بھارتی پولیس کا مسلمان نوجوانوں پر بدترین تشدد

بھارت : مسلم نوجوانوں پر پولیس تشدد کی ویڈیو نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رپورٹ : حمیرا ریاست رندھاوا

بھارتی پولیس کے ہاتھوں مسلمان نوجوانوں پر بدترین تشدد کی ویڈیوز نے پورے بھارت میں سخت غم و غصہ کی لہر پیدا کردی ہے۔اس دردناک ویڈیو میں دو انڈین پولیس اہلکاروں کو حراست میں موجود مسلمان مردوں کے گروہ کو ڈنڈوں سے مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیوز اس قدر زیادہ تشدد اور چیخ و پکار سے بھری ہوئی ہیں کہ ہم ان کا لنک یہاں شئیر کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں )۔ اب تک لاکھوں بھارتی اس ویڈیو کو دیکھ چکے ہیں ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں توہین آمیز باتیں کرنے والی نوپورشرما کی بیان بازی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اشتعال انگیز صورت حال کے بعد اب بھارت میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی گئی . یہ بات اب پوری طرح واضح ہو رہی ہے کہ انڈیا پولیس نے بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کے ایما پر پہلے ایک مسلمان گروہ پر بدترین تشدد کیا اور اس کے بعد حکومتی حکام نے پرتشدد ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کر دی . وڈیو نے انڈیا کی نام نہاد جمہوریت کا پول کھول دیا اور جمہوری معاشرے کی بنیادیں ہلا دیں ۔

پرتشدد ویڈیو بی جے پی کے رہنما شالابھ ترپاٹھی جو ایک طاقتور سیاستدان ہیں اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کے سابقہ مشیر برائے میڈیا بھی رہ چکے ہیں , نے شیئر کی ہے جس میں کوٹھوالی پولیس اسٹیشن میں مسلمانوں پر بد ترین تشدد کیا جا رہا ہے . وڈیو میں کوٹھوالی پولیس سٹیشن کا بورڈ بھی نظر آ رہا ہے اور پولیس رپورٹ میں بھی اسی تھانے کا ذکر ہے .

مگر ایک سینئیر پولیس آفیسر آکاش تومارکا کہنا ہے : ” ایسے واقعات سہارنپور میں نہیں ہوئے . میڈیا پر دو تین اور ویڈیوز موجود ہیں اگر ان ویڈیوز کو سلو موشن میں دیکھیں تو آپ کو اس میں دیگر اضلاع کے نام نظر آئیں گے ۔

تو مار نے مزید کہا ہے : ” اگر ضرورت محسوس ہوئی تو وہ ان ویڈیوز کے بارے میں تحقیقات کی کوشش کریں گے اور فوری کاروائی کریں گے .

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکار زیر حراست افراد کو جب مارتے ہیں تو وہ چلاتے ہوئے کہتے ہیں : ” ہمیں درد ہو رہا ہے نہ کرو ! "پولیس والے ویڈیو میں ایسے ڈنڈا گھماتے ہیں جیسے ان کے ہاتھ میں بیس بال بیٹ ہے. ڈنڈا لگتے ہی مسلمان نوجوانوں کی چیخیں بلند ہوتی ہیں اور وہ ڈر کر دیوار کے ساتھ لگ جاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو آگے کر کے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں .

ترپاٹھی نے یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے: ” یہ تشدد زیر حراست افراد کے لئے ” تحفہ ہے” . یہ 84 زیر حراست افراد کو بقول پولیس اور حکمران جماعت کے اس لئے گرفتار کیا گیا کپیونکہ یہ جمعہ کے دن ہونے والے مظاہرے میں تشدد پھیلانے والوں میں شامل تھے

یاد رہے کہ گزشتہ جمعہ کے روز مسلمان بھارت کے دیگر علاقوں کی طرح سہارنپور میں بھی احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔ کیونکہ حکمران جماعت بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز کلمات کہے تھے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی تھی اور مسلم ممالک نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا . نتیجتا نوپور شرما کو ان کی جماعت نے معطل کر دیا تھا اور کہا تھا کہ” وہ کسی بھی مذہب کی توہین کرنے کے خلاف ہیں .”

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گستاخانہ کلمات کہنے کے خلاف مسلمان احتجاج کے طور پر سہارنپور جو اترپردیش ہی کا ضلع ہے , کے ایک قصبے کی مسجد میں جمعہ کے دن جمع ہوئے مگر احتجاجی مظاہرہ شروع ہونے سے پہلے ہی پولیس کی بربریت اور تشدد کا آغاز ہو جاتا ہے . احتجاج میں اضافے کی وجہ سے تناؤ میں اضافہ ہوا اور بے گناہ مسلمان نوجوانوں کی غیر قانونی گرفتاریاں شروع ہوگئیں اور بدترین تشدد والی ویڈیو شیئر ہونے لگی .

زیر حراست مسلمانوں کے رشتہ داروں کے مطابق زیر حراست مسلمانوں بے گناہ ہیں . وہ اس بات کی بھی تردید کرتے ہیں کہ یہ افراد کسی ایسی کارروائیوں میں ملوث ہیں جو ملکی امن کے لئے خطرہ ہیں .

غیر قانونی حراست میں ایک نوجوان سیف جو 24 سال کا ہے، کی بہن زبیا نے جب ویڈیو دیکھی تو وہ چلانے لگی کہ” یہ میرا بھائی ہے وہ اس کو بری طرح مار رہے ہیں اور وہ زور زور سے چیخ رہا ہے”

زیبا سے بھائی کی تکلیف دیکھی نہیں جا رہی تھی . بعد ازاں جب وہ اپنے بھائی سے ملنے کے لیے گئی تو اس نے بھائی کے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھے . وہ بتاتی ہے : ” اس کا جسم مار پیٹ کے باعث نیلا پڑ چکا تھا اور وہ بیٹھ بھی نہیں پا رہا تھا ”

سیف کے رشتے داروں کا کہنا ہے وہ جمعے کے دن شام پانچ بجے اپنے دوست کے لئے بس ٹکٹ بک کروانے کے لیے گیا تھا کہ راستے میں اسے گرفتار کر لیا گیا حالانکہ وہ جمعے والے دن مسجد میں گیا ہی نہیں تھا اس لیے مظاہرہ کرنے والوں میں وہ شامل ہی نہیں تھا. وہ بے قصور ہے .

دوسرا متاثرہ خاندان فہمیدہ کا ہے جس کا بیٹا سبحان صرف انیس سال کا ہے جو اپنے دوست آصف کی معلومات لینے کے لیے گیا مگر اسے بھی گرفتار کر لیا گیا . فہمیدہ کا کہنا ہے : ” اس کے بیٹے کو بے رحمانہ انداز میں مارا گیا” حالانکہ وہ بے قصور تھا

انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ” 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد انڈیا میں عدم برداشت کا ماحول پیدا ہوا ہے اوراس دوران میں نفرت انگیز بیانات اور ملک میں مسلمان اقلیت کو نشانہ بنانا عام ہوچکا ہے ”

ایک اور خاندان جن کا بیٹا زیر حراست ہے اور پولیس تشدد کا نشانہ بنا . اس کی بہن مسکان کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے ساتھ بلڈوزرز لے کر آئی , ہمیں بھائی کی تصویر دکھائی اور پہچاننے کے لئے کہا گیا . پہچان پر ہمارا گھر مسمار کر دیا گیا .

زیر حراست مسلمانوں پر تشدد ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کے گھروں کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے . بی جے پی حکومت تجاوزات کا بہانہ بنا کر یہ کارروائی کر رہی ہے حالانکہ انڈیا میں لاکھوں افراد ایسے گھروں میں رہتے ہیں جن کے لئے باضابطہ اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اس لئے یہ کارروائی خلاف قانون ہے . اس سلسلے میں اترپردیش کے وزیراعلی یوگی ادتیا ناتھ نے ٹویٹ کی ہے : "بلڈوزرز کے ذریعے کارروائی قانون توڑنے والوں کے خلاف کی جارہی ہے”

گرفتار ہونے والے مسلمانوں کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں غیرقانونی ہیں مگر پولیس سے اس بات سے انکاری ہے کہ وہ ایسا کوئی کام مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے . سپریڈنٹ کمار کا کہنا ہے کہ صرف مطلوب افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے. اس کا کہنا ہے” جب ہم کسی کو گرفتار کرتے ہیں تو پہلے ہم انھیں ان کی فوٹیج دکھاتے ہیں جس میں وہ مظاہرہ کاحصہ ہوتے ہیں اور اس کے بعد ہم گرفتار کرتے ہیں تاہم گرفتار افراد کے خاندان اس بات کی تردید کرتے ہیں.

سہارنپور کے قصبے میں مختلف مقامات پر لوگوں کے گھر مسمار ہوئے اور اس کا حکم پولیس کو اعلی ترین سطح سے دیا گیا .

پولیس کی بربریت کا شکار ایک اور خاندان منی بیگم کا ہے جن کے شوہر اور بیٹے کو بھی پولیس نے گرفتار کیا ہوا ہے . منی بیگم اپنی بیٹیوں کے ساتھ اکیلی اپنے نئے گھر میں بھی خوف زدہ ہے . اس کا کہنا ہے : ” اگر اسے مسمار کر دیا گیا تو کیا ہوگا اور وہ اس ڈر سے سو نہیں پاتی.” وہ کہتی ہیں کہ ان کا شوہر اور بیٹا بے قصور ہیں.

انڈیا کے مشہور قانون دانوں اور سابق جج حضرات نے پولیس کی بربریت اور بلڈوزر کے غیر قانونی استعمال کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے . ان قانون دانوں نے ادتیا ناتھ پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے پولیس کو غیر قانونی انداز میں تشدد اور بربریت کے لئے استعمال کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی . ان قانون دانوں کے مطابق یہ غیر قانونی اقدامات قوم کا ضمیر جنجھوڑ رہے ہیں . ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے "حکومت کی جانب سے اتنے پرتشدد اقدامات قا نون کی بالادستی کو سلب کرنے کی ناقابل قبول کوشش ہے . یہ آئین میں ریاست کی جانب سے دیئے گئے بنیادی حقوق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے. ”

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے بھی انڈین حکومت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ عدم برداشت کا ماحول پیدا کر رہی ہے . ایمنسٹی انٹرنیشنل کے انڈیا بورڈ کے صدر آکار پٹیل کے بیان کے مطابق ” مظاہرین پر کریک ڈاؤن اور طاقت کا بھرپور استعمال ، اپنی من مانی سے لوگوں کی گرفتاریاں ، گھروں کو مسمار کرنا انڈیا کی جانب سے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون اور معیارات سے متعلق کیے گئے عزم کے منافی ہے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں