علامہ اقبال

علامہ اقبال نوجوان نسل سے کیا چاہتے تھے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ مدثر

علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر ہمیں بحثیت پاکستانی اس پیغام کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے جو اقبال نے شاہینوں کو دیا ۔انہیں خودی کا درس دیا ۔جھک جانا نہیں سکھایا بلکہ سر اٹھا کر جینا سکھایا۔

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

علامہ اقبال کے نزدیک نوجوان قوم کے لئے سر مایۂ افتخار اور امید کا پیغام ہیں۔ دور جدید میں نوجوانوں کے کردار کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں، نوجوانوں کے کردار کی ہی مرہون منت ہوا کرتی ہیں۔ وہ اپنی نوجوان نسل کو خودی مضبوط بنانے کی تلقین کرتے ہیں۔

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پردم ہے اگر تو تو نہیں خطرہ پرواز

اقبال نے نوجوان کو حوصلہ ، امید ، اور یقین کی راہ دکھائی ، اونچی اڑان بھرنے کے لئے خطروں کی پرواہ نہ کرنا سکھایا ۔اغیار کی غلامی کی بجائے خود اعتمادی سکھائی ، اپنی قوت پر انحصار کرنا سکھایا ، زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا ۔

علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیں بتایا کہ ہم بحثیت قوم اگر سر اٹھا کر جینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے دلوں کو جذبہ ایمانی اور خدا پر کامل یقین کے نور سے منور کریں۔ زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ کوشش میں خلوص اور یقین کامل شامل ہو تو منزلیں خود مسافر کا استقبال کیا کرتی ہیں۔

اب ہمارے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم بحثیت قوم اپنے ملک کو کیا ایسی نوجوان نسل دے سکے ہیں جس کا مطمع نظر ملک کی فلاح و بہبود ہو ، جس کی آنکھوں پر تعصب کی عینک نہ لگی ہو ، جس کا گفتار اور کردار اس کے عمل سے گواہی دے رہا ہو ، وہ دیگر اقوام میں اپنے ملک کا نام روشن کرنے کا باعث بنے اور جس کا گواہی حق و صداقت پر مبنی ہو ۔۔

اقبال ایسا نوجوان دیکھنے کے خواہاں تھے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں