ نانی امی کا نام تو صالحہ ہے۔“

”امی جان آج آپ نے مجھے حیران کیا ہوا ہے۔ جلدی سے بتائیے یہ محمد بن قاسم بھائی کون ہیں؟ اور نانی امی کا نام تو صالحہ ہے آپ خدیجہ کیوں کہہ رہی ہیں؟ امی جان صہیب کی بات سن کر ہنس پڑیں اور اپنی ڈائری اس کی جانب بڑھا دی۔

”آج دس رمضان المبارک ہے۔ ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا یوم وفات۔ ام المومنین حضرت خدیجہؓ ایک بےمثال اور قابل تقلید شخصیت کی مالک تھیں۔ بیوہ ہونے کے باوجود انتہائی غیر محفوظ معاشرے میں بھی آپ ایک کامیاب بزنس ویمن تھیں۔ ملیکة العرب کے نام سے پہچانی جاتی تھیں۔ عرب کے جاہل اور غیر محفوظ معاشرے میں اپنے کردار کی مضبوطی اور پختگی کے باعث طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔

آپﷺ سے نکاح کے بعد آپؓ تمام زندگی نبی مہربانﷺ کا سہارا بن کر کھڑی رہیں۔ذہانت کے ساتھ نرم زبان اور کشادہ ہاتھ سے دعوت دین کا کام کیا۔ اپنا تن، من، دھن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا دیا۔ ہمیشہ دنیا کے عیش و عشرت کو نگاہ سے ہٹا کر آخرت کی کامیابی پر نگاہ رکھی۔ مشکل حالات میں رسول اللہ ﷺ کی اولاد کی بہترین تربیت فرمائی ۔ مجھے آج بہت اچھا لگا کہ آپؓ کی پیروی کرتے ہوئے میں نے اپنا سونے کا سیٹ صہیب کے ابو کو نیکی کے ایک کام کے لیے دیا۔ میں یہ بھی دعا کرتی ہوں کہ امی خدیجہؓ کی طرح میں اپنے بچوں کی بھی بہترین تربیت کر پاؤں ۔

دس رمضان المبارک ہو اور ہمیں محمد بن قاسمؒ کی یاد نہ آئے ۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ آخر آپ ہی کی وجہ سے تاریخ میں یہ دن یوم باب الاسلام کے نام سے جانا جاتا ہے۔

دس رمضان المبارک 92 ہجری مطابق 28 اکتوبر 711ء کا دن تھا کہ اروڈ نزد روہڑی ضلع سکھر کے مقام پر راجہ داہر کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی۔ فتح سندھ اسلامی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔یہ دیکھ کر دنیا حیرت زدہ ہوجاتی ہے کہ ایک 17سالہ نوجوان چند ہزار جانبازوں کو ساتھ لے کر دور دراز کے فاصلے سے سرزمین ہند کی اجنبی حدود میں داخل ہوتا ہے اور اس کے سامنے یہاں کے بڑے بڑے راجوں ، مہاراجوں کی بے پناہ مادی قوت بے بس ہو کر رہ جاتی ہے۔

محمد بن قاسم کے پاس محدود وسائل تھے۔مختصر سی جماعت تھی اور راستہ نہایت دشوار گزار ، مگر اس باکمال سپہ سالار اور عظیم فاتح نے اسلام دشمنوں کو نہ صرف اقتصادی اور مادی لحاظ سے فتح کیا، بلکہ ان کے دل و دماغ بھی اسلام کے لئے مسخر کرلئے۔

محمد بن قاسم امت مسلمہ کے قابل فخر فرزند تھے۔ آپ کی جرأت ایمانی ہی کی بدولت دس رمضان المبارک 92 ہجری کو سندھ میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑی اور سندھ کو باب الاسلام ہونے کا فخر حاصل ہوا۔

محمد بن قاسمؒ کا ذکر آئے تو مجھے ان سے ایسی ہی محبت و اپنائیت محسوس ہوتی ہے جیسے صہیب اور سعد سے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور امت کی تمام بیٹیوں کو ام المومنین حضرت خدیجہؓ سے وہ حقیقی نسبت عطا کرے جو ہمارے اخلاق و کردار سے جھلکتی ہو۔

رب کریم سے یہ بھی التجا ہے کہ ہمارے بیٹوں میں محمد بن قاسمؒ کے جیسی دینی حمیت و غیرت اور جانبازی و سرفروشی در آئے ۔ امت مسلمہ اپنی زبوں حالی سے نکل کر ایک بار پھر دنیائے عالم کی امام بن جائے ۔“

”امی جان! میں نے سوچ لیا ہے کہ میں بھی محمد بن قاسم بھائی کی طرح بہادر بنوں گا۔“

” اچھا شاباش۔“ ”آج آپ جہاں مرضی جگہ کے لیے افطاری اور کھانا بنا لیں میں اکیلے اور دور بھی دے آؤں گا۔“ صہیب نے معصومیت سے کہا تو امی جان اور ابو جان دونوں ہی ہنس پڑے۔( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں